تازہ خبریں

library

Islamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic Library
 
spinner

آزاد کشمیر انتخابات 2011 ءپارٹی جیت گئی ، جمہوریت ہار گئی

عبدالرشید ترابی
(This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.)


26 جون2011 کو منعقدہ انتخابات ،آزاد جموں کشمیر کی تاریخ میں خون آشام ہونے کے ساتھ ساتھ دھاندلی اور جھرلو ٹھپہ کی اصطلاحات کا بھرپور عکاس تھے- آزاد کشمیر میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں 70 ءاور 2001 ءکے استثناءکے بغیر سارے ہی انتخابات میں مرکزی حکومتوں کی مداخلت کی شکایت رہی ہے- لیکن حالیہ انتخابات مرکزی حکومت کی مداخلت ، الیکشن کمیشن کی نااہلی اور دھاندلی کی بدترین مثال تھے - دھاندلی کاآغاز ووٹر لسٹوں سے ہوا جہاں ہر پولنگ سٹیشن پر ہزاروں کی تعداد میں ووٹرز کا جعلی اندراج ہوا - بااثر لابیوں نے ہزاروں جائز ووٹروں کو فہرستوں سے خارج کرکے انہیں حق رائے دہی سے محروم رکھا- ہزاروں کی تعداد میں ووٹر تھے لیکن انہیں اپنے پولنگ سٹیشن کے بجائے دوسرے پولنگ سٹیشنوں سے نتھی کیا گیا جہاں وہ ووٹ ڈال ہی نہ سکتے تھے- چیف الیکشن کمشنر کو کل جماعتی مشاورتی اجلاسوں میں آگاہ بھی کیا گیا کہ لیکن تصیحح شد ہ ضمیمے بھی اغلاط سے بھرپورتھے- پھر الیکشن کمیشن کاکمال دیکھئے کہ یہ ضمیمے یا تو پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو فراہم کئے گئے یا پھر پولنگ عملے کو، جنہوں نے ملی بھگت سے مزید جعلی ووٹ بھگتائے- انتخابات میں خفیہ رائے دہی سے ووٹر کسی امیدوار کے حق میں اپنا فیصلہ کرتا ہے لیکن ان انتخابات میں یہ حق بھی ووٹر سے چھین لیا گیا اور اس سے بندوق کی نوک پرسرعام مہر لگوائی گئی - پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے بالعموم اور دیگر پارٹیوں نے بالعموم حسب استطاعت لاکھوں کی تعداد میں ٹھپے لگائے اور 95تا 100 ٹرن آﺅٹ رہا ،بعض سٹیشن ایسے تھے جہاں 100 فیصد سے بھی زائد پولنگ ہوئی۔ اس کی دلچسپ مثال ایل اے14 حلقہءوسطی باغ (بنی پساری) بوائز پرائمری سکول پوٹھ پنیالی اسٹیشن ہے جہاں ریٹرننگ آفیسر کے دستخطوں سے جاری نتائج کے مطابق کل ووٹ351 تھے جبکہ پول کئے گئے ووٹوں کی تعداد 696 ہے جو کل ووٹوں کا تقریبا 200 فیصد بنتے ہیں - پھر حلقہ وسطی باغ کے 33 پولنگ سٹیشن ایسے ہیں جہاں 90 فیصد سے زیادہ پولنگ ہوئی اور مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 33 پولنگ سٹیشن پر 133 فیصد کی شرح سے ووٹ ڈالے گئے - پہلے تین امیدواروں نے اپنے اپنے حلقہ ءاثر کے مندرجہ بالا پولنگ سٹیشنوں پرجو ووٹ حاصل کئے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
 وسطی باغ سے کامیاب قراردیے گئے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار قمر الزمان نے ان پولنگ سٹیشنوں کے کل 16465 ووٹوں میں سے 82 فیصد کے تناسب سے 13628 ووٹ حاصل کئے ، مسلم کانفرنس کے امیدوار راجہ یاسین نے اپنے حلقہ ءاثر کے کل 3664 ووٹوں میں سے 72 فیصد کی شرح سے 2648 ووٹ حاصل کئے جبکہ کرنل ریٹائرڈ راجہ نسیم نے اپنے حلقہ اثر کے پولنگ سٹیشنوںپر یہی عمل دہرایا او رکئی اسٹیشنوں پر مار دھاڑ اور فائرنگ کے ذریعے ووٹر کو ہراساں کر نے کی کوشش کی گئی ۔ جن حلقوں میں صاف و شفاف پولنگ ہوئی ان کا تناسب کسی بھی لحاظ سے 50 فیصد سے زیادہ نہیں بنتا- مندرجہ بالا حقائق الیکشن کمیشن کی نااہلی کے خلاف کھلا ثبوت ہیں-
 پھر پولنگ سٹیشنوں پر عام ووٹر کی سلامتی کے تحفظ کے لئے سکیورٹی عملہ نہ ہونے کے برابر تھا، صرف دو پولیس والے محض خالی ہاتھ پولنگ سٹیشن کی رکھوالی کے لئے بھیجے گئے تھے جہاں دنگل اور دھینگا مشتی میں وہ بھی رفو چکر ہو گئے۔یوں پورے آزاد کشمیر میں دنگا فساد کی بھی تاریخ ریکارڈ کی گئی ۔نتیجہ یہ ہے کہ ساری ہی جماعتیں ان انتخابات پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہی ہیں، حتی کے وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بھی نئے الیکشن کمیشن اور فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔راقم نے تو الیکشن کمیش کومشاروتی اجلاس میں متوجہ بھی کیا تھا کہ فوج نگرانی کے بغیر انتخابات شفاف ہو سکتے ہیں نہ ہی دنگا فساد کو روکا جا سکتا ہے۔ پھروفاقی وزراءاور وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے اپنی پارٹی کی مہم میں نکل آ نا کشمیریوں کے نزدیک پاکستان کو متنازعہ بنانے کے مترادف ثابت ہوا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم تمام کشمیریوں کے لئے قابل احترام ہیں ، لیکن ایوان صدر سے پارٹی ٹکٹ تقسیم ہو نے کے بعد وزیر اعظم کا یہ عمل قابل مذمت بھی ہے اور پاکستان کے قومی مفادات سے متصادم بھی ۔
 ان سارے ہتھکنڈوں کے باوجود جب یہ دیکھا گیا کہ ووٹر کا رحجان پیپلز پارٹی کے امیدواران کے حق میں نہیں تو وسیع پیمانے پر ضمیروں کی خرید و فروخت کے لئے منڈیاں لگائی گئیں۔3 سے 5 کروڑ روپے بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت پیپلز پارٹی کے جیالے امیدواروں میں تقیسم کئے گئے ۔
اس سارے عمل میں اتتظامیہ اور الیکشن کمیشن یا تو مرکزی حکومت کے آلہ کار بنے رہے یا بالکل ہی عضو معطل رہے۔ راقم نے ڈسٹرکٹ پریذائیڈنگ آفیسر سے جب شکایت کی کہ فلاں فلاںاسٹیشنز پر انتخابی عملہ امید وار کے ساتھیوں سے مل کرٹھپے لگا رہا ہے، آپ موقع پر دورہ کر کے صورت حال کا نوٹس لیں تو اس نے یہ کہہ کے ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ میرے پاس چار پولیس والے دستیاب نہیں ہیں ۔جب ضلعی انتظامیہ سے اس بابت بات کی تو ان کا جواب تھا کہ ہمیں کوئی اضافی نفری تفویض نہیں کی گئی اس لئے ہم خود سخت مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔یہ تو راقم کے مشاہدات ہیں ، لیکن بعد میں پورے آزاد کشمیر میں اس نوعیت کی شکایات سامنے آئیں۔ردعمل کے طور پر عباسپور اور نکیال میں گیراﺅ جلاﺅ جیسے نا خوشگوار واقعات بھی رونما ہو ئے ۔
 آزاد جموں و کشمیر ایک حساس خطہ ہے یہاں شفاف انتخابات کا انعقاد حکومت پاکستان ، حکومت آزاد کشمیر اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، جس میں یہ نہ صرف بری طرح ناکام ہو ئے بلکہ ساری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بھی بنے۔اسلا م آباد کے حکمرانوں کی آزاد جموں و کشمیر میں عوام کے مینڈیٹ کو نظرانداز کر کے من پسند حکمران مسلط کر نے کا شوق نیا نہیں ۔گزشتہ انتخابات کے موقع پر بھی جنرل مشرف نے اس مذموم روایت کو براقرار رکھا ،من پسند ٹولے کو مسلط کر نے سے پہلے پیپلز پارٹی کو ت تقسیم کیا گیا ، اس پر بھی تسلی نہ ہو ئی تو ایجنسیوں نے کھلی مداخلت کر کے نتائج تبدیل کئے، جس کے بارے میں ایمانکسن کی رپورٹ ساری دنیا میں پاکستان کی بد نامی کا ذریعہ بنی۔ہمیں توقع تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سبق سیکھتے ہوئے جھرلو ٹھپے کی پرانی روایات سے گریزاں رہے گی اور پھر کسی ایمانکسن رپورٹ کا عنوان نہیں بنے گی اور شفاف انتخابات کرا کر اچھی مثال قائم کرے گی، لیکن صد افسوس کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت اور حکومت ایسا کر نے میں بری طرح ناکام رہی بلکہ ہر حال میں حکومت کے حصول کے شوق میں 75 ءوالی دھاندلی کی تاریخ دہرائی گئی، جو دو سال بعد پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئی تھی۔
آزاد کشمیر کے" ماڈل" انتخابات نے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو چوکنا کردیا ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہیں کہ اگر پیش بندی کا اہتمام نہ کیا گیا تو پاکستان میں یہی الیکشن ری پلے ہو گا۔اس لئے وہاں نئی سیاسی صف بندی شروع ہوگئی ہے ۔یوں پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر پر قبضے کے شوق کی وجہ سے پاکستان میں اپنے لئے نئے چیلنجیزکھڑے کر دئے ہیں۔ان انتخابات کا تکلیف دہ پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ مسئلہ کشمیر پر نام نہاد بڑی حماعتوں نے منشور پیش کیا نہ اسے انتخابات کا موضوع بنایا، جبکہ محض الزام تراشیاں انتخابی مہم میں کی جاتی رہیں جس سے مقبوضہ کشمیر میں بر سر پیکار حریت پسند رہنماﺅں کو کوئی مثبت پیغام نہ پہنچ سکا- شاید اسی وجہ سے قائد حریت سید علی گیلانی کو توجہ دلانا پڑی کہ بیس کیمپ میں جماعتیں مسئلہ کشمیر کو موضوع بحث نائیں - یوں سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی نے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے صف بندی نہ کرکے سنگین جرم کا مظاہر کیا بلکہ جماعت اسلامی اور دیگر حلیف اور سیاسی جماعتوں نے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے جو فضا بنائی تھی اسے بھی پراگندہ کیا گیا- بہرحال پیپلز پارٹی نے اب جیسے تیسے اکثریت حاصل کرلی ہے اور وہ حکومت بھی بنالے گی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان انتخابات میں پارٹی تو جیت گئی ہے لیکن جمہوریت ہار گئی- اور یہی پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ جب سیاستدانوں کو موقع ملتا ہے وہ اپنی پارٹیاں جتوانے کے لئے یہ حربہ استعمال کرتے ہیں اور جب حکومت ملے تو میرٹ کا قتل عام کیا جاتا ہے ، ادارے تباہ کردیے جاتے ہیں، جیالے اور متوالے لوٹ مار میں مصروف ہوجاتے ہیں - عام آدمی پہلے سے بھی زیادہ مسائل کا شکار ہوجاتا ہے - اور وہ ایسی جمہوریت سے پناہ مانگنے لگتا ہے - اس اثناءمیں عزیز ہم وطنو کی صدا گونجتی ہے اور " جمہوریت کی خاطر " ملک میں مارشل لا ءلگا دیا جاتا ہے جسے لوگ نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ سیاستدانوں کے محاسبے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پھانسیوں اور جلاوطنیوں جیسے واقعات پربھی عوام میں بڑا ارتعاش پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں-
 آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے سوا تمام جماعتوں نے ان انتخابات کے نتائج کو مستر د کردیا ہے اور نئے بااختیار الیکشن کمیشن کے تحت فوج کی نگرانی میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیاہے - یہ مطالبہ آگے چل کر ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کرسکتا ہے - پاکستان کی قومی قیادت بالخصوص پیپلز پارٹی اور دفاعی اداروں کو آزاد کشمیر کی مخصوص حساس نوعیت کے پیش نظر شفاف انتخابات یقینی بنانے چاہئےں اور اس خطے میں سیاسی عمل کے حوالے سے ایک قومی ضابطہ ءاخلاق طے کیا جائے - مرکزی حکومت اور اس کے ادارے اس میں ہرگز مداخلت نہ کریںاور قانوں سازی کر کے پاکستان کی قومی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ آزاد کشمیر کے معاملات میں مداخلت سے باز رہیں- نیز دستوری اور تنظیمی لحاظ سے ریاستی تشخص رکھنے والی جماعتوں کو ہی سیاسی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہئے-