ہندوستان مقبوضہ جموں میں ایک بڑی سول جنگ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر اس کا نوٹس لیں،مرکزی شوریٰ جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر کی قرارداد
راولپنڈی( پ ر)جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرکے امیر عبدالرشید ترابی کی زیر صدارت مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر قرار منظور کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں حریت پسند عوام اور بہادرقیادت جومتعصب انتہاپسند ہندو نرید مودی کے کشمیریوں کے مسلم تشخص کے خاتمے اور جموں ریجن میں بڑے سول جنگی منصوبے اور مسلم دشمنی کے ایجنڈے کو ناکام بنانے کے لیے نئے انداز سے جدوجہد کررہے ہیں اس پر ان کو خراج تحسین پیش کرتاہے،مقبوضہ کشمیرکے جرات منداور بہادر عوام نے سید علی گیلانی کی قیادت میں نریند مودی کے خطرناک ایجنڈے کو ناکام بناتے ہوئے پاکستانی پرچموں کی بہار کے ساتھ جس طرح ایک نئی تاریخ رقم کی ہے وہ قابل تحسین ہے،مجلس شوریٰ کے نزدیک افسوس ناک امر یہ ہے کہ جس طرح مقبوضہ کشمیرکے عوام مسلم اکتریتی تشخص کے خاتمے کی اسازشوں کے خلاف 1990ء والے جذبے کے ساتھ نکلے آزاد کشمیرکی حکومت اورپاکستان کی حکومت نے اس پیمانے پران کے ساتھ اظہار یکجہتی دیکھنے میں نہیں آیا جس کا حالات تقاضا کررہے ہیں ایک طرف ہندوستان اور نریندمودی کشمیریوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے کے بعد بھارت دوسری طرف وہاں سے آنے والے دریاؤں پر درجنوں ڈیمز بناتے ہوئے پاکستان کو بنجر صحرا میں تبدیل کرنا چاہتا ہے اور تیسری طرف اعلیٰ سطحی حکومتی ذمہ داران کے مطابق بلوچستان ‘ فاٹا اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تخریبی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان میں موجود اس کے بھارت کے قونصل خانے ’’ را‘‘ کے تخریبی مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ تخریب کاری کے اس تانے بانے کو مزید مضبوط کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ حالیہ بھارتی معاہدہ پاکستان کی سلامتی کے لیے زبردست چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ،یہ اجلاس سزفائر لائن پربلااشعال فائرنگ اور ڈراؤن کے ذریعے جاسوی کررہاہے اس کواعلان جنگ تصوررکرتاہے اوریہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کی آشیر باد سے بھارت ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سلامتی کے خلاف کوئی خطرناک وار کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ ان حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت پاکستان بھارتی عزائم کے تدارک کے لیے کوئی جامع حکمت عملی ترتیب دیتی جس کی رو سے ایک طرف مقبوضہ ریاست میں جاری اس کے ریاستی جبر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جاتا اور وہاں جاری تحریک مزاحمت کی اخلاقی و سفارتی حمایت میں اضافہ کیا جاتا اور دوسری طرف اس کی متوقع جارحیت کے تدارک کے لیے اقدمات کیے جائے۔مگر نریندر مودی کے ساتھ اوفا میں ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں مسئلہ کشمیر کا ذکر نہ ہونا باعث تشویش ہے،اجلاس یہ واضح کرتاہے کہ مسئلہ کشمیرحل کیے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی توقع رکھنا یا اس کے لیے پینگیں بڑھاناکشمیری شہداء کے ساتھ بے وفائی اور پاکستان کے مفادات اور سلامتی پر وار کے مترادف ہے،اجلاس یہ مطالبہ کرتاہے کہ حکومت پاکستان بھارتی عزائم کے تدارک کے لیے دیگر موثر اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ ریاست میں جاری تحریک آزادی کی پشتیبانی کا حق ادا کرے جو ایک اہم فریق کی حیثیت سے پاکستان کی ذمہ داری بھی ہے اور شہداء کے خون کا قرض بھی ……!اجلاس اقوام متحدہ ‘ او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی ادارے سے بھی مطالبہ کرتاہے کہ وہ صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے بھارت کی اس نسل کش پالیسی کو رکوانے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
F}
ہندوستان مقبوضہ جموں میں ایک بڑی سول جنگ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر اس کا نوٹس لیں،مرکزی شوریٰ جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر کی قرارداد{/AF}
راولپنڈی( پ ر)جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرکے امیر عبدالرشید ترابی کی زیر صدارت مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر قرار منظور کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں حریت پسند عوام اور بہادرقیادت جومتعصب انتہاپسند ہندو نرید مودی کے کشمیریوں کے مسلم تشخص کے خاتمے اور جموں ریجن میں بڑے سول جنگی منصوبے اور مسلم دشمنی کے ایجنڈے کو ناکام بنانے کے لیے نئے انداز سے جدوجہد کررہے ہیں اس پر ان کو خراج تحسین پیش کرتاہے،مقبوضہ کشمیرکے جرات منداور بہادر عوام نے سید علی گیلانی کی قیادت میں نریند مودی کے خطرناک ایجنڈے کو ناکام بناتے ہوئے پاکستانی پرچموں کی بہار کے ساتھ جس طرح ایک نئی تاریخ رقم کی ہے وہ قابل تحسین ہے،مجلس شوریٰ کے نزدیک افسوس ناک امر یہ ہے کہ جس طرح مقبوضہ کشمیرکے عوام مسلم اکتریتی تشخص کے خاتمے کی اسازشوں کے خلاف 1990ء والے جذبے کے ساتھ نکلے آزاد کشمیرکی حکومت اورپاکستان کی حکومت نے اس پیمانے پران کے ساتھ اظہار یکجہتی دیکھنے میں نہیں آیا جس کا حالات تقاضا کررہے ہیں ایک طرف ہندوستان اور نریندمودی کشمیریوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے کے بعد بھارت دوسری طرف وہاں سے آنے والے دریاؤں پر درجنوں ڈیمز بناتے ہوئے پاکستان کو بنجر صحرا میں تبدیل کرنا چاہتا ہے اور تیسری طرف اعلیٰ سطحی حکومتی ذمہ داران کے مطابق بلوچستان ‘ فاٹا اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے تخریبی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان میں موجود اس کے بھارت کے قونصل خانے ’’ را‘‘ کے تخریبی مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ تخریب کاری کے اس تانے بانے کو مزید مضبوط کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ حالیہ بھارتی معاہدہ پاکستان کی سلامتی کے لیے زبردست چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ،یہ اجلاس سزفائر لائن پربلااشعال فائرنگ اور ڈراؤن کے ذریعے جاسوی کررہاہے اس کواعلان جنگ تصوررکرتاہے اوریہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کی آشیر باد سے بھارت ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سلامتی کے خلاف کوئی خطرناک وار کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ ان حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت پاکستان بھارتی عزائم کے تدارک کے لیے کوئی جامع حکمت عملی ترتیب دیتی جس کی رو سے ایک طرف مقبوضہ ریاست میں جاری اس کے ریاستی جبر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جاتا اور وہاں جاری تحریک مزاحمت کی اخلاقی و سفارتی حمایت میں اضافہ کیا جاتا اور دوسری طرف اس کی متوقع جارحیت کے تدارک کے لیے اقدمات کیے جائے۔مگر نریندر مودی کے ساتھ اوفا میں ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں مسئلہ کشمیر کا ذکر نہ ہونا باعث تشویش ہے،اجلاس یہ واضح کرتاہے کہ مسئلہ کشمیرحل کیے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی توقع رکھنا یا اس کے لیے پینگیں بڑھاناکشمیری شہداء کے ساتھ بے وفائی اور پاکستان کے مفادات اور سلامتی پر وار کے مترادف ہے،اجلاس یہ مطالبہ کرتاہے کہ حکومت پاکستان بھارتی عزائم کے تدارک کے لیے دیگر موثر اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ ریاست میں جاری تحریک آزادی کی پشتیبانی کا حق ادا کرے جو ایک اہم فریق کی حیثیت سے پاکستان کی ذمہ داری بھی ہے اور شہداء کے خون کا قرض بھی ……!اجلاس اقوام متحدہ ‘ او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی ادارے سے بھی مطالبہ کرتاہے کہ وہ صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے بھارت کی اس نسل کش پالیسی کو رکوانے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔