ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جوبات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم حکومت الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔حکومت الٰہیہ کالفظ کچھ تو خود غلط فہمی پیدا کرتا ہے اور کچھ اسے غلط فہمی پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں اور انہیں ایسا سمجھایا بھی جاتا ہے کہ حکومت الٰہیہ سے مراد محض ایک سیاسی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوااور کچھ نہیں ہے کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو۔ پھرچونکہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لامحالہ ہی مسلمان ہوں گے جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں ، اس لیے خود بخود اس تصورمیں سے یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری سے نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دین دار وعظ ہوتا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پیش نظر محض دنیا ہے۔ حالانکہ مسلمان کے پیش نظر دین اور آخرت ہونی چاہیئے اوریہ کہ حکومت طلب کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک انعام ہے جو دین دار زندگی کے صلے میں اللہ کی طرف سے مل جاتا ہے ۔ یہ باتیں کہیں تو نافہمی کے ساتھ کی جاتی ہیں اور کہیں نہایت ہوشمندی کے ساتھ اس غرض کے لیے کہ اگر ہمیں نہیں تو کم سے کم خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو بدگمانیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا کیاجائے، حالانکہ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے تو اس پر باآسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی....انفرادی اور اجتماعی زندگی....میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہوجو اسلام رونما کرناچاہتا ہے، جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیاءکو مبعوث کیا تھا اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لیے ہمیشہ انبیاءعلیھم السلام کی امامت و رہنمائی میں امت مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔