بھارت اور اسرائیل کو کشمیر اور فلسطین سے اپنا قبضہ ختم کرنا ہوگا:اعلامیہ کل جماعتی کانفرنس

بھارت اور اسرائیل کو کشمیر اور فلسطین سے اپنا قبضہ ختم کرنا ہوگا:اعلامیہ کل جماعتی کانفرنس

اعلامیہ فلسطین ‘کشمیر یکجہتی کانفرنس
منعقدہ۱۳اکتوبر ۲۰۲۴‘راولاکوٹ
فلسطین اور کشمیر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔دونوں تنازعات کی شروعات ۱۹۴۷ء سے ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء میں فلسطین اور کشمیر دونوں کے عوام کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا۔
فلسطینی اپنی ریاست بحال نہیں کر ا سکے تو کشمیریوں کو بھی اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع نہیں مل سکا ۔عالمی ادارے اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین اور کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکامی کی وجہ سے دونوں مغربی اور جنوبی ایشیائی خطے فوجی تنازعات کی صورت میں عدم استحکام کا شکار ہوئے ہیں۔لاکھوں مرد و خواتین ، نوجوان اور بچے اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ، کروڑوں زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں۔ شہری انفراسٹرکچر اور لوگوں کی زندگیوں کو پہنچنے والے نقصانات کا حساب لگانا مشکل ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دلانے میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ناکامی دونوں خطوں میں موت اور بربادی لارہی ہے۔
فلسطین اور کشمیر کے لوگ اگرناجائز قبضوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتے ہیں تو یہ ان کا بنیادی حق ہے ، یہ حق تو انہیں بین الاقوامی قانون نے دے رکھا ہے کہ وہ غیر ملکی سامراج کے خلاف جدوجہد کر سکتے ہیں۔پروپیگنڈے اور نفسیاتی حربوں کے ذریعے فلسطینی اور کشمیری عوام کی زندگیاں اجیرن بنانا اور انہیں انسانوں کی طرح جینے کا حق نہ دینا نازی جرمنی کی پالیسیوں کی توسیع ہے۔
عالمی جنگ میں اتحادی افواج نے فسطائیت کا مقابلہ کیا اور اپنے زعم میں اسے شکست بھی دے دی، مگراب اس فسطائیت کو دوبارہ ان لوگوں نے جنم دیا جو خود اس کا شکار رہے یعنی یہودی جبکہ ہندوستان کو آزادی نوآبادیات کے خاتمے کی وجہ سے ملی، لیکن کسے معلوم تھا کہ یہی بھارت آگے چل کر کشمیر میں استعمار کا روپ دھارلے گا۔
ہندوستان اوراسرائیل کا گٹھ جوڑ ایک حقیقت ہے، دونوں مشترکہ اقتصادی اور فوجی پالیسیوں اور ہتھکنڈوں کو خاص طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔
آزاد کشمیر میں عوامی مفاد کی آڑ میں نظریاتی اور سیاسی انتشار کی کوششیں ہو رہی ہیں اور نوجوان نسل کو نظریاتی اعتبار سے کنفیوژ کیا جا رہا ہے، بیس کیمپ کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں نظریاتی اساس کے تحفظ کے لیے متحد ہیں اور اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ کسی بھی ایسی کوشش کا پوری ہمت اور قوت کے ساتھ مقابلہ کیا جائے گاجو بیس کیمپ کی نظریاتی بنیادوں اور نوجوان نسل کو انتشار کا شکارکرے ۔
لہٰذا، ہم اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ:
بھارت اور اسرائیل کو کشمیر اور فلسطین سے اپنا قبضہ ختم کرنا ہوگا۔
بھارت اور اسرائیل کو بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشنز اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پابندی کرنی ہوگی۔
مقبوضہ عوام کو حق خود ارادیت کے ذریعے اپنی سیاسی قسمت کا فیصلہ کرنے کا فوری حق دینا ہوگا۔
نیورمبرگ ٹرائلز کی طرح فلسطین اور کشمیر کے متاثرین کو آئی سی سی اور آئی سی جے کے ذریعے انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔
نوآبادکار کالونیاں بسانے اور آبادی میں تناسب کو بگاڑنے کے لئے کیے جانے والے اقدامات واپس لینا ہوں گے۔
خواتین اور بچوں سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی یقینی بنانا ہوگی۔
جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، نسلی تطہیراور نسل کشی کی حدوں کو چھوتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کے لیے امدادی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے مبصرین کو آزادانہ اور بلا روک ٹوک رسائی دینا ہوگی۔
بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ان کے پشتیبانوں کے ساتھ تمام سفارتی اور اقتصادی تعلقات ختم کرنے ہوں گے۔
کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں پر ظلم کے پہاڑتوڑنے والوں کااحتساب کرنا ہوگا۔
امت مسلمہ بالعموم اور فلسطین و کشمیر کے عوام بالخصوص او آئی سی کی طرف آخری چارہ کارکے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے او آئی سی کے مضبوط کردار سے اپنی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
جب تک مسلم ممالک اجتماعی طور پر اس مسئلے کو نہیں اٹھاتے ‘ مسلمانوں کی نسل کشی ہوتی رہے گی۔ہمارے مسائل کا حل ہمارے اتحاد میںمضمر ہے۔
تحریک آزادی کشمیر کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر آزاد کشمیر کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں متحد اور متفق ہیں ،تحریک کو کامیابی کی منزل سے ہم کنار کرنے کے لیے بیس کیمپ میں نظریاتی فضا تیار کرنا وقت اور حالات کا تقاضا ہے ۔مقبوضہ کشمیر کے عوام بیس کیمپ سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں ، اس پس منظر میں بیس کیمپ افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔یکسوئی کے ساتھ پوری قوم کو تحریک آزادی کشمیر کا پشتیبان بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

مرکزی دفتر

رابطہ دفتر