تازہ خبریں

library

Islamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic Library
 
spinner

بھارت سے تجارت....خسارہ ہی خسارہ

تحریر :عبدالرشید ترابی
This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

حکومت پاکستان کی طرف سے بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے کے فیصلے سے ریاست جموں وکشمیر بالخصوص ( مقبوضہ ریاست میں ) سکتے کی کیفیت ہے ۔ ہر آدمی سراپا سوال ہے کہ اگر 1947ءسے آج تک پانچ لاکھ کشمیریوں کا قاتل گزستہ بائیس برس کے دوران میں بد ترین ریاستی دہشت گردی کرنے والا ملک جس نے وہاں بنیادی حقوق سلب کر لیے ۔ کالے قوانین کے ذریعے عام سپاہی کو قتل عام کا کھلا لائسنس دے دیا جس کے درندوں نے ہزاروں مسلم خواتین کی آبرو ریزی کی اور اربوں ڈالرز کے اثاثے اور جائیدادیں خاکستر کر دی گئی ہیں ‘ ہزاروں نوجوانوں کی بے نام قبریں دریافت ہو رہی ہیں جن پر یورپین پارلیمنٹ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے بلکہ خود بھارت میں ارون دتی رائے اور گوتم نولکھا جیسے صاحب ضمیر قلم ان مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ۔سید علی گیلانی اور دیگر قائدین حریت گھروں میں نظر بند ہیں ۔ شیخ عبدالعزیز جیسے مرکزی حریت قائد کو شہید کرنے کے بعد دیگر قائدین کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں اور بار بار ان پر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں ۔
وہ بھارت جس نے اول روز سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کیا جس نے 1965میں پاکستان پر جنگ مسلط کی 1971ءمیںننگی جارحیت سے ملک کو دو لخت کیا اور جو آج بھی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے اور داخلی طور پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔ وزیر داخلہ سمیت ہمارے جنرل صاحبان بار بار بھارت پر الزام لگا چکے ہیں کہ بالخصوص بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں تخریبی کارروائیوں میں بھارت کی ایجنسی ” را“ ملوث ہے ۔ جس نے افغانستان میں درجن سے زائد قونصل خانے قائم کر کے انہیں دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل کر لیاہے ۔جو بھارت امریکہ اور اسرائیل کی شیطانی تثلیث کا ایک اہم ستون ہیں جو پاکستان کی فوج آئی ۔ ایس آئی اور اس کی ایٹمی صلاحیت کے درپے ہے ۔ ہر کشمیر ی سراپا سوال ہے کہ اگر اتنا مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والا ملک پاکستان کا انتہائی چہیتا اور پسندیدہ ملک ہے تو پھر پاکستان کا دشمن کون ہے ؟ اور پھر ایسی صورت میں کشمیری پاکستان کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف ایک سنگین وار ہی نہیں ایک ایسا نظریاتی سرنڈر ہے جو سقوط پاکستان سے بڑا سانحہ ہے ۔ یہ اکھنڈ بھارت کی طرف پیش قدمی ہے جو اس کا ایک دیرینہ خواب ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اہل کشمیر اپنی آزادی کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی اور بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں ۔اپنے خطابات میں تمام سیاسی رہنما قائداعظم کے اس قول کا حوالہ دیتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اگر واقعی ایسا ہے تو وہ غیرت اور حمیت کہاں گئی کہ 63برس سے شہ رگ دشمن کے قبضے میں ہے جسے وہ مزید دبوچ کر ختم کر دیناچاہتا ہے اسے آزادی دلوانے کے بجائے پاکستان اسے انتہائی پسندیدہ دوست قرار دے تو اسے اپنے دشمن کے وہ ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے جن کے ذریعے وہ پاکستان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ہمارے نزدیک اس کے مندرجہ ذیل سنگین مضمرات ہیں جن کا ادراک کرنا ضروری ہے:۔
٭ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں میں مایوسی بڑھے گی ۔ جو بھارت کا ہمیشہ ایجنڈا رہا ہے کہ کشمیری عوام کو باور کرایا جائے کہ پاکستان آپ کو ہمارے شکنجے سے نجات نہیں دلا سکتا ۔ بھارتی پالیسی سازوں کے سامنے شیخ عبداﷲ کی مثال ہے جنہوں نے 1947ءمیں تو غلط فیصلہ کیا اور نہرو کی دوستی کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن بعد میں جب انہیں باور ہوا کہ ان کے ساتھ بھارتی قیادت نے دھوکہ کیا ہے تو پھر وہ رائے شماری کے علمبردار بن گئے اور بائیس سال تک جیل میں بند رہے ۔ ان کے اس کردار کی وجہ سے انہیں شیر کشمیر کاخطاب بھی دیا گیا‘لیکن 1971ءمیں پاکستان دو لخت ہونے کے بعد وہ پاکستان کے ممکنہ کردار سے مایوس ہو کر اندرا گاندھی سے اپنے اقتدار کے لیے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے اس لیے کہ بھارت نے انہیں باور کرایا کہ اب ایک کمزور پاکستان آپ کی جدوجہد آزادی میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔ گزشتہ بائیس برس کے دوران میں بھارت کی حکمت عملی یہی رہی ہے کہ ایک مرتبہ پھر کشمیریوں کو پاکستان کے رول سے مایوس کر کے کوئی شیخ عبداﷲ تلاش کیا جائے ۔لیکن سلام ہے قائد حریت سید علی شاہ گیلانی اور ان کے ساتھ دیگر قائدین حریت ‘مجاہدین کشمیر اور کشمیری حریت پسند عوام جو حکومت پاکستان کی کمزور پالیسی اور بے وفائی کے باوجود ابھی تک اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور بھارت کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں ۔تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس فیصلے کے وہاں قائدین اور عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ سید علی شاہ گیلانی صاحب سے فون پر بات ہوئی تودوران گفتگو میں انہوںنے اس فیصلے کو ایک تاریخی سانحہ قرار دیا اور کہا کہ اس کے ذریعے حکومت پاکستان خود سرنڈر کرتے ہوئے کشمیریوں کو بھی اپنی جدوجہد سے دستبردار ہونے کا پیغام دے رہی ہے ۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ اس بھیانک سرنڈر پر محب وطن پاکستانی قیادت اور عوام کو سڑکوں پر کیوں نہیں آتے؟ تا کہ حکومت پالیسی بدلنے پر مجبور ہو۔ بہر حال اس فیصلے کے منفی اثرات کا احاطہ کرنا مشکل ہے ۔ بالخصوص حریت پسندوں کے مورال پر شدید منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اگر کشمیرواقعی پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیر پاکستان کی سلامتی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر حکومت اپنی فوج کے مورال بلند رکھنے کے لیے باقاعدہ اپنے فوجی ہیڈ کوارٹرز میں ایک ڈائریکٹوریٹ قائم کرتی ہے جو فوج کے حوصلوں کو بلندرکھنے کے لیے اقدامات اور پروپیگنڈے کا اہتمام کرتی ہے ۔ اس فیصلے سے کشمیریوں کو استقامت اور ڈٹے رہنے کی بجائے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہم لیٹ گئے تم بھی ڈھیر ہو جاﺅ۔ خدا نخواستہ اس قدر قربانیاں دینے کے بعد اگر کشمیر میں رائے عامہ کسی دوسرے رخ پر چلی گئی تو یہ شہدائے کشمیر کے ساتھ ہی نہیں ان سب شہداءکے خون کے ساتھ غداری ہو گی جنہوںنے آج تک کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی سلامتی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔
پاکستان میں نام نہاد روشن خیالوں کا ایک گروہ یہ پروپیگنڈآ کرتا ہے کشمیر کی وجہ سے پاکستان مشکلات میں ہے اس لیے کشمیر کے مسئلہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں بھارت سے تجارت سمیت تعلقات بڑھانے چاہئیں حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ بھارت کی پاکستان کے ساتھ دوستی کشمیر کی وجہ سے نہیںہے بلکہ کشمیر پر قبضہ بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے کیا۔اس پر سارا تاریخی ریکارڈ گواہ ہے ۔1971ءسے لے کر 1989ءتک مقبوضہ کشمیر میں کوئی بڑی آزادی کی لہر نہیں تھی اس کے باوجود انڈیا نے 1974ءمیں ایٹمی دھماکے کیوں اور کس کے خلاف کیے ؟ سیاچن پر قبضہ کیوں کیا ؟ اندرا گاندھی قتل نہ ہوتی تو 1984ءمیں وہ روس کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملے کا فیصلہ کر چکی تھیں۔ بعد میں راجیو گاندھی نے بھی پوری تیاری کر رکھی تھی ۔ لیکن ضیاءالحق شہید نے کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے راجیو گاندھی کو واضح پیغام دیا کہ ایسی صورت میں ہمارا ایٹم بم تیار ہے جو چل بھی سکتا ہے یوں پاکستان شر سے بچ گیا۔
اس پس منظر میں کشمیر میں تحریک مزاحمت پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک Assetلیے جسے محفوظ رکھنا اور اسے مضبوط تر کرنا ‘ پاکستان کی سلامتی کا ایک لازمی تقاضا ہے ۔ یہ اثاثہ دو قومی نظریے کے تناظر میں اپنا ایک نظریاتی پس منظر بھی رکھتا ہے ۔اس محاذ پر پسپائی پاکستان کا شیرازہ بکھیرنے کے مترادف ہے ۔ جس طرح پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ایک اثاثہ ہے اس سے بھی بڑھ کر کشمیر اور اس کی تحریک مزاحمت ایک اثاثہ ہے ۔ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کو معاشی فائدہ ہوگا ۔ سود خور ساہو کارانہ ذہنیت کل یہ دلیل بھی دے سکتی ہے کہ ایٹمی صلاحیت فروخت کرنے سے ہمیں زر مبادلہ ملے گا اور ہماری معیشت سنور جائے گی ۔ ظاہر ہے کہ قوم اور افواج پاکستان کی بد قسمتی ہوگی کہ وہ اس دلیل کے سامنے سرنڈر کر کے چند ٹکوں کے عوض اپنی ایٹمی صلاحتی فروخت کرے یا اس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہو جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح WTOاپنا ایک بین الاقوامی ضابطہ رکھتا ہے اسی طرح CTBTبھی نام نہاد بین الاقوامی ہتھکنڈا لیکن پاکستان CTBTپر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہے ۔اس لیے کہ یہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہے ۔ اس لیے WTOاگر پاکستان کی سلامتی داﺅ پر لگانے کا تقااضا کرے اور اس کے دباﺅ پر کوئی حکمران فیصلے کریں تو اسے سادہ الفاظ میں غداری سے کم اور کیا نام دیا جا سکتا ہے ۔
ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اس کے لیے سمگلنگ رکے گی اور پاکستان کو کسٹم ڈیوٹی کا فائدہ ہوگا ۔ سوال یہ ہے کہ سمگلنگ کا رخ کہاں سے کس طرف ہے ؟ پاکستان سے کیا سمگل ہو کر بھارت جاتا ہے ؟سرویز بتاتے ہیں کہ سمگلنگ کی زیادہ اشیاءبھارت ہی سے آتی ہیں ۔فی الحال بھارتی مصنوعات کی محدود منڈی ہے ۔لیکن اس غیر رسمی تجارت میں بھی بھارت کا پلڑا بھاری ہے اور کل جب MFNکا درجہ دینے کے بعد کھلے عام تجارت ہوگی توپاکستان کی صنعت ہی نہیں زراعت بھی سنگین بحران کا شکار ہو جائے گی۔ اس لیے کہ بھارت کسانوں کو سب سڈی دیتا ہے ۔ بجلی وافر ہے اور برائے نام دام پر بیج ‘ بجلی اور کھاد کستانوں کو فراہم کی جاتی ہے ۔ نیز بھارت کے ایک حکمت عملی کے تحت بھی زرعی مصنوعات کو مزید سستا کر کے پاکستان کی زراعت کا بیڑا غرق کر سکتا ہے۔یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ پاکستان کو بھی سوا ارب انسانوں کی منڈی دستیاب ہوگی لیکن اس سلسلے میں بھی چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ‘جس کی منڈی بھارت سے بھی وسیع ہے ‘لیکن دو طرفہ تجارت میں پاکستان زبردست خسارے میں ہے اور پاکستان کی چھوٹی موٹی صنعتیں بند ہو کر رہ گئی ہیں ۔ بھارت کے لیے منڈیا ںکھلنے سے چین اور بھارت کی مسابقت میں بچی کچھی صنعت بھی تباہ ہوکر رہ جائے گی جس کا بعد میں کوئی ازالہ نہ ہو سکے گا اور پھر یہاں تک ہی بس نہ ہوگی ‘بلکہ پاکستان کی راہ داری سے بھارت کی افغانستان تک رسائی جہاں امریکہ اسے اپنا پراکسی رول (Proxy Role) دینا چاہتا ہے اور بھی پیچیدگی پیدا کرے گی ۔ پاکستان کے اندر تخریبی قوتوں کو مزید مسلح کر کے وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین مسائل پیدا کرے گا ۔ اس لیے ہر اعتبار سے حکومتی فیصلہ خسارے کا سودا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دینی اور محب وطن حلقے اور اہل دانش سراپا احتجاج ہیں اور اس فیصلے کو واپس لینے کے لیے زور دے رہے ہیں ۔ دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ ایک قومی کانفرنس ( جس میں پاکستان کے تمام قابل ذکر دینی اور سیاسی قیادت کی نمائندگی تھی ) نے اس فیصلے کو تحریک آزادی کشمیر اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف قرار دیتے ہوئے واپس لینے کا مطالبہ کیا اور ائے عامہ کی بیداری کے لیے پورے ملک میں ایک مہم چلانے کا فیصلہ کیا ۔ا س سلسلے میں 11دسمبر لیاقت باغ میں ایک عظیم الشان کانفرسن ہو گی جس میں پاکستان کی قومی و ملی قیادت خطاب کرے گیا ور اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ اسی طرح جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر کے زیر اہتمام 21نومبر2011ءکے منعقدہ کل جماعتی کشمیر کانفرنس (جس میں آزاد کشمیر کی تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ حریت قائدین اور گلگت بلتستان سے بھی نمائندے موجود تھے۔)نے متفقہ طو رپر اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا فیصلہ کیا اور 25نومبر کو پورے آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان میں ایک ہمہ گیر ہڑتال کی کال دینے کا فیصلہ کیا ۔نیز ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جو پاکستان کی قومی قیادت سے مل کر انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کرے گی۔امید ہے کہ تمام محب وطن سیاسی و دینی حلقے اور اہل دانش اس اعلامیہ کو کشمیریوں کی متفقہ آواز سمجھتے ہوئے اس انتہائی مہلک فیصلے کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اعلامیہ کے اہم نکات یہ ہیں۔
٭ کانفرنس پاکستانی عوام ‘ قائدین‘ پارلیمنٹ اور کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کے فیصلے کو پاکستان کی مقامی صنعت کے علاوہ ملک کی سالمیت ‘ دو قومی نظریہ اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے انتہائی خطرناک قررار دیتے ہوئے اسے مسترد کرتی ہے اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔
٭ کانفرنس 25نومبر بروز جمعتہ المبارک کو اس خطرناک فیصلے کے خلاف آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان میں ہڑتال کی اپیل کرتی ہے تا کہ عوامی سطح پر اس فیصلے کو مسترد کیا جا ئے۔
٭ کانفرنس کی نظر میں جس طرح برطانیہ نے تجارت کے نام پر بر صغیر پر تسلط جمایا اور ساڑھے تین سو سال تک یہاں کے عوام کے سینوں پر مونگ دلتا رہا ۔ بھارت بھی اپنی فوجی قوت ‘ مستحکم معیشت اور حجم کی بنیاد پر ” اکھنڈ بھارت“ کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل چاہتا ہے ۔ اس لیے بھارت کوMFNکا درجہ دینا اس کے خانوں میں رنگ بھرنے کے مترادف سمجھتی ہے ۔
٭ کانفرنس کی رائے میں ہزار سال تک کشمیر کے لیے جنگ کرنے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی کے دور میں پاکستان کو دو لخت کرنے والے‘ سیاچن میں جارحیت کے ذریعے قبضہ کرنے والے ‘پاکستان کی شہ رگ کو 64برس سے دبوچے رکھنے والے ‘ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرکے مملکت خدادا پاکستان کو بنجر بنانے اور سیلاب کی نذر کرنے والے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا افسوس ناک ہی نہیں انتہائی تاریخی المیہ بھی ہے ۔
٭ کانفرنس حکومت کی طرف سے افغانستان میں قائم ”را“ کے مراکز کے ذریعے بلوچستان ‘ کراچی ‘سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے میں بھارت کے ملوث ہونے کے اعلانات اور دوسری جانب اسے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کے فیصلے کو حکومت کے قول و عمل میں واضح تضاد قرار دیتی ہے اور حکمرانوں کے ان دلائل کو بھی مسترد کرتی ہے کہ اس فیصلے کا مسئلہ کشمیر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان معاشی ‘ سیاسی ‘ نظریاتی ہر حیثیت سے خسارے میں رہے گا اور بین الاقوامی سطح پرمسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کو پذیرائی ملے گی اورجموں وکشمیر کے سرفروشوں کے لیے انتہائی منفی پیغام ہے جو بھارتی قابض فوج کی بندوقوں کے سائے میں 14اگست کو یوم پاکستان اور 15اگست کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔
٭ کانفرنس کا احساس ہے کہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دلوانے میں اس کے ” اسٹریٹیجک پارٹنر“ امریکہ نے سب سے زیادہ دلچسپی لی ہے ‘ کیونکہ وہ بھارت کو علاقائی سے بڑھ کر ایک عالمی طاقت بنانے کا خواہش مند ہے اور اسے خطے کی بالا دست قوت بنانے کے لیے جدید اسلحہ اور نیو کلیئر ٹیکنالوجی سے لیس کر رہا ہے ۔
٭ کانفرنس امریکہ سمیت بھارت کے تمام سرپرستوں کو باور کرانا چاہتی ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر نہ دیرپا تجارتی تعلقات قائم رہ سکتے ہیں اور نہ ہی امن قائم ہو سکتا ہے ۔ اس لیے امن اور جمہوریت کے دعوے دار تمام ممالک اور بین الاقوامی ادارے خطے اور عالمی امن کے استحکام کے لیے بھارتی ریاستی دہشت گردی کو رکوانے کا اہتمام کریں اور مسئلہ کشمیر حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
٭ کانفرنس پاکستان عوام ‘ سیاسی ‘ سماجی ‘ مذہبی قائدین اور تنظیموں پارلیمنٹ کے ممبران ‘ دانشوروں ‘ صحافیوں اور وکلاءسے اپیل کرتی ہے کہ وہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے خطرناک مضمرات کا ادراک کرتے ہوئے اسے مسترد کر کے حکومت کو مجبور کریں کہ وہ اس فیصلے سے نہ صرف رجوع کر ے‘ بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور پاکستان کے استحکام کے خلاف اس کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں اور رائے عامہ کو متحرک کرنے کا اہتمام کرے اور مقبوضہ ریاست میں جاری تحریک آزادی کی تحریک کی بھر پور پشتیبانی کرے ‘ نیز بھارت کو یہ باور کرائے کہ کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق ‘حق خود ارادیت دلوائے بغیر نہ بھارت سے دوستی ہو سکتی ہے اور نہ تجارتی تعلقات میں وسعت اختیار کی جا سکتی ہے۔

٭ تمام جماعتوں کے سربراہان اور حریت کانفرنس کے قائدین پر مشتمل وفود بنائے جائیں جو پاکستان کے سیاسی اور حکومتی ذمہ داران سے ملاقاتیں کر کے کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے سے ان کو آگاہ کریں۔
٭ کانفرنس بھارتی وزیر اعظم کے اس دعوے پر بھی تشویش کا اظہار کرتی ہے کہ پاک فوج بھی اس پراسیس میں شامل ہے ۔ دفاعی اداروں کی طرف سے دو ٹوک وضاحت نہ ہونے کے نتیجے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں جن کے ازالے کے لیے پاک فوج کی طرف سے دو ٹوک وضاحت از بس ضروری ہے ۔