تازہ خبریں

library

Islamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic Library
 
spinner

”جموںو کشمیر چھوڑ دو “ تحریک اور ہماری ذمہ داریاں

عبدالرشید ترابی
This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مقبوضہ ریاست جموںو کشمیر میں اٹھنے والے حالیہ انقلاب کی گہرائی اور گھیرائی 1990 کے ابتدائی برسوں سے بھی زیادہ شدید اور ہمہ گیر ہے ۔1990ء میں تحریک صرف وادی کشمیر تک محدود تھی ،جسے صوبہ جموں کے اضلاع تک پہنچنے میں کئی برس لگ گئے تھے کیونکہ پونچھ اور راجوری کے مسلمانوں کو 1965ء میں مجاہدین کا ساتھ دینے پر بھارتی قابض فوج نے جس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹا اور بچے کھچے لوگوں کو جس بڑی تعداد میں ہجرت کرنے پر مجبور کیا ، اس کی وجہ سے ان علاقوں میں اعتماد کی کمی کا در آنا فطری تھا - پھر یہاں کے باسیوں کویہ گلہ بھی تھا کہ وادی کی لیڈر شپ نے تحریک آزادی کے نئے مرحلے کے آغاز میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا- چنانچہ شروع میں ان علاقوں کے لوگوں میں اعتماد کی بحالی میں کافی دقت پیش آئی ‘ لیکن آہستہ آہستہ ان کے شکوک و شبہات رفع ہوگئے اور اب موجودہ تحریک وادی کشمیر کے علاوہ ڈوڈا‘ بھدروا‘ پونچھ ‘ راجوری ‘ جموں ‘ ادھم پور حتیٰ کہ لائن آف کنٹرول سے بالکل متصل مینڈھر جیسے چھوٹے قصبات (جو بھارتی قابض فوج کی عملاًچھاﺅنیوں میں بدل چکے ہیں )تک بھر پور شدت کے ساتھ موجود ہے ۔مینڈھر جیسے قصبے میں عوامی غیظ و غضب نے حکومت اور انتظامیہ کے تمام دفاتر ‘ تنصیبات اور ٹرانسپورٹ کو نذر آتش کر کے بھارتی قابض افواج کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔اس طرح لیہ‘ لداخ اور کارگل میں آزادی کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ جو لوگ کشمیر کے حالات کو محض سطحی نظر سے دیکھتے ہیں وہ سوال کرتے ہیں کہ اچانک اتنا بڑا انقلاب کیسے برپا ہوا؟ بھارت اور اس کی ہم خیال لابی یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ ایک خود روتحریک ہے جس کا کوئی قائد و رہنما نہیں ہے ؟
یہ سوال بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی بے وفائی بلکہ جہاد آزادی کے ساتھ غداری اور بین الاقوامی رائے عامہ کی سرد مہری کے باوجود بھی کشمیر ی کس امید اور برتے پر اٹھ کھڑے ہوئے ؟ ان کا جذبہ محرکہ کیا ہے ؟ زیر نظر تحریر میں ان ہی سوالات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ گزشتہ پچیس تیس سالہ تحریک کے مختلف مراحل کو راقم نے بہت قریب سے دیکھا ۔اس تحریک کے قائدین اور کارکنان ‘ مجاہدین اور انصارسے وسیع تعارف و تعلق کی بنیاد پر ہر ہر مرحلے پر میری رائے پختہ تر ہوتی چلی گئی کہ یہ تحریک محض مشیت الٰہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کی وساطت سے نہ صرف اہل جموں وکشمیر کو آزادی کی منزل سے ہمکنار کرنا ہے ‘ بلکہ بر صغیر میں ہی نہیں امت مسلمہ کے عروج کے نئے دور کا آغاز بھی کرنا ہے ۔ یہ تحریک ان معصوم اور پاک باز شہداءکے خون کا ثمر ہے جو انہوں نے محض رب کی رضا اور آزادی کے جذبے کے ساتھ مقبوضہ ریاست کے چپے چپے پر نچھاور کیا۔ ان ایک لاکھ سے زائد شہداءمیں انصار کی بھی ایک بڑی تعداد ہے ۔ ان میں ایسے گم نام ہیر و ز بھی ہیں جن کا آج نام لینا بھی دشوار بنا دیاگیا ہے ۔یہ تحریک کشمیری حریت پسندوں اور ان کے قائدین کے جذبہ حریت کی داستان بھی ہے جن میں سے کئی ہزار توگمنام قبروں میں مدفون ہیں ۔ ان ہی شہداءکی فصل کی کوکھ سے ایک نسل جنم لے چکی ہے جو خوف اور لالچ کے ہتھکنڈوں کوخاطر میں لائے بغیر ٹینکوں ‘ بکتر بند گاڑیوں اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے مقابلے میں پتھروں اور اﷲ کی کبریائی کے نعروں سے مقابلہ کر رہی ہے -طاقت اور وسائل کے اعتبار سے اس غیر مساوی معرکہ میں سات لاکھ سپاہ اپنے سارے ہتھیاروں اور بے پناہ وسائل کے باوجود شکست خوردہ اور دلبرداشتہ ہے جب کہ ابابیلوں کا لشکر فتح کے جذبہ سے سرشار ہے ۔
اہل جموں و کشمیرقربانیوں کو اس لازوال داستان سے دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جو قوم ذہنی غلامی کی کیفیت سے نکل آئے اسے دنیا کی کوئی طاقت محض اسلحہ اور فوجی برتری کی بنیاد پر غلام نہیں رکھ سکتی ۔لیکن یہ انقلاب محض ایک لاکھ شہداءکے خون کا نتیجہ نہیں اس میں تو چار لاکھ سے زیادہ وہ شہداءبھی شامل ہیں جنہوںنے 1947ءسے لے کر 1965ءاور 1971ءتک جموں ‘ پونچھ، راجوری، ڈوڈا‘ بھدرواہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
یوں تحریکِ آزادی جموں و کشمیر پانچ لاکھ شہداءکی امین ہے ، لیکن اگر 1947 سے پہلے کے مراحل میں شمار کریں تو قر بانیوں کا یہ سلسلہ دراز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔13 جولائی 1931 کے شہداءاور ان سے بھی ایک صدی قبل 1832 میں پونچھ اور منگ کے مجاہدین کا جہاد جس کے نتیجہ میں سردار ملی خان اور سردار سبزعلی خان اور شمس خان راجولی خان جیسے شیر دل کمانڈروں نے سکھ اور ڈوگرہ اقتدار کو للکارا اور جام شہادت نوش کر گئے۔ان کے اس جرم کی سزا میں بستیوں کی بستیاں ویران کردی گئیں۔یوں قربانیوں اور استقامت کی یہ داستان تاریخ کے کا ایسا سہنرا باب ہے ،جس پر کتابوں کی کتابیں لکھی گئی ہیں، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس لیے اس سارے تاریخی سفر پر نظر رکھنے والے ایک لمحے کے لیے بھی مایوس نہیں ،وہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی جدو جہد جاری رکھے ہو ئے ہیں۔
کشمیریوں کی بدقسمتی ہے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود محض قیادت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے اب تک آزادی کی منزل سے ہمکنار نہ ہو سکے جو قیادت مفادات کی اسیر ہو جائے یا جس کی تاریخ پر نظر نہ ہو اور وہ اس قدر کوتاہ نظر ہو جائے کہ پہاڑ کی دوسری طرف دیکھنے سے محروم ہو ایسی قیادت قوموں کو منزل سے ہمکنار کرنے کے بجائے ان کی غلامی کا سبب بن جا یا کرتی ہے۔1947 ءمیں شیخ عبداللہ کی شکل میں کشمیریوں کو ایک ایسا ہی رہنما ملا جو کروٹ بدلتی تاریخ کا ادراک نہ کر سکا اور کشمیری قوم کی غلامی کا عنوان بن گیا ۔رواں تحریک کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس تحریک کی فکری اور عملی رہنمائی کے لیے سید علی گیلانی جیسی شخصیت موجود ہے جو تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہوئے ہندوﺅں کی چالوں سے آگاہ ہے، جو اقبال کے سچے مردِ مومن کی حیثیت سے قرآن اور اسلامی تاریخ کی بصیرت کی روشنی میں بھارتی استعمار کے تانے بانے کو مکڑے کے جالے سے زیادہ اہمت دینے کے لیے تیار نہیں۔مجاہدین کشمیر کی جدو جہد کامیابی کی دہلیز پر پہنچ چکی تھی کہ پرویز مشرف نے کاز سے غداری کر کے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا، مجاہدین کے پاﺅں میں بیڑیاں ڈالی دی گئیں، قومی موقف کا ستیا ناس کردیا اور باقی کشمیری قائدین کی طرح گیلانی صاحب کے لیے بھی دام ہم رنگ زمیں بچھایاگیا لیکن اس آزادی کی جوت جگانے والے اس پنچھی نے مشرف کے جال میںمیں پھنسنے کے بجائے اپنا نعرہ مستانہ بلند رکھا ۔
گیلانی صاحب کے علاوہ چیئرمین متحدہ جہاد کونسل و امیر جزب المجاہدین سید صلاح الدین کی استقامت نے بھی تحریکِ آزادی کشمیر کو پرویز مشرف کی وار سے بچا لیا ورنہ ڈکٹیر تو موجودہ LOC کو مستقل سرحد بنانے پر تلا بیٹھا تھا ، وہ کشمیریوں کو سلیف گورنس کا کھلونا دے کر کشمیر کا ٹنٹا ہی ختم کردینا چاہتا تھا - مشرف کے اصرارپر حریت قائدین کا ایک حلقہ بھارت سے بات چیت کے پراسس میں بھی شامل ہوا ، اس سارے عمل سے کشمیریوں کو مصنوعی طور پر ایک امید کا چراغ دکھانے کی کوشش کی گئی ، لیکن یہ ترکیب کار گر ثابت نہ ہو سکی اور بھارت نہ صرف یہ کہ کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہ ہوا بلکہ اس نے اپنی اٹوٹ انگ کی رٹ بر قرار رکھی ، حالات نے ثابت کیا کہ سید علی گیلانی کا موقف ہی صائب تھا۔یوں پوری قوم بالخصوص وہاں کے شیر دل نوجوان بھارت سے آزادی کے حصول کی جدو جہد تیز تر کرنے کے لئے مزید یکسو ہوگئے ۔
پھر شرائن بورڈ کے مسئلہ پر ایک بڑی تحریک اٹھی اور اس سفر میں شیخ عبدالعزیز شہید کر دیے گئے ، ان کی شہادت نے بھی تحریک کو نئی جلا بخشی -تحریک کو کچلنے کے لیے بھارت نے روایتی استعماری ہتھکنڈے استعمال کئے جس کا مزید رد عمل ہوااور گزشتہ 22 سالہ تحریکِ مزاحمت کے دوران پروان چڑھنے والا نوجوان اس قدر بے خوف ہو کر میدان میں اتر آیا کہ کرفیو کی پروا نہ کرتے ہوئے باہر نکل آیا اور سینے پر گولیاں کھاکر بھارت کی نام نہاد جمہوریت کا کھوکھلا پن ساری دنیا پر عیاں کردیا ۔تحریک کی شدت نے سرینگر اور بھارت کے در و دیوار کوہلا کر رکھ دیا۔بھارتی آرمی چیف ایک مرتبہ پھر چیخ اٹھا کہ فوج اپنا کام کرچکی اب سیاسی قیادت سیاسی انداز سے اس مسئلے کو حل کرے ۔ عمر عبداللہ اسمبلی کے فلورپر کہنے پر مجبور ہوا کہ مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے ، محض انتخابات مسئلے کا حل نہیں ہیں - بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ایک سے زیادہ کل جماعتی کانفرنسوں کا انعقاد کرکے مسئلے کی سنگینی کا نوٹس لیا اور کل جماعتی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے کر کشمیریوں کی اشک شوئی کرنے کے لیے اسے کشمیر بھیج دیا، جس کا حریت قیادت نے بائیکاٹ کیا اور وفد کی حریت قیادت کے گھروں میں از خوآمد پر جناب سید علی گیلانی اور جناب میر واعظ عمر فاروق سمیت دیگر قائدین نے میڈیا کی موجودگی میں بر ملا اپنے اس موقف کا اظہار کیا کہ آزادی سے کم وہ کسی حل کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ۔یوں کمیٹی بے نیل مرام جموں و کشمیر سے واپس جانے پر مجبور ہو گئی- کشمیری قیادت نے بھارت پر واضح کر دیا کہ انہیں اب کوئی شیخ عبداللہ نہیں ملے گا جو نام نہاد داخلی خود مختاری اور اپنے اقتدار کے لیے کشمیریوں کا سودا کر سکے۔
اللہ کے فضل سے تحریک کے رواںمرحلے پر حریت قیادت بھی مخلص ہے ، پھر قوم خود اس قدر بیدار اور سیاسی شعور سے آراستہ ہے کہ اگر کوئی قائد غلطی کرنا بھی چاہے تو وہ ایسا نہیں ہونے دے گی۔ بیس برس قبل افغان جہاد کی وساطت سے جب سوویت روس اپنے منطقی انجام کو پہنچا تو کشمیریوں نے بھی مسئلہ کے حل کے لئے مسلح جہاد کواپنی تحریک کا ہتھیار بنایا اور دنیا اور بھارت کو یہ باور کرایا کہ کشمیری محض گولی کھانا ہی نہیں گولی مارنا بھی جانتے ہیں۔بلا شبہ کشمیری قوم نے خود بھی ہزاروں شہداءپیش کئے لیکن بھارتی فوج کو تگنی کا ناچ نچایا، تین،جنرلوں سمیت ہزاروں سپاہی اور افسر واصل جہنم ہوئے ۔اگر مشرف پسپائی اختیارنہ کرتا اور عسکری تحریک دو اڑھائی برس اسی سطح پر قائم رہتی تو بھارت کے لیے جموں و کشمیر سے فرار کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔بہرحال بین الاقوامی حالات کے جبر اور پاکستان کے حکمرانوں کی بے وفائی اورکنٹرول لائن آر پار کی کشمیری قیادت کے ایک بڑے حصے کی خو د غرضی کے باو جود یوں توجدو جہد سیاسی اور عسکری ہر محاذپر جاری رہی لیکن معروضی حالات میںجب مسلح جدو جہدکے لئے مشکلات پید کردی گئیںتو کشمیریوں نے سول مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی- جموں و کشمیر کی اجتماعی دانش نے وہی ہتھیار آزمانے کا فیصلہ کیا جس کاعالمی حالات کی روشنی میں تقاضا تھا۔سول مزاحمت کی اس روح کو برقرار رکھنے کے لیے استعداد ہونے کے باوجود سید صلاح الدین نے اعلان کر دیا کہ مجاہدین کوئی کارروائی نہ کریں گے ، کوئی کارروائی ضروری ہوئی بھی تو لائن آف کنٹرول سے متصل علاقوں میں ہو گی جہاں بھارتی فوج کے مظالم حد سے بڑھ چکے ہیں ۔
اس تحریک کے بارے میں بھارت کے چوٹی کے دانشوروں نے یہ حقیقت تسلیم کی ہے کہ یہ ایک مقامی تحریک ہے اس میںپاکستان کے ریاستی یا غیر ریاستی کسی عنصرکا دخل نہیں ۔بھارت میں اہل دانش میں تقریبا یہ اتفاق رائے پیداہو چکا ہے کہ کشمیریوں کی بات سنے بغیر کوئی چارہ نہیں اور اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑ کر ان کے موقف کو سننا چاہئے۔بھارتی کمیونسٹ پارٹی نے پورے بھارت میں اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور ریاست میں بھارتی مظالم کی شدید مزاحمت کی۔
جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوری نے ایک قرار داد کے ذریعے مقبوضہ ریاست میں انسانی حقوق کی پامالی کی شدید مزاحمت کرتے ہوئے مسئلہ کو تاریخی پسِ منظر میں حل کرنے پر زوردیا۔دارالعلوم دیو بند میں ایک بڑی کانفرنس ہوئی جس میں بھارتی مظالم کی مزاحمت کی گئی ، البتہ مسئلہ کو بھارتی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے حل کر نے پر زور دیا گیا۔حریت قائدین نے کانفرنس کے اس موقف کو اتفاقِ رائے سے مسترد کیا کہ بھارتی آئین کے اندر اہل کشمیر کسی حل کو قبول نہیں کریں گے۔
اقوام متخدہ کے سیکرٹر ی جنرل نے حالات پر تشویش کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ کے کسی کردار کو دونوں ممالک کی رضا مندی سے مشروط کیا۔O.I.C کے سیکرٹر ی جنرل نے واضح طورپر مظالم کی مزاحمت کی اور نیویارک میں O.I.C وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے موقع پر بیانات اور قراردادوں سے آگئے بڑھ کر اقدامات کرنے پر زور دیاگیا۔ایمنسٹی انٹر نیشنل ، ایشیا واچ اور دنیا بھر کے انصاف پسند حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بر ملا بھارتی مظالم کی مزاحمت کی اور صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ۔سب سے جرا ¿ت مندانہ مو ¿قف ہمارے روایتی دوست چین نے اختیار کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں سری نگر میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بی ایس بسوال کو چین کا ویزہ دینے سے انکارکر دیا ، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ریاستی باشندوں کو بھارتی پاسپورٹ کے بجائے پلین ڈاکومنٹ (Stapple visa)پر ویزہ جاری کرکے نہ صرف کشمیریوں کے دل جیت لیے بلکہ بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کو ایک نئی جہت عطا کردی ۔یوں تحریک کی اس لہر نے ساری دنیا میں ایک تلاطم بر پا کر دیا ، لیکن مقام افسوس ہے کہ تحریک سے ہم آہنگ عوامی لہر نہ آزاد کشمیر میں بر پا ہوئی اور نہ پاکستان کے اندر اس کا اہتمام ہوا۔ اس کا سب سے بڑا سبب پاکستان کی حکمران قیادت کی سر مہری اور بیس کیمپ کے اقتدار پرست سیاستدانوں کی ذاتی مفادات پر مبنی سوچ ہے جس کا نتیجہ میںآزاد کشمیر میں صرف دو سال کے عرصے میں چار وزرائے اعظم تبدیل ہوئے اور اسمبلی ممبران کے حلف توڑنے کا نیا ریکارڈ قائم ہوا۔بلا شبہ حالات کے جبر کے تحت قومی پارلیمان میں بھارتی مظالم کی مذمت اور کشمیریوں کے حق میں ایک قراد بھی پاس ہوئی اور وزیر خارجہ ے جنرل اسمبلی میں بھی کافی عرصہ بعد جرا ¿ت مندانہ موقف اختیار کیا ، لیکن قراردادوںاور تقریروں کی پشت پر ٹھوس عملی اقدامات نہ ہوں تو محض زبانی جمع خرچ سے کشمیریوں کو مظالم سے چھٹکارا نہ دلایا جاسکے گا۔
ان حالات میں رائے عامہ متحرک کرنے کے لیے پھر جماعت اسلامی اور دینی جماعتیں ہی آگئے بڑھیں ، یوں تو جماعت اسلامی پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوںکی پشتیبانی کا حق ادا کیا ، پھر سیلاب کی وجہ سے جماعت کی ساری تنظیم ریلیف اور بحالی کےے کاموںمیں مصروف ہونے کے باو جود پورے ملک میں عشرہ یکجہتی بنا کر اہل کشمیر کو پیغام دیاگیا کہ وہ اس جدو جہد میں تنہا نہیں ۔ جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر نے ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی 21 ستمبر 2010 کو اسلام آباد میں حریت سمیت تمام جماعتوں کے قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے انہیں کشمیر کے حوالے سے ایک مشترکہ موقف پر جمع کیا اور صدر آزاد جموں و کشمیر کی سر براہی میں ایک کل جماعتی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیاجو مقبوضہ جموں و کشمیر کی تحریک کی تقویت کے لیے ”کاروان آزادی “ چلانے یا ریلیف کاروان کا اہتمام کر نے کے لیے مختلف تجاویز پر مشاورت کرے گی۔نیز ڈیکلریشن میں بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس موقع پر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں ، سلامتی کونسل ،O.I.C کے اجلاس بلانے کے لیے حکومت پاکستان تحریک پیش کرے ، بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے با مقصد دوروں کا اہتمام کیا جائے ، وفود میں ایسے لوگ شامل ہوں جو مسئلہ کے پسِ منظر سے حقیقی معنوں میں آگاہ ہوں ۔ قرار داد میں حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ایک قومی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جائے جس میں ساری صور تحال کا جائزہ لیکر اقدامات تجویز کئے جائیں۔ڈیکلیریشن میں چین کے کردار کی بھی تعریف کی گئی اور دیگر ممالک سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ اس کی تقلید کریں ، قرار داد میں بھارت سے ریلیف کے نام پر چند ملین ڈالرز کی امداد کو مسترد کر نے کامطالبہ کیا گیا ، نیز بیس کیمپ کو تحریک آزادی سے ہم آہنگ کر نے کے لیے آئینی اصلاحات سمیت دیگر ضروری اقدامات کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
اسی طرح کی ایک کانفرنس وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بھی منعقد کی جس میں متذکرہ قراداد کی توثیق کر تے ہوئے 24 اکتوبر یوم آزادی کشمیر ، 27 اکتوبر یوم سیاہ تا چھ نومبر تک ایک پورا عشرہ یکجہتی منانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں تمام جماعتیں متحد اور منظم ہو کر اپنے بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے۔جماعت اسلامی پاکستان نے لاہور میں اسی طرح کی ایک جماعتی کانفرنس منعقد کر کے پاکستانی قومی کی طرف سے تحریک کے ساتھ مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔تحریک آزادی کشمیر کے نام سے تحریک آزادی کے نامور پشتیبانوں جناب عبدالرحمن مکی، جناب عبدالعزیز علزی، جناب امیر حمزہ کی قیادت میں کئی سو گاڑیوں پر مشتمل ایک کاروان کشمیر کا اہتمام کیا گیا جس میں میر پور، کوٹلی ، راولاکوٹ، باغ، مظفر آباداور اسلام آباد میں بڑی بڑی ریلیز منعقد کی گئی ، جہاں پاکستان اور کشمیر کی قومی قیادت نے شرکت کرکے بھر یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ان سارے پروگرامات سے مقبوضہ کشمیر میں قائدین حریت اور حریت پسند لیڈروں کو یہ پیغام پہنچانے کا اہتام کیا گیا ، لیکن وہاں کے حالات مزید بڑے اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک نے ساری دنیامیں ایک ارتعاش پیدا کردی ہے ۔ رائے عامہ ، ادارے اور انصاف پسند حلقے ہمدردی کا واضح جذبات رکھتے ہیں جس کا اظہاربھی مختلف پیرائے میںہو رہاہے، لیکن ضرورت ہے کہ متعین اہداف کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی تشکیل دیتے ہوئے بھارت کے مظالم روکنے کا اہتمام کیا جائے۔ اگر مو ¿ثر رائے عامہ کا دباﺅ نہ رہا تو مقبوضہ ریاست میں ایک بڑے قتل عام کا خطرہ ہے ۔ ایسی صورت میں جہاں مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف قائدین کے لیے نوجوانوں کو پر امن رکھنا مشکل ہو جائے گا ، بلکہ آزاد کشمیر اور پاکستان میںبھی حالات کو قابو میںرکھنا ممکن نہ رہے گا۔
آزاد جموں وکشمیر کی سطح پر پہلے ہی بڑے پیمانے پر سیز فائر لائن توڑنے اور اپنے بھائیوں کے لیے ریلیف کاروان چلانے کی تجاویز زیر غور ہیں۔مزید براں پاکستان میں مقیم بیس لاکھ کشمیری مہاجرین اور پوری پاکستانی قوم جس کی تحریک آزادی کے ساتھ کمٹمنٹ کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کی پشتی بانی کے لیے آگئے بڑھے گی تو پورے خطے میں ایک طلاطم بر پا ہوگا، ان تمام جذبات کو منظم کر نے اوران کا برمحل اور درست استعمال یہاں کی حکومت اور قیادت کا کام ہے ۔ اس لیے حکومت پاکستان مندر ذیل اقدامات کا اہتمام کرے جن پر کشمیری اور پاکستانی قیادت پہلے ہی اتفاق کر چکی ہے:
٭۔ ایک قومی کشمیر کانفرنس طلب کر تے ہوئے تفصیلی لائحہ عمل طے کیا جائے۔
٭۔ سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جائے۔
٭۔ O.I.C کا سربراہی اجلاس طلب کیا جائے جیسے فلسطین کے مسئلہ پر O.I.C کا اجلاس منعقد ہوا-
٭۔ جب تک بھارت مظالم بند نہ کرے نام نہاد بات چیت کا عمل ختم کیا جائے، کوئی بات چیت اسی صورت میں ہو کہ بھارت اٹوٹ انگ کی رٹ تر ک کرے، فوجی واپس بلائے، کالے قوانین ختم کرے ، قیدی رہا کرے اور جن لوگوں نے حالیہ قتل عام کیا ہے انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔یہی مطالبات قائد حریت سید علی گیلانی اور دیگر قائدین نے بات چیت کے لیے بطورشرائط طے کے ہیں ہمیں ہر سطح پر من و عن ان کے موقف کی تائید کا اہتمام کر نا چائیے۔
٭۔ کشمیریوں کی ناکہ بندی توڑنے کے لیے بین الاقوامی انسانی امداد کرنے والے اداروں کا اہتمام اور تعاون سے فریڈم فروٹیلا طرز پر ایک ریلیف کاروان کا اہتمام کیاجائے۔
٭۔ چین کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے باقی دوست ممالک سے بھی چین کی پالیسی کی پیروی کرنے کے لئے کہا جائے۔
٭۔ آزاد جموں و کشمیر کا تحریک آزادی کشمیر کا حقیقی بیس کیمپ بنانے کے اقدامات کئے جائیں اور اس کا وہ کردار بحال کیا جائے جس کا وژن قائد اعظم نے دیا تھا۔
٭۔ حکومت پاکستان دہشت گردی کے نام پر جاری امت مسلمہ کے خلاف جنگ سے اپنے آپ کو لا تعلق کر تے ہوئے قبائل میں تصادم ختم کرے اور ساری دفاعی صلاحیت کو بھارت کے جارحانہ عزائم کے تدارک کے لیے بروئے کار لائے، نیز جس طرح نیٹو کی سپلائی کی بندش سے ہفتہ دس دن میں ان کی چیخیں نکل پڑیںاس سے یہ ثابت ہوا کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر نیٹو فورسز قطعاً یہ جنگ جاری نہیں رکھ سکتے جو عملاً ہار چکے ہیں۔ابھی تک جن کی حمایت کی وجہ سے قوم خانہ جنگی کے دھانے تک پہنچ چکی ہے ان سے سوال بھی کیا جائے کہ کشمیر جیسے بنیادی مسئلہ پر ان نام نہاد دوستوں نے پاکستان کی کیا مدد کی؟
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کو کشمیر کی صورت حال کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینا یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی نام نہاد اشرفیہ کی ساری تابعداری کے باو جود بھارت ہی اس کا سٹرٹیجیک پارٹنر ہے جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بقیہ کشمیر بھی اسی طرح آزاد ہو گا جس طرح 1947 میں ریاست کا آزاد حصہ بہ نوک شمشیر آزاد ہوا تھا۔اللہ پر توکل کر تے ہوئے اسی طرح آگئے بڑھنے کی ضرورت ہے جیسے مقبوضہ ریاست میں سب سہاروں سے بے نیا ز ہو کر محض اللہ ہی کو سہارا بنا کر عزم و استقامت کے ہتھیار سے لیس ہوکر سوئے منزل رواں دواں ہیں۔اس سطح پر آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کا عوام اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے ، آزادی کی تحریک کی یہ لہر بھارتی استعمار کے لرزتے ایوانوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی اور ہم دنیا و آخرت میں سر خرو ہونگے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔(آمین)