جماعت اسلامی اس خطے میں اﷲ کے دین کے قیام کے لیے سر گرم عمل ہے ۔ یہ وہ بنیادی فریضہ ہے جس کے لیے اﷲ تعالیٰ نے انبیاءعلیہم السلام بھیجے ۔یہ سلسلہ نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم پر ختم ہوگیا۔ آپ ﷺکو اﷲ تعالیٰ نے اپنی ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ:” اور اﷲ ہی ہے جس نے اپنے رسول صلی اﷲ علیہ و سلم کو ہدایت کے ساتھ بھیجا تا کہ اﷲ کے دین کو سارے ادیان پر غالب کر دیں اگرچہ مشرکوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔
اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنے اس فرض کو کماحقہ نبھایا ۔ آپ ﷺکے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ نے بھی اس نظام کی حفاظت کی جس کے نتیجے میں اسلام ساری دنیا میں پھیلا اور تقریباًبارہ سو سال تک امت مسلمہ ایک سپر طاقت کی حیثیت سے دنیا پر راج کرتی رہی۔ عمل اور کردار کی کمزوری کے باعث یہ امت غلامی کے اندھیروں میں ڈوب گئی اور گزشتہ دو تین سو برس سے دیسی اور بدیسی کے تسلط میں اپنے نصب العین کو فراموش کر بیٹھی۔ الحمدﷲ ایک مرتبہ پھر امت کے اندر بیداری کی لہر پیدا ہوئی اور دوبارہ کھوئی ہوئی عظمت کے حصول کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی جس کے نتیجے میں آج تقریباً 57آزاد مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں ۔ جہاں اسلامی تحریکیں امت کو اپنی بنیادی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے متوجہ کرنے میں مصروف عمل ہیں کہ کلمے کی حکمرانی کے لیے امت اپنا کردار ادا کرے ۔
ہمارا یہ خطہ بھی اس لہر کے نتیجے میں آزاد ہوا ۔ تحریک پاکستان کے تسلسل میں ابھرنے والی جدوجہد جس کا عنوان پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ قرار پایا اور ہدف بھی ٹھہرا ‘ اس کے حصول کے لیے بر صغیر کے مسلمانوں نے لازوال قربانیاں پیش کیں۔اسی جدوجہد کے تسلسل میں اسلامیان کشمیر نے بھی علم جہاد بلند کیا اور ڈوگرہ سامراج کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔اس جدوجہد میں یہاں کے چپے چپے پر جہاد ہوا ‘کہیں شہداءکا خون گرا کہیں مجاہدین کا پسینہ ۔اس ساری جدوجہد اور قربانی کا مقصد یہی تھا کہ اس خطے میں کتاب و سنت کا نظام نافذ ہو ‘جہاں عدل و انصاف کی بالا دستی ہو ‘مظلوم کی داد رسی کا اہتمام ہو ‘ لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اکسٹھ برس گزرنے کے باوجود اسلام کا عادلانہ نظام نافذ کرنے کے بجائے ایک ایسا نظام ہماری گردنوں پر مسلط کر دیا گیاجو اسلامی ہے اور نہ جمہوری ‘ بلکہ اس میں خیر کی کوئی رمک باقی نہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ آج 1947ءکے جہاد میں حصہ لینے والے سفید ریش بزرگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس نظام سے بہتر تو مہاراجہ کا نظام تھا جس میں مسلمانوں کے جو حقوق متعین تھے وہ رشوت اور سفارش کے بغیر ہی مل جایاکرتے تھے۔ آج ہمارے سیاسی ادارے ہوں یا انتظامی ‘ عدالتیں ہوں یا تھانے ‘ ہر ادارے میں ہمارے ایمان کے ڈاکو بٹھا دیے گئے ہیں۔ ایک دفتر میں ایمان بچتا ہو تو دوسرے میں لٹ جاتا ہے ۔ ایسا مظلوم جس کے پاس وسائل اور سفارش نہیں ہے اس کی داد رسی کا کوئی اہتمام نہیں ۔ ملازمتیں ترقیاتی سکیمیں اور حکومتی مراعات سب اندھوں کی ریوڑھوں کی طرح صرف اپنوں میں بانٹی جا رہی ہیں ‘ میرٹ کی پامالی ہو رہی ہے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں اٹھائے ہوئے نا انصافی کا ماتم کر رہے ہیں ‘ متاثرین زلزلہ چار سال گزرنے کے باوجود در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں اور ہمارے حکمران اور سیاست دان حکومتیں بدلنے کے مزلے لے رہے ہیں ۔ ایک گروہ کھا کر سیراب ہوتا ہے تو دوسرا گروہ وسائل کے دسترخوان پر بیٹھ جاتا ہے۔انتخابات ہوتے ہیں تو صرف چہرے بدلتے ہیں ‘ ظلم اور نا انصافی کا نظام نہ صرف جوں کا توں رہتا ہے بلکہ اس کی سیاہی میںاور بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اقتدار محض اقتدار اور ہر صورت میں اقتدار سیاسی رہنماﺅں کا ملجا و ماویٰ ہے ۔ اس کے لیے اسلام آباد کے حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور خوشامد کے کلچر نے قومی غیرت اور وقار کی دھجیاں بکھیر دیں ‘جس کے نتیجے میں نہ ہمارے خطے کے بنیادی مسائل حل ہوئے اور نہ کشمیر جیسے مسئلے کے حل کے لیے بیس کیمپ موثر کردار کر سکا ۔تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ہماری اقتدار پرست سیاسی قیادت نے مشرف جیسے حکمرانوں کی پسپائی کو کندھا پیش کیا۔ ہماری کوتاہیوں کی سزا مقبوضہ کشمیر میں برسر پیکار حریت پسند بھگت رہے ہیں اور ان کی یہ آزمائش طویل تر ہو گئی ہے۔
ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم سب کی بھی کوئی اجتماعی ذمہ داری ہے ؟ کیا ہم محض تماشا دیکھتے رہیں گے ؟ کیا زوال کے اس سفر میں اسفل لسافلین کے زمرے میں شامل ہو جائیں گے؟ راستے دو ہیں یا تو موجودہ فرسودہ اور طاغوتی نظام کا سہارا بن جائیں ‘اس صورت میں اﷲ کے حضور جواب سوچ لینا چاہیے کہ جس خدا کی گوناں گوں نعمتوں سے ہم مستفید ہو رہے ہیں اسے کیا جواب دیں گے؟ یا پھر اسے بدلنے کا عزم کر لیں ۔ یہ حالات کا تقاضا ہے ‘ایمان کی پکار ہے ‘اور سب فلاح بھی اسی میں ہے کہ نظام بدلنے کے لیے کمر ہمت باندھ لیں ۔
اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا پلیٹ فارم حاضر ہے ‘جو 1974ءسے اس خطے میں اسی مقصد کے لیے مصروف جہاد ہے اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جماعت اسلامی نے اس خطے میں نظام کی ہر نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائی ہے ۔ میرٹ پامال کر کے نوجوانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا تو جماعت مظلوم نوجوانوں کا سہارا بنی اور اعلیٰ عدالتوں میں ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کی ۔ متاثرین زلزلہ کے مسائل ہوں ‘ بھارت کی فائرنگ سے متاثرین کی بحالی ہو ‘جموں وکشمیر سے آنے والے مہاجرین کی داد رسی کا محاذ ہو ‘ الحمدﷲ جماعت نے اپنے ستم رسیدہ بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھا ہے ۔ تحریک آزادی کشمیر کے ہر محاذ پر جہاں بھی قائدین حریت نے تقاضا کیا ‘جماعت نے بسا ط بھر اپنے فرض کو نبھایا ۔ رائے عامہ ہموار کرنے کا محاذ ہو ‘بین الاقوامی اداروں کو متحرک کرنے کا معاملہ ہو ‘ اسلام آباد کے حکمرانوں کی پسپائی روکنے کا چیلنج ہو ‘حتیٰ کہ تمام محاذوں پر جماعت نے قائدانہ کردار ادا کیا ۔ریاست کی وحدت ہو یا گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کا معاملہ ہو جماعت ہی کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس نے قومی کانفرنسیں بھی منعقد کیں اور اسلام آباد کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ملی غیرت کی ترجمانی کی ۔
جماعت کو ایک محدود مدت کے لیے پارلیمانی کردار ادا کرنے کا موقع بھی ملا ۔ الحمدﷲ اس کا بھی حق ادا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ تعمیر و ترقی اور وسائل کا درست استعمال ہو یا اسمبلی کے فلور پر عوام اور تحریک آزادی کی ترجمانی ‘اسمبلی کا ریکارڈ اس بات پر گواہ ہے کہ ہر مرحلے پر ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کی گئی ۔پاکستان میں بلدیات صوبوں اور مرکز میں جہاں بھی جماعت کے نمائندوں کو کردار ادا کرنے کا موقع ملا انہوں نے امانت ‘ دیانت اور فرض شناسی کی نئی مثالیں قائم کیں ۔ پلاٹ‘ میرٹ اور مراعات کی سیاست سے ماوراہو کر جماعت کے نمائندوں نے اپنی ذمے داری کا حق ادا کیا ۔ بالخصوص بابائے کراچی نعمت اﷲ خان نے مختصر مدت میں جس طرح مختلف مافیاﺅں کا مقابلہ کر کے تعمیر و ترقی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ‘وہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وہی لوگ تعمیر و ترقی اور لوگوں کے حقوق کی پاسداری کر سکتے ہیں جو اس کام کو عبادت سمجھ کر کریں اور اسے رضائے الٰہی کا ذریعہ بھی سمجھیں اورجن کی معاونت اور احتساب کے لیے ایک مضبوط دینی اجتماعیت ان کے شانہ بشانہ ہو ۔ یہ اعزاز صرف جماعت اسلامی ہی کو حاصل ہے ۔اس لیے اﷲ پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم پورے دعوے سے کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہی خطے میں نظام کو بدل سکتی ہے اور نظام بدلنا صرف اسی کا ایجنڈا ہے ۔شرط یہ ہے کہ معاشرے کے تمام درد مند اہل دل اس قافلہ راہ حق کے ساتھی بنیں ۔ نہ صرف کارکن بنیں بلکہ اس کی قیادت کریں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں بڑی تعداد میں علم ‘ عمل اور کردار میں ہم سے بھی زیادہ اچھے افراد بکھرے پڑے ہیں جو متحد ہو کر بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔کچھ لوگ حالات سے مایوس بھی ہو چکے ہیں ‘ لیکن ان کے دلوں میں بھی تبدیلی کی خواہش انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ ان سب کے لیے ہماری اپیل ہے کہ مفادات اور مصلحتوں کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے آگے بڑھیے اور خیر و شر کے درمیان جاری اس معرکے میں اپنا کردار ادا کیجیے تا کہ یہاں وہ حقیقی تبدیلی آئے جس کے لیے آزادی حاصل کی گئی تھی ۔ ہم سب قربانی کے جذبے کے ساتھ اٹھیں گے تو تبدیلی آئے گی ۔ محض تبصروں سے یا حالات کاماتم کرنے سے تقدیر نہیں بدلتی۔ اﷲ کی اٹل سنت ہے ۔ جس کی شاعر نے یوں تعبیر کی ہے۔
۔ جس کی شاعر نے یوں تعبیر کی ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
آپ اس معرکے میں غیر جانبدارنہ رہیں کہ غیر جانب داری سنگین قومی جرم شمار ہوگا ۔آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں ۔اقامت دین کے لیے ‘تحریک آزادی کشمیرکی تکمیل کے لیے ‘نظام کی تبدیلی کے لیے ‘عدل و انصاف کی بالا دستی کے لیے ۔جماعت اسلامی کا ہر اول دستہ بنیے کہ دنیا اور آخرت کی فلاح اسی میں ہے کہ
نظام بدلے گا تو امن ہوگا نظام بدلے گا
تو فلاح ملے گی
صلاح عا م ہے یاران نکتہ داںکے لیے
آئیں ہمارے ساتھ چلیں کہ ہم ہی صبح نو کے پیامبر ہیں ‘ ہم ہی ہواﺅں کا رخ بدلنے اور اﷲ کی دھرتی پر اﷲ کے نظام کے علمبردار ہیں