مغربی تہذیب کے فاسد اصول
موجودہ تہذیب جس پر آج دنیا کا پورا فکری ، اخلاقی ، تمدنی، سیاسی اورمعاشی نظام چل رہا ہے دراصل تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔
Secularismیعنی لادینیت
Nationalismیعنی قوم پرستی
Democracyیعنی حاکمیت جمہور
ان میں سے پہلے اصول،یعنی لادینیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور اس کی ہدایت اور اس کی عبادت کے معاملے کو ایک ایک شخص کی ذاتی حیثیت تک محدود کردیا جائےاور انفرادی زندگی کے اس چھوٹے سے دائرے کے سوا دنیا کے باقی تمام معاملات کو ہم خالص دنیوی نقطہ نظر سے اپنی صوابدید کے مطابق خود جس طرح چاہیں طے کریں۔ ان معاملات میں یہ سوال خارج از بحث ہونا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے اور اس کی ہدایت کیا ہے اور اس کی کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ ابتداءً یہ طرز عمل اہل مغرب نےعیسائی پادریوں کی اس خود ساختہ دینیات Theologyسے بے زار ہوکر اختیار کیا تھا جو ان کےلیےزنجیر پا بن کررہ گئی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہی طرزعمل ایک مستقل نظریہ حیات بن گیا اور تہذیب جدید کا پہلا سنگِ بنیاد قرارپایا۔ آپ نےاکثریہ فقرہ سنا ہوگاکہ مذہب خدا اور بندے کے درمیان ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔ یہ مختصر سا فقرہ دراصل تہذیب حاضرکا کلمہ ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ اگر کسی کا ضمیرگواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی پرستش کرنی چاہیے تو وہ اپنی انفرادی زندگی میں بخوشی اپنے خدا کو پوجے،مگردنیا اور اس کے معاملات سے خدا اور مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کلمہ کی بنیاد پر جس نظام زندگی کی عمارت اٹھی ہے اس میں انسان اور انسان کے تعلق اور انسان اور دنیا کے تعلق کی تمام صورتیں خدا اور مذہب سے آزاد ہیں۔ معاشرت ہے تو اس سے آزاد، تعلیم ہے تو اس سے آزاد، معاشی کاروبار ہے تو اس سے آزاد، قانون ہے تو اس سے آزاد، پارلیمنٹ ہے تو اس سے آزاد، سیاست اور انتظام ملکی ہے تو اس سے آزاد، بین الاقوامی ربط وضبط ہے تواس سے آزاد، زندگی کے ان بے شمار مختلف پہلوؤں میں جو کچھ بھی طےکیاجاتا ہے اپنی خواہش اور دانست کے مطابق طے کیاجاتا ہے اور اس سوال کو نہ صرف ناقابل لحاظ، بلکہ اصولاً غلط اور انتہائی تاریک خیال سمجھا جاتا ہےکہ ان امور کے متعلق خدا نے بھی کچھ اصول اور احکام ہمارے لیے مقرر کیے یا نہیں۔ رہی انفرادی زندگی ، تو وہ بھی غیر دینی تعلیم اور بے دین اجتماعیت کی بدولت اکثر و بیشتر افراد کے معاملے میں نری دنیاویSecularہی ہو کر رہ گئی ہےاور ہوتی چلی جا رہی ہےکیونکہ اب بہت ہی کم افراد کا ضمیر واقعی یہ گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی بندگی کرنی چاہیے،خصوصاً جولوگ اس وقت تمدن کے اصلی کارفرما ور کارکن ہیں، ان کے لیے تو مذہب اب ایک پرائیویٹ معاملہ بھی باقی نہیں رہا ہے، ان کا ذاتی تعلق بھی خدا سے ٹوٹ چکا ہے۔ دوسرے اصول،یعنی قوم پرستی کی ابتدا تو پوپ اور قیصر کے عالمگیر استبداد کے خلاف بغاوت کے طور پرہوئی تھی اور اس کا مطلب صرف اتنا تھا کہ مختلف قومیں اپنی اپنی سیاست و مصلحت کی آپ ہی مالک و مختار ہوں، کسی عالمگیر روحانی یا سیاسی اقتدار کے ہاتھوں میں شطرنج کے مہروں کی طرح نہ کھیلیں، مگر اس معصوم آغاز سے چل کر جب یہ تخیل آگے بڑھا تو رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جس جگہ سے بے دینی کی تحریک نے خدا کوبے دخل کیا تھاوہاں قوم پرستی نے قومیت کو لابٹھایا۔ اب ہر قوم کےلیے بلند ترین اخلاقی قدر اس کا قومی مفاد اوراس کے قومی حوصلےAspirationsہیں۔ نیکی وہ ہے جو قوم کےلیے مفید ہو،خواہ وہ جھوٹ ہو،بے ایمانی ہو، ظلم ہو، یا اور کوئی ایسا فعل ہو جو پرانے مذہب و اخلاق میں بدترین گناہ سمجھا جاتا تھا اور بدی وہ ہے جس سے قوم کے مفاد کو نقصان پہنچے خواہ وہ سچائی ہو،انصاف ہو، وفائے عہد ہو اور ادائےحق ہو یا اور کوئی ایسی چیز جسے کبھی فضائل واخلاق میں شمار کیاجاتاتھا۔ افراد قوم کی خوبی اور زندگی وبیداری کا پیمانہ یہ ہے کہ قوم کا مفاد ان سے جس قربانی کا مطالبہ بھی کرے خواہ وہ جان و مال اور وقت کی قربانی ہو یا ضمیر و ایمان کی، اخلاق وانسانیت کی قربانی ہو یا شرافتِ نفس کی، بہرحال وہ اس میں دریغ نہ کریں اور متحد و منظم ہوکر قوم کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کوپورا کرنے میں لگے رہیں۔ اجتماعی کوششوں کی غایت اب یہ ہے کہ ہر قوم ایسے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد بہم پہنچائے اور ان میں ایکا اور نظم پیدا کرے تاکہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی قوم کا جھنڈا بلند کریں۔ تیسرے اصول،یعنی جمہور کی حاکمیت (Sovereignty the people)کو ابتداءً بادشاہوں اور جاگیر داروں کے اقتدار کی گرفت توڑنے کے لیے پیش کیاگیا تھا اور اس حد تک بات درست تھی کہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقہ کو لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی مرضی مسلط کردینے اور اپنی اغراض کے لیے انہیں استعمال کرنے کاکوئی حق نہیں ہے. ایک ایک ملک اور ایک ایک علاقے کے باشندے اپنے آپ حاکم اور اپنے آپ مالک ہیں۔ اسی پہلو پر ترقی کر کے جمہوریت نے اب جو شکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی مرضی کی مختار کل ہے۔ اس کی مجموعی خواہش(یاعملاً اس کی اکثریت کی خواہش)کو پابند کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ اخلاق ہو یا تمدن، معاشرت ہو یا سیاست، ہر چیز کے لیے برحق اصول وہ ہیں جو قومی خواہش سے طے ہوں، اور جن اصولوں کو قوم کی رائے عامہ رد کردے وہ باطل ہیں۔ قانون، قوم کی مرضی پر منحصر ہے، جو قانون چاہے بنائے اور جس قانون کو چاہے توڑ دے یا بدل دے۔ حکومت قوم کی رضا کے مطابق بننی چاہیے، قوم ہی کی رضا کااسے پابند ہونا چاہیے اور اس کی پوری طاقت قومی خواہش کو پورا کرنے پر صرف ہونی چاہیے۔ یہ تین اصول موجودہ دور کے نظام زندگی کی بنیاد ہیں اور انھی پر وہ بے دین جمہوری قومی ریاست Secular Demo crated National State بنتی ہے جسے آج کل اجتماعی تنظیم کی مہذب ترین معیاری صورت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تینوں اصول غلط ہیں۔ صرف غلط ہی نہیں، ہم پوری بصیرت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں کہ یہی اصول ان تمام مصائب کی جڑ ہیں جن میں آج انسانیت مبتلا ہے۔ ہماری عداوت دراصل انھی اصولوں سے ہے اور ہم اپنی پوری طاقت کےساتھ ان کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان اصولوں پر کیااعتراض ہے اور کیوں اعتراض ہے؟ اس کی تفصیل کے لیے تو بڑی لمبی بحث درکار ہے، تاہم اس کی مختصر وضاحت سےآپ کو سمجھ آ جائےگی کہ کیوں یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ ان اصولوں کے خلاف جنگ کرنا ناگزیر ہے۔
لادینی اور اس کی قباحت
کیوں ایسے خدا کو مانا جائے اور اس کی خواہ مخواہ پوجا پاٹ کی جائے جو یا تو اتنا بے کا ر ہے کہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری رہنمائی نہیں کرتا، یا معاذاللہ ایسا نادان ہے کہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابل عمل نظر نہیں آتی؟ یہ تو اس معاملے کا محض عقلی پہلو ہے۔ عملی پہلو سے دیکھیے تو اس کے نتائج بڑے ہی خوف ناک ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے جس معاملے کا تعلق بھی خدا سے ٹوٹتا ہے اس کا تعلق شیطان سے جڑ جا تا ہے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی درحقیقت کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ انسان ایک متمدن ہستی ہے اور اس کی پوری زندگی اصل میں اجتماعی زندگی ہے۔ وہ پیدا ہی ایک ماں اور ایک باپ کے معاشرتی تعلق سے ہوا ہے۔ دنیا میں آتے ہی وہ ایک خاندان میں آنکھیں کھولتا ہے، ہوش سنبھالتے ہی اس کو ایک سوسائٹی سے ، ایک برادری سے،ایک بستی سے،ایک قوم سے، ایک نظام تمدن اور نظامِ معیشت و سیاست سے واسطہ پیش آتا ہے۔ یہ بےشمارروابط جو اس کو دوسرے انسانوں سے اور دوسرے انسانوں کو اس سے جوڑے ہوئے ہیں، انہی کی درستی پر ایک ایک انسان کی اور مجموعی طور پرتمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا انحصا رہے۔اوروہ صرف خدا ہی ہےجو انسانوں کوان روابط کے لیے صحیح اورمنصفانہ اور پائیدار اصول وحدود بتاتا ہے۔ جہاں انسان اس کی ہدایت سے بے نیاز ہوکرخود مختاربنا،پھرنہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہےاورنہ انصاف اور راستی۔ اس کے لیے خدا کی رہنمائی سے محروم ہوجانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربہ کے سوا کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جس کی طرف انسان رہنمائی کے لیے رجوع کر سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس سوسائٹی کا نظام لادینیت یا دنیاویت کے اصول پر چلتا ہے اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم، بے انصافی، بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی، طبقاتی،قومی اور نسلی خود غرضیاں مسلط ہوگئی ہیں۔ دوانسانوں کے تعلق سے لےکرقوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو۔ ہرایک شخص نے، ہر ایک گروہ نے، ہر ایک طبقے نے، ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں، جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے، پوری خود غرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے بنالیے ہیں اور اس کی پروا کرانے والی صرف ایک ہی طاقت رہ گئی ہےاور وہ ہے جوتا۔ جہاں مقابلے میں جوتا یا جوتے کا اندیشہ ہوتا ہے صرف وہیں اپنی حد سے زیادہ پھیلے ہوئے ہاتھ اور پاؤں کچھ سکڑ جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہےکہ جوتا کسی عالم اور منصف ہستی کا نام نہیں ہے۔ وہ تو ایک اندھی طاقت کا نام ہے۔ اس لیے اس کے زور سے کبھی توازن قائم نہیں ہوتا۔ جس کا جوتا زبردست ہوتا ہے وہ دوسروں کوصرف اتنا ہی نہیں سکیڑتا جتنا سکیڑناچاہیے بلکہ وہ خود اپنی حد سے زیادہ پھیلنے کی فکر میں لگ جاتا ہے ۔ پس لادینی اور دنیاویت کاماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرز عمل کو اختیارکرے گا بے لگام، غیر ذمہ دار اور بندہ نفس ہوکر رہے گا خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعہ اقوام۔