تین صالح اصول

ان تین اصولوں کے جواب میں ہم دوسرے تین اصول پیش کرتے ہیں اور سب انسانوں کے ضمیر سے اپیل کرتے ہیں کہ انھیں جانچ کر، پرکھ کر خود دیکھ لو، کہ تمہارا اپنا بھلا اور ساری دنیا کا بھلاان پاک اصولوں میں ہے یا ان خبیث اصولوں میں؟

لادینی کے مقابلے میں خدا کی بندگی اوراطاعت

قوم پرستی کے مقابلے میں انسانیت

جمہور کی حاکمیت میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت

خدا پرستی کے معنی

پہلے اصول کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب اس خدا کو اپنا آقا تسلیم کریں جو ہمارا اور تمام کائنات کا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ ہم اس سے آزاد اور بے نیاز بن کر نہیں بلکہ اس کے تابع فرمان اور اس کی رہنمائی کے پیرو بن کر زندگی بسر کریں ۔ ہم صرف اس کی پوجا ہی نہ کریں بلکہ اس اس کی اطاعت اوربندگی بھی کریں۔ ہم صرف فرداً فرداً اپنی پرائیویٹ حیثیت ہی میں اس کے احکام اور ہدایات کے پابند نہ ہوں بلکہ اپنی اجتماعی زندگی کے بھی ہر پہلو میں اسی کے پابند ہوں۔ ہماری معاشرت،ہمارا تمدن، ہماری معیشت، ہمارا نظامِ تعلیم و تربیت، ہمارے قوانین، ہماری عدالتیں،ہماری حکومت،ہماری صلح وجنگ اورہمارے بین الاقوامی تعلقات، سب کے سب ان اصولوں اور حدوں کےپابند ہوں جو خدا نے مقرر کیے ہیں، ہم اپنے دنیوی معاملات کو طے کرنے میں بالکل آزاد نہ ہوں بلکہ ہماری آزادی ان سرحدوں کے اندر محدود ہو جو خدا کے مقرر کیے ہوئے اصول اورحدود نے کھینچ دی ہیں۔ یہ اصول اور حدود ہر حال میں ہمارے اختیارات سے بالاتر رہیں۔

انسانیت کا مطلب

دوسرے اصول کا مطلب یہ ہے کہ خدا پرستی کی بنیادپرجو نظامِ زندگی بنے اس میں قوم، نسل،وطن،رنگ اور زبان کے فرق و امتیاز کی بنا پر کسی قسم کے تعصبات اور خود غرضیاں راہ نہ پائیں۔ وہ ایک قومی نظام کے بجائے ایک اصولی نظام ہونا چاہیے جس کے دروازے ہر اس انسان کے لیے کھلے ہوئے ہوں جو اس کے بنیادی اصولوں کو مان لے، اور جو انسان بھی ان کو مان جائے وہ بغیر کسی امتیاز کے پورے مساویانہ حقوق کے ساتھ اس میں شریک ہوسکے۔ اس نظام میں شہریتcitizenshipکی بنیاد پیدائش اور نسل و وطن پر نہ رکھی جائے بلکہ صرف اصول پر رکھی جائے۔ رہے وہ لوگ جوان اصولوں پر مطمئن نہ ہوں یا کسی وجہ سے ان کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوں تو ان کو مٹانے اور دبانے اور ہضم کرنے کی کوشش نہ ہو بلکہ وہ متعین حقوق کے ساتھ اس نظام کی حفاظتprotectionمیں رہیں اور ان کے لیے ہر وقت یہ موقع کھلا رہے کہ جب بھی ان اصولوں کی صحت و درستی پر ان کو اطمینان ہوجائے وہ برابر کے حقوق کے ساتھ اپنی آزادانہ مرضی سے اس نظام کے شہری بن سکیں۔ یہ چیز جس کو ہم اصولِ انسانیت سے تعبیر کر رہے ہیں قومیت کی نفی نہیں کرتی بلکہ اسےاس کی صحیح فطری حد میں رکھتی ہے۔ اس میں قومی محبت کے لیے جگہ ہے مگر قومی تعصب کےلیے جگہ نہیں ہے، قومی خیرخواہی جائز ہے مگر قومی خود غرضی حرام ہے، قومی آزادی مسلم ہے اور ایک قوم پردوسری قوم کے خود غرضانہ تسلط سے بھی سخت انکار ہےمگر ایسی قومی آزادی ہرگز تسلیم نہیں ہے جوانسانیت کو ناقابل عبور حدوں میں تقسیم کردے۔ اصولِ انسانیت کا مطالبہ یہ ہے کہ اگرچہ ہر قوم اپنے گھر کا انتظام آپ کرےاور کوئی قوم من حیث القوم دوسری قوم کے تابع نہ ہو،لیکن تمام وہ قومیں جو تہذیب انسانی کے بنیادی اصولوں میں متفق ہوجائیں ان کے درمیان انسانی فلاح و ترقی کے کاموں میں پورا تعاون ہو۔ مسابقت competitionکے بجائے معاونت ہو،باہم امتیازات اور تعصبات اور تفریقیں نہ ہوں بلکہ تہذیب و تمدن اور اسباب زندگی کا آزادانہ لین دین ہو اور اس مہذب نظامِ زندگی کے تحت زندگی بسر کرنے والی دنیا کا ہر انسان اس پوری دنیا کا شہری ہو،نہ کہ ایک ملک اور ایک قوم کا۔ حتٰی کہ وہ کہہ سکے کہ

ہرملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائےماست

موجودہ حالت کوہم ایک قابلِ نفرت حالت سمجھتے ہیں جس میں ایک انسان نہ تو خود ہی اپنی قوم اور ملک کے سوا کسی دوسری قوم اور ملک کا وفادار ہوسکتا ہے اورنہ کوئی قوم اپنے افراد کے سوا دوسری کسی قوم کے افراد پر اعتماد کرسکتی ہے۔ آدمی اپنے ملک کے حدود سے باہر نکلتے ہی یہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کی زمین میں ہر جگہ اس کے لیے رکاوٹیں ہیں، ہر جگہ وہ چوروں اور اچکوں کی طرح شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ہر جگہ پوچھ گچھ ہے، تلاشیاں ہیں،زبان و قلم، نقل وحرکت پر پابندیاں اور کہیں اس کے لیے نہ آزادی ہے نہ حقوق۔ ہم اس کے مقابلے میں ایسا عالمگیر نظام چاہتے ہیں جس میں اصولوں کی وحدت کو بنیاد بنا کر قوموں کے درمیان وفاق قائم ہو اور اس وفاق میں بالکل مساویانہ اور مشترک شہریتcommon citizenship اوربے روک ٹوک آمد و رفت کا طریقہ رائج ہو۔ ہماری آنکھیں پھر ایک دفعہ یہ منظر چاہتی ہیں کہ آج کا کوئی ابن بطوطہ اٹلانٹک کے ساحل سے بحر الکاہل کے جزائر تک اس طرح جائے کہ کہیں بھی وہAlienنہ ہو اور ہرجگہ اس کے لیے جج ،مجسٹریٹ،وزیر یا سفیر بن جانے کا موقع ہو۔

خلافتِ جمہور کا مفہوم

اب تیسرے اصول کو لیجیے. ہم جمہوری حاکمیت کے بجائے جمہوری خلافت کےقائل ہیں۔ شخصی بادشاہ Monarchyاور امیروں کے اقدار اور طبقوں کی اجارہ داری کے ہم بھی اتنے ہی مخالف ہیں جتنا موجودہ زمانے کاکوئی بڑے سے بڑا جمہوریت پرست ہو سکتاہے۔ اجتماعی زندگی میں تمام لوگوں کے یکساں حقوق، مساویانہ حیثیت اور کھلے مواقع پر ہمیں بھی اتنا ہی اصرار ہے جتنا مغربی جمہوریت کے کسی بڑے سے بڑے حامی کو ہوسکتا ہے۔ ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ حکومت کا انتظام اور حکمرانوں کا انتخاب تمام باشندوں کی آزادانہ مرضی اور رائے سے ہونا چاہیے۔ ہم بھی اس نظامِ زندگی کے سخت مخالف ہیں جس میں لوگوں کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی،اجتماع کی آزادی اور سعی و عمل کی آزادی نہ ہو، یا جس میں پیدائش اورنسل اور طبقات کی بنا بعض لوگوں کےلیے مخصوص حقوق اور بعض دوسرے لوگوں کے لیے مخصوص رکاوٹیں ہوں، یہ امور جو جمہوریت کا اصل جوہر Essenceہیں، ان میں ہماری جمہوریت اور مغربی جمہوریت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اہل مغرب نے ہمیں سکھائی ہو۔ ہم اس جمہوریت کو اس وقت سے جانتے ہیں اور دنیا کو اس کا بہترین عملی نمونہ دکھا چکے ہیں جب کہ مغربی جمہوریت پرستوں کی پیدائش میں ابھی سینکڑوں برس کی دیر تھی۔ دراصل ہمیں اس نوخیز جمہوریت سے جس چیز میں اختلاف اور نہایت سخت اختلاف ہے ، وہ یہ ہے کہ یہ جمہور کی مطلق العنان بادشاہی کا اصول پیش کرتی ہے اور ہم اسے حقیقت کے اعتبار سے غلط اور نتائج کے اعتبار سے تباہ کن سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہیSovereigntyصرف اس کا حق ہے جس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، جوان کی پرورش اور بالیدگی کا سامان کر رہا ہے، جس کے سہارے پر ان کی اور ساری دنیا کی ہستی قائم ہے اور جس کے زبردست قانون کی گرفت میں کائنات کی ایک ایک چیزجکڑی ہوئی ہے۔ اس کی واقعی اورحقیقی بادشاہی کے اندر جس بادشاہی کا بھی دعوٰی کیاجائے گا، خواہ ایک شخص اور ایک خاندان کی بادشاہی ہو یا ایک قوم اوراس کے عوام کی، بہرحال وہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہ ہوگا اور اس غلط فہمی کی چوٹ کائنات کے اصل بادشاہ پر نہیں بلکہ اس احمق مدعی پر پڑے گی جس نے اپنی قدرخود نہ پہچانی۔ اس حقیقت میں صحیح بھی یہی ہے اور نتائج کے اعتبار سے انسان کی بھلائی بھی اسی میں ہے کہ خدا کو حاکم مان کرانسانی زندگی کا نظام حکومت خلافت و نیابت کے نطریہ پر بنایا جائے۔ یہ خلافت بلا شبہ جمہوری ہونی چاہیے، جمہور کی رائے ہی سے حکومت کے امیر یا ناظم اعلٰی کا انتخاب ہونا چاہیے۔ انھی کی رائے سے اہلِ شورٰی منتخب ہونے چاہییں۔ ہماری پارلیمنٹ کا اساسی نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ جن امور میں خدا نےہمیں ہدایات دی ہیں ان میں ہم قانون سازی نہیں کریں گے بلکہ اپنی ضروریات کےلیے خداکی ہدایات سے تفصیلی قوانین اخذ کریں گے۔ اور جن امور میں خدا نے ہدایات نہیں دی ہیں ان میں ہم یہ سمجھیں گے کہ خدا نے خود ہی ہم کو آزادیِ عمل بخشی ہے اس لیے صرف انھی امور میں ہم باہمی مشورے سے قوانین بنائیں گے۔ مگر یہ قوانین لازماً اس مجموعی سانچے کے مزاج سے مطابقت رکھنے والے ہوں جو خدا کی اصولی ہدایات نے ہمارے لیے بنادیا ہے۔ پھر یہ ضروری ہےکہ پورے نظام تمدن وسیاست کی کارفرمائی اوراس کا انتظام ان لوگوں کے سپرد ہوجو خدا سے ڈرنے والے اور ا س کی اطاعت کرنے والےاور ہر کام میں اس کی رضا چاہنے والے ہوں۔ جن کی پبلک اور پرائیویٹ دونوں قسم کی زندگیوں سے یہ شہادت ملے کہ وہ بے لگام گھوڑے کی طرح نہیں ہیں جو ہر کھیت میں چرتا اور ہر حد کو پھاندتا پھرتا ہو بلکہ ایک الٰہی ضابطہ کی رسی سے بندھے ہوئے اورایک خداپرستی کے کھونٹے سے مربوط ہیں اوران کی ساری چلت پھرت اسی حد تک محدود ہے جہاں تک وہ رسی انہیں جانے دیتی ہے۔

خود فیصلہ کیجئے

حضرات! یہ تینوں اصول ، جن کی بہت ہی مختصرتشریح آپ کے سامنےبیان کی گئی ہے موجودہ تہذیب کی قوم پرستانہ، لادینی، جمہوری حاکمیت کے مقابلہ میں ایک خدا پرستانہ، انسانی، جمہوری خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں اوراسی کا قیام ہمارا نصب العین ہے. یہ بات تو آپ بیک نظر معلوم کرسکتے ہیں کہ ان دونوں نظاموں کے درمیان کیا اختلاف ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ کے اپنے ضمیر پر منحصر ہے کہ ان میں سے کون بہتر ہے، کس میں آپ کی فلاح ہے، کس کے قیام کا آپ کو خواہش مند ہونا چاہیے اور کس کے قائم کرنے اور قائم رکھنے میں آپ کی قوتیں صرف ہونی چاہییں

مرکزی دفتر

رابطہ دفتر