برطانیہ جو کسی دور میں دنیا کی واحد سپر طاقت کی حیثیت رکھتا تھا آج سکڑ کر ایک جزیرہ تک محدود ہوگیا ہے ۔ لیکن اپنی عالمی شہرت کی درسگاہوں اور مادر آف ڈیمو کریسی ہونے کی حیثیت سے آج بھی عالمی امورمیں اپنی اہمیت رکھتا ہے ۔ جہاں جہاں اس کے اقتدار کی عمل درآمد رہی وہاں سے تارکین وطن برطانیہ کا رخ کرتے رہے ۔ دو ملین سے زائد مسلمان جن میں تقریباً نصف پاکستان اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں بالخصوص ضلع میر پور سے بستیوں کی بستیاں خالی ہو کر برطانیہ منتقل ہو چکی ہیں اسی طرح کوٹلی ‘ بھمبر سے بھی بڑی تعداد میں لوگ منتقل ہوئے ۔پونچھ ‘ باغ اور مظفر آبادکی البتہ تارکین وطن میں نمائندگی کم ہے ۔برطانیہ میں مقیم پاکستانی کشمیری کیونٹی بہت متحرک ہے ۔ سیاسی تقریبات کی بھر مار رہتی ہے ۔ خوشی غمی کے مواقع پر شرکت کرنے کے لیے پاکستان سے لوگ بڑی تعداد میں جاتے رہتے ہیں ۔ برطانیہ پاکستانی جلا وطن سیاست دانوں کا بھی مرکز ہے ۔جس پر بھی افتاد پڑی برطانیہ ہی کی گود میں اسے سکون ملا ۔ پاکستان کے معروف سیاست دان اور بیورو کریٹس کے اپنے گھر اور کاروباری جائیدادیں بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں ۔ اگرچہ نائن الیون اور سیون سیون کے بعد عمومی طور پر مسلمانوں کے لیے مشکلات کافی بڑھ گئی ہیں لیکن اس کے باوجود یورپ کے دیگر ممالک کی نسبت مسلمان کافی آسودہ ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دیگر مسلم ممالک کی جابرانہ حکومتیں سیاسی بنیادوں پر جن لوگوں کے لیے جینا دو بھر کر دیتی ہیں برطانیہ ان کی بھی پناہ گاہ ہے ۔ تیونس کی اسلامی تحریک کے قائد راشد الفنوش ہوں یا مصر کی اخوان کے الاستاذ ابراہیم اور ابو مقام سب کو برطانیہ نے ہی پناہ دی ۔برطانیہ کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اور اس کے تھنک ٹینک یورپ اور عالمی سطح پر رائے سازی میں آج بھی بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے ‘بلکہ صاحب الرائے حلقوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ امریکہ کو پالیسی خطوط دینے میں برطانیہ کے یہ ادارے اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں ۔اس نقطے کے پیش نظر برطانیہ میں کشمیر کے حوالے سے رائے عامہ منظم کرنا ایک اہم ہدف رہا ہے ۔یوں تو پاکستان اور آزاد کشمیرکی تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کی شاخیں وہاں پر موجود ہیں لیکن مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے مفادات کے حوالے سے باہم ربط اور اجتماعی سوچ کا فقدان ہے ‘ بلکہ اس گروہ بندی نے وہاں کیمونٹی کو مزید تقسیم کر کے رکھ دیا ہے ۔ البتہ جماعت اسلامی پاکستان اور آزاد کشمیر نے اپنی شاخیں قائم کرنے سے احتراز کرتے ہوئے وہاں کے حالات کے مطابق غیر فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم یو کے اسلامک مشن جیسی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی اور اپنے ہم خیال و ہم فکر احباب کو ان سے وابستہ ہونے کی ترغیب دی ۔اس طرح اسی کی دہائی میں برطانیہ کی اس اہمیت کے پیش نظر سید منور حسن مشہدی کی سر براہی میں درد مند کشمیریوںنے تحریک کشمیر کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جو روایتی سیاسی کلچر سے ہٹ کر صرف تحریک آزادی کشمیر کے لیے مصروف عمل ہے ۔ مشہدی صاحب نے برادر محمد غالب ‘ برادر شبیر ‘ برادر منیر رضا ‘ برادر حاجی یاسین ‘ برادر حاجی اﷲ دتہ چوہدری ‘برادر سلیمان اور بزرگ رہنما سید طفیل حسین شاہ جیسے مخلص ریاستی کارکنان اور مشن جیسے مخلص اداروں کے تعاون سے اس تنظیم کی شاخیں پورے ملک تک پھیلا دیں ۔ یو کے اسلامک مشن کے پچاس کے قریب اسلامی مراکز دعوت دیں اور سماجی فلاح و بہبود کے لیے شب و روز کام کر رہے ہیں۔ جن کے ساتھ ہزاروں بے لوث اور مخلص کارکنان وابستہ ہیں یو کے اسلامک مشن کے صدرد مولانا سید سرفراز مدنی ایک ممتاز عالم دین اور ماہر تعلیم ہیں اور تنظیم اور اداروں کو منظم کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔ ان کے سیکرٹری جنرل برادر پرویز جو برطانیہ کی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور مسلم نوجوانوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں ۔ شب رو ز مشن کے اہداف کے حصول کے لیے مصروف عمل ہیں ۔ آج کل دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایک پورپی اسلامک سنٹر قائم کرنے میں مصروف ہیں جو پورے یورپ میں اسلام کی حقیقی دعوت پہنچانے کا اہتمام کرے گا ۔مشن دعوتی گروہوں کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ بلکہ انسانیت پر جب بھی کوئی افتاد پڑتی ہے مشن کے رضا کار اپنا فرض ادا کرنے وہاں پہنچ جاتے ہیں ۔ کشمیر کے مہاجرین ہوں یا متاثرین زلزلہ یا غزہ میں حالیہ اسرائیلی جارحیت کے متاثرین مشن خدمت میں پیش پیش رہا ۔ صوبہ سرحد میں متاثرین کی دیکھ بحال کے لیے بھی مشن نے سب سے بڑھ کر کردار ادا کیا ۔ برطانیہ جہاں پاکستان اور آزاد کشمیر سے فرقہ پرستی درآمد کرنے پر بڑا زور لگا یا جا رہا ہے مشن جیسے ادارے اور تنظیم بہت غنیمت ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ایسی تنظیموں کی اہمیت کا احساس ہوگا اور بالآخر بڑے پیمانے پر رجوع بھی کرنا پڑے گا ہماری دلی دعا ہے مشن جیسے ادارے دن دگنی رات چوگنی ترقی کریں ۔ اس طرح تحریک کشمیر بھی ایک مواثرپلیٹ فارم ہے جہاں کشمیر کے حوالے سے تمام جماعتیںباوقت ضرورت اکٹھا ہو جاتی ہیں ۔ میرا یہ تین ہفتے کا دورہ بھی صدر تحریک کشمیر برادر محمد غالب کی دعوت پر ہی کیاگیا جو بیس کیمپ میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام حق خود ارادیت کی مہم سے بہت متاثر ہوئے اور تقاضا کیا کہ اس طرح کی ایک مہم برطانیہ میں بھی شروع کی جائے تا کہ اس سے لوگوں کو تحریک آزادی کے تقاضوں کے بارے میں باخبر بھی کیا جائے اور انہیں مایوسی سے نکال کر نئے سرے سے تحریک آزادی کی پشت پر لا کھڑا کیا جائے انہوںنے تین ہفتے کے لیے ایک بھر پور پروگرام تشکیل دے رکھا تھا جس کے تحت لندن سے لے کر اس کے آخری کونے تک کشمیر کانفرنسیں ‘ سیمینارز اور مختلف مشاورت کی نشستوں کا اہتمام کر رکھاتھا ۔ تین ہفتے کا اس عرصہ میں درجنوں ایسے پروگرامات میں شرکت کا موقع ملا اور سات ہزار کلومیٹر سے زائد مسافت طے کی ۔ اپنی طرف سے ایسی بھاگ دوڑ کے باوجود پھر بھی بعض مقامات رہ گئے جہاں احباب کا تقاضوں کے باوجود وقت نہ نکل سکا ۔ا س دورہ کے دوران تحریک کشمیر کی ساری ٹیم نے انتھک محنت کی بالخصوص برادر محمد غالب ‘ برادر راجہ توصیف ‘ حاجی یاسین ‘ برادر شبیر احمد ‘ برادر عبدالمجید ندیم ‘ برادر نواز ‘ رشید نعمانی ‘ انعام الحق مسعود عالم راجہ ‘ اورقمر عباس نے انتھک محنت کی۔ ان تمام بھائیوں کا شکریہ ۔اس طرح ممبران پارلیمنٹ جناب لارڈ نذیر اور چوہدری سرور صاحب نے بھی نہ صرف اپنے مصروف شیڈول سے وقت نکالا بلکہ پر تکلف ظہرانوں کا اہتمام کر کے دیگر احباب سے ملاقات کا موقع فراہم کیا ۔ یوں تو برطانیہ کی پارلیمنٹ میں اور بھی پاکستانی اور مسلمان نمائندے موجود ہیں ‘ لیکن کشمیر کاز اور پاکستان کے مفادات کے حوالے سے یہ دونوں حضرات اپنا بھر پورکردار ادا کر رہے ہیں ۔ چوہدری صاحب نے اب ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے متبادل اپنے صاحبزادے کو فیلڈ میں اتارا ہے جو بہت پرجوش اور باصلاحیت نوجوان ہے ۔ امید ہے وہ پارٹی ٹکٹ پر کامیاب بھی ہو جائیں گے اور اپنے والد کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید خدمت کر سکیں گے۔ رہے لارڈ نذیر احمد تو نہ صرف امت بلکہ انسانیت کا اثاثہ ہیں کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا ‘ پاکستان کے مسائل ہوں یا امت کے دیگر مسائل لارڈ نذیرہر جگہ ترجمانی کا حق ادا کرتے ہیں ان کے دو ٹوک اور بے لوث موقف کا احترام ہر حلقے میں پایا جاتا ہے ۔ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے مشرف کے گزشتہ پسپائی کے دور میں وہ بھی سید علی گیلانی کے موقف کی بھر پور حمایت کرتے رہے ۔ وہ آزاد کشمیر کے سیاسی کلچر پر سخت دل گرفتہ رہتے ہیں اور پاکستان کے حالات سدھارنے میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں ۔ رابطہ عالم اسلامی جیسے بین الاقوامی اداروں میں بھی ہمیں ایک ساتھ شرکت کا موقع ملا ۔ یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ انہوںنے ہمیشہ ہمارے جذبات کی ترجمانی کی ‘ اسی لیے اب ان کی شخصیت کو پوری مسلم دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اﷲ تعالیٰ ایسے رہنما اور نمائندے اور بھی عطا فرمائے۔ آمین
دورہ کے دوران دیگر پروگراموں کے علاوہ کل جماعتی کشمیر رابطہ کمیٹی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد ہوئی ۔ یہ رابطہ کمیٹی 1986ءمیں قائم کی گئی تھی ۔اس کے زیر اہتمام اس وقت ایک بین الاقوامی کشمیر کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں مرحوم کے ایچ خورشید ‘ مرحوم کرنل رشید عباسی جیسے رہنماﺅں نے شرکت کر کے طویل عرصہ بعد پہلی مرتبہ کشمیر کے حوالے سے ایک متفقہ موقف طے کیا تھا ۔اس وقت سے لے کر آج تک یہ ادارہ موجود ہے جسے برطانیہ میںہمارے کشمیری رہنماﺅںنے کمال حکمت سے قائم بھی رکھا اور اسے متحرک بھی ۔ اس کی صدارت ممبر تنظیموں کے درمیان مدیاتی بنیادوں پر گردش کرتی رہتی ہے آج کل اس کے صدر بھی برادر غالب صاحب ہیں ۔ یوں اس موقعے پر نہ صرف کشمیر کی سیاسی اور سماجی تنظیمیں بلکہ صدر یو کے اسلامک مشن علامہ مدنی کے علاوہ دیگر پاکستانی سیاسی اور سماجی تنظیموں کے رہنماﺅں کو بھی مدعو کیا تھا۔ اس موقع پر میںنے تفصیل سے کشمیرکی صورت حال بیان کی اورشرکاءکو متوجہ کیا کہ برطانیہ کی جو اہمیت ہے اور جس قدر ایک بڑی کمیونٹی ہماری موجود ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے متحد ہو کر ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے تا کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ایک موثر ہم خیال لابی انتخابات میں کامیاب ہو جو ہمارے موقف کی ترجمانی کرے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کی ساٹھ ‘ ستر نشستوں پر ہماری کمیونٹی کے ووٹ فیصلہ کن ہیں ۔ یہی اگر مشترکہ حکمت عملی کے تحت کام کیا جائے تو اتنی نہ سہی آدھی نشستوں پر بھی نمائندے کامیاب ہوں تو ایک بہت بڑا گروہ پارلیمنٹ میںپہنچ سکتا ہے ۔ جو برطانیہ کو اپنے اہداف اور مطالبات کے حق میںمتحرک کر سکتا ہے ۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ جہاں مذہبی اور سیاسی رہنماﺅں نے پوری کمیونٹی کو اپنے اپنے مفادات کے حلقوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا ہے ۔ اس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔اس طرح پاکستان رابطہ کونسل کے زیر اہتمام بھی اس نوعیت کا ایک نمائندہ اجتماع ہوا ۔ جس میں برطانیہ کی نوجوان خاتون رہنما مسلم سلمہ یعقوب نے صورت حال کا چشم کشا تجزیہ بھی پیش کیا اور مفید تجاویز بھی ۔ ان اجتماعات میں دیگر رہنماﺅں کے ساتھ ساتھ علامہ بوستان قادری رونق بخشنے میں پیش پیش تھے جو کل جماعتی رابطہ کمیٹی کے سرپرست اعلیٰ ہیں اور کمیونٹی کی ہر خوشی غمی کی تقریب میں بھر پور نمائندگی کرتے ہیں
دورہ کے دوران میں آزاد کشمیر سے منتقل ہونے والے نوجوان بالخصوص جو اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے اور اب تعلیم اور روز گار کے سلسلہ میں برطانیہ منتقل ہو چکے ہیں ۔ ان کا بھی ایک کنونشن منعقد کیا جس میں بھر پور حاضری رہی ان کے سامنے بھی تحریک آزاد کشمیر کی صورت حال آزاد کشمیرمیں جاری سرگرمیاں اور اہداف بیان کیے اور انہیں برطانیہ کی اہمیت کے پیش نظر میڈیا اور سیاسی عمل میں بھر پور کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا۔
ممتاز کشمیری رہنما ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم کے قائم کردہ ادارے Mercy Internationalکے موجودہ چیئرمین برادر نذیر قریشی سے بھی مفید نشست رہی ۔ نذیر قریشی طویل عرصہ سے کشمیرکے مظلوموں کی داد رسی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ پہلے وہ جدہ سے ہو کر طویل عرصہ تک یہ خدمات سر انجام دیتے رہے ۔ ڈاکٹر ٹھاکر مرحوم کی رحلت کے بعد وہ برطانیہ منتقل ہوئے اب اس مستقر سے ہو کر وہ اپنے انسان دوست مشن کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں ۔ ہمارے دیرینہ دوست پروفیسر نذیر احمد شال اس وقت کشمیر سنٹرلندن کے ڈائریکٹر ہیں ۔اپنے سنٹر کے ذریعہ برطانیہ کے سیاسی سفارتی حلقوں میں کشمیرکاز کی ترجمانی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اسی دوران میں مولانا فضل الرحمن صاحب چیئرمین کشمیر کمیٹی نے بھی برطانیہ کا دورہ کیا ۔ کشمیری قائدین کے ساتھ بھی اس کشمیر سنٹر میں ان کی نشست ہوئی ۔ ہماری بھی ان سے ملاقات ہوئی اور اپنے قیام اور ان لوگوں کے احساسات کا فیڈ بیک ان تک پہنچایا ۔ اس عرصہ میں تھرڈ ورلڈ سولیڈیر فورم کے چیئرمین کونسل مشتاق لاشاری صاحب کے سالانہ پروگرام میں بھی شرکت کا موقع ملا جہاں وزراءممبران پارلیمنٹ میڈیا اور سفارتی نمائندے اور کمیونٹی کی بھر پور نمائندگی تھی ۔ اسی موقع پر بھی شرکائے سے ہم نشتیں اور گفتگو کی گئیں ۔ برطانیہ میں پاکستانی پریس بھی بہت فعال ہے ” جنگ “ اور ” اوصاف “ تو روزناموں کے طور پر چھپتے ہیں جنہیں کمیوٹی میں بڑی پذیرائی حاصل ہے ۔اس طرح ” نیشن “ مسرور کی ادارت میں چھپتا ہے اور بھی چھوٹے بڑے مختلف اخبارات اور میگزین اپنے اپنے حلقہ قارئین کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ پریس کانفرنس میںکشمیر کی صورت حال رکھی گئی اور برطانیہ اور عالمی برادری کو مظالم بند کرنے کے بار ے میں متوجہ کیاگیا ۔ مختلف صحافی حضرات نے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے انٹرویوز بھی کیے ۔
آخری چند دنوں میں شہاب یونیورسٹی کے سابق صدر اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے مرکزی رہنما برادر راجہ جہانگیر خان برطانیہ پہنچے ۔مختلف پروگراموں میں وہ بھی ہمراہ رہے ۔ بقیہ اہم پروگراموں میں شرکت کے لیے ان ہی مامور کیا کہ وہ جب تک وہاں مقیم ہیں نمائندگی کرتے رہیں ۔ ان کے عزیز و اقارب اور تحریکی احباب کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے ۔وہ ہمیشہ موثر رابطے کا اہتمام کرتے رہتے ہیں ۔ دورے کے دوران مختلف مقامات پر ممبران پارلیمنٹ اور کونسلر حضرات بھی ملتے رہے ہیں اور آئندہ انتخابات میں متوقع امیدواران سے بھی ملاقاتوں کا اہتمام کیاگیا اس سفر کے دوران بلکہ جب بھی برطانیہ جانا ہوا کوشش کی کہ مشترکہ نکات پر سیاسی دینی اور سماجی تنظیمیں مل کر لائحہ عمل طے کریں ۔ کل جماعتی رابطہ کمیٹی اور دیگر اجتماعات میں راقم کی تجویز یہ تھی کہ جب بھی قائدین حریت کی طرف سے کوئی کال آئے اس پر بھر پور طور پر رد عمل کا مظاہرہ کیا جائے ۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہم دس لاکھ کمیونٹی میں سے کبھی دس ہزار اکٹھے ہو کر کشمیر کے لیے اجتماع کرنے جمع نہ ہو سکے ۔ راقم کی تجویز تھی کہ آئندہ 27اکتوبر کو بھر پور طور پر یوم سیاہ منایا جائے کہ وہ منحوس دن ہے جب بھارت نے کشمیر پرقبضہ کرنے کے لیے فوجیں اتاریں تھیں ۔ اس موقع پر قائد حریت سید علی گیلانی بھی بھارتیوں کی قید میںہیں جنہیں علاج کے لیے ہسپتال لایا گیاتھا سے بھی فون پر بات ہوئی ان کا تقاضا بھی یہ تھا اور حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے اور برطانیہ کے اداروں تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے یوم سیاہ بھر پور طور پر منایا جائے جس میں ہزاروںلوگ شرکت کر کے یہ ثابت کر دیں کہ برطانیہ کے شہری پاکستانی سب ان کے شانہ بشانہ ہیں اس حوالے سے آزاد کشمیر دیگر سیاسی قائدین سے بھی رابطہ کیاگیا اور انہیں اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے متوجہ کیاگیا ۔ بالخصوص بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جو کشمیر کاز کے لیے ہمہ جہت متحرک رہے ہیں ان سے تو برطانیہ میں اہم ملاقات ہوگئی باقی قائدین سے پاکستان پہنچ کر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ مجھے امید ہے کہ سب قائدین جمع ہو کر اپنے اپنے حلقہ اثر کو متحرک کریں تو بہت بڑا پروگرام منظم ہو سکتا ہے ۔ یہ برطانیہ میں انتخابات کا سال ہے ۔ یہ تحریک سیاسی لحاظ سے کمیونٹی کو منظم کرنے اور رابطہ عوام کا بھی ذریعہ بن سکتا ہے اس طرح نوجوانوں کو متوجہ بھی کیا اور اس پر مسلسل توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ ٹارگٹ رکھ کر برطانیہ کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر توجہ مرکوز کریں اور ملاقاتوں کے ذریعہ میلز اور فون کالز کے ذریعہ انہیں اپنے جذبات سے آگاہ کرتے رہیں ۔ دینی قائدین اور اداروں کے ذمے داران سے بھی درخواست کی گئی اور اس کا ........ کیا جائے وہ کم وہ امت کو تقسیم کرنے کے بجائے اتفاق کرنے کا اہتمام کریں ۔ یہ کس قدر افسوس ناک مقام ہے کہ جو دین اﷲ سے جوڑنے کے لیے آیا تھا اس کا مبلغ اور داعی اسے امت میں افتراق اور انتشار پیدا کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ بہر حال اس سلسلہ میں ایک وسیع اصلاحی تحریک چلانے کی ضرورت ہے کہ برطانوی معاشرہ کی خوبیاں اپنے ہاں منتقل کرنے کے بجائے خامیاں منتقل کی جا رہی ہیں اور متعصب اور تنگ نظری کی جن متفق لاشوں کو یہاں ہم نے سینے سے لگا رکھا ہے وہاں جانے ولے انہیں ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں بلکہ انہیں مزید بناﺅ سنگار کے سہایا جاتا ہے جو بہت افسوس ناک ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نئی نسل دین سے دور ہو رہی ہے حالانکہ مسلمانوں کے خلاف جاری یلغار کے رد عمل کے طور پر نوجوان مسلم تشخص کا رحجان پہلے سے زیادہ بڑھا ہے
یہ مشاہدہ کر کے بڑا افسوس ہوا کہ برطانیہ کی سہولتوں سے استفادہ کرنے کے حوالے سے ہمار ی کمیونٹی بہت پیچھے ہے ۔ بلکہ مختلف سماجی جرائم میں آبادی کا تناسب کے لحاظ سے ہماری کمیونٹی کا حصہ سنگینی کی حد تک پھیلا ہوا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے یہاں جانے والے بھی وہاں موجود صاحب فکر حضرات اس جانب نوجوانوں اور بزرگوں کو متوجہ کریں کہ وہ نظام کی سہولتوں کا اسفادہ کر کے آگے بڑھیں۔ اس سلسلہ میں میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن ٹی وی چینل اور اخبارات پر ضعیف الاعتقادی پر اشتہارات کی بھر مار ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے تنظیم کو بھی متوجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ محض وسائل کی خاطر اس وبا کا شکار ہونے سے خود بچی بچیے اور لوگوں کی بھی رہنمائی کریں ۔ پیر علاﺅ الدین صدیقی صاحب کے ادارے کے چینل ” نور “ مفید خدمات سر انجام دے رہاہے ۔ ان کا ایک وسیع حلقہ ادارت بھی ہے وہ اس حوالے سے مزید کردار ادا کر سکتے ہیں اس طرح D.M. Digetalاور KBC بھی کمیونٹی میں عام دیکھے جانے والے چینلز ہیں جو مفید کام کر رہے ہیں ۔ لیکن ان کے کردار کو ملی اور قومی اہداف سے مزید ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے ۔اس عرصہ میں پاکستان سے وفود اور سیاسی رہنماﺅں کے نزول کا سلسلہ بھی جاری رہا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ لندن کا سفارت خانہ زیادہ تر یہاں بھگتانے کے کام ہی سر انجام دے رہا ہے ۔ ہاں کمشنر صاحب ایک کہنہ مشق صحافی ہیں اور مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں ۔لیکن وہ عمر کے اس حصہ میں ہیں جہاں انسان زیادہ فعال کردار ادا نہیں کر سکتا۔ کمیونٹی کے ساتھ موثر رابطے اور کشمیر کاز کے حوالے سے مربوط کوششوں کے اہتمام کے بارے میں ملیحہ لودھی نے بھی اچھی اور خوشگوار یادیں چھوڑی ہیں ۔
کمیونٹی کی رائے ہے کہ لندن جیسے اہم مشن میں با صلاحیت کر کے ڈپلو میٹ مقرر ہونا چاہیے اور اگر کوئی مجبوری ہاتھ ہو پھر ملیحہ جیسے وژن کے حامل افرا دکا تقرر کیا جائے ۔ لندن جیسے سفارتی مشن کو عضو معطل بنانا کسی طرح ملکی مفاد میں نہیں ہے ۔ لندن کی اہمیت کے پیش نظر اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بر سر کار حریت قائدین اور عوام کو حوصلہ دینے کے لیے کسی بین الاقوامی پارلیمانی کانفرنس کے انعقاد ہو یہ تجویز کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سے بلکہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے دیگر قائدین تک بھی پہنچائی ۔ زبانی اتفاق تو سب کر رہے ہیں اﷲ کرے ایسا پروگرام .... بھی منعقد ہو اس لیے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کے عزائم کو ایک مرتبہ بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کیا جائے اور انسانی حقوق کے قاتلوں اور مجرموں کی طرح بین الاقوامی رائے عامہ کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے ورنہ امریکی اور برطانوی استداد سے برطانیہ سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو نہ صرف مسئلہ کشمیر بلکہ پاکستان اور امت مسلمہ کے لیے بے پناہ مسائل پیدا ہوں گے ۔ برطانیہ کے وزیر اعظم نے بھارت کو رکنیت دینے کی سفارش کر کے اپنے عزائم کا اظہار کر دیا ہے ۔
اس عرصہ میں برطانیہ کے آفیسرز اور فوجیوں کی ایک بڑی تعداد ہلمند کے آپریشن میں کام آئی جب ان کے تابوت وطن پہنچے تو زبردست ارتعاش پیدا ہوا اور بڑے بڑے وسیع تبصرہ شائع ہوئے ۔ تاہم جنگی ریورٹر نے ہلمند کے محاذ کا نقشہ کھینچتے ہوئے واضح کیا کہ یہ جنگ ہم قطعاً جیت نہیں سکتے ہمیں کوئی با عزت راستہ تلاش کرنا چاہیے ۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ سرویز کے مطابق 71%برطانوی شہری افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے حق میں ہیں ۔ لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں اہم ا یشو یہی ہوگا ۔ٹورنی پارٹی کو موجودہ حالات میں سبقت حاصل ہے ‘ لیکن اگر اس نے اس نکتہ کو منشور کا حصہ بنایا تو وہ بھاری اکثریت سے انتخابات جیت جائے گی ۔ برطانیہ کے نکلنے کے بعد تنہا امریکہ کا افغانستان میں زیادہ دیر تک ٹھہرنا ناممکن ہو جائے گا اسی لیے کہ باقی ناٹو اورنان ناٹو ممالک میں سے کوئی بھی فوج بھیجنے کے لیے تیار نہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ برطانیہ میں اینٹی وار لابی جو ایک موثر پریشر گروپ کی حیثیت رکھتی ہے کو متحرک کرنے کا اہتمام کیا جائے جس کے مزید متحرک ہونے کے بعد اب امکانات پیدا ہو رہے ہیں امریکہ اور ناٹو فورسز کے افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستان حالات کے گرداب سے نکل سکتا ہے ۔ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک خود دار اور جذبہ ایمانی سے سرفراز جرات مند قیادت ہی کردار ادا کر سکتی ہے ۔گوروں سے مرعوب اور اپنے مفادات کے دائرے کی اسیر قیادت یہ کام کر سکے گی ؟ یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ تاہم پاکستان میں عدلیہ کی بحالی کے بعد حالیہ عدالتی فیصلے نے تارکین وطن کے دلوںمیں امیدووں کے چراغ روشن کر دیے ہیں ۔ برطانیہ میں سابق آمر جنرل پرویز مشرف کا گھیرا لارڈ نذیر جیسے رہنما رو ز بروز تنگ کرتے جا رہے ہیں ملک کے اندر بھی مکافات کے عمل کا شکنجہ تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔ اﷲ کرے جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ عدلیہ کی تطہیر کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام کی آلائشوں کی تطہیر بھی کر سکے اور پاکستان کو ایسا نظام اور قیادت نصیب ہو جو اپنی قوم کا بھی دردلینے اور مظلوم کشمیریوں سمیت دنیا بھر کے مظلوموں کی داد رسی کرے کہ اس وقت سب کی نظر یں پاکستان پر ہی مرکوز ہیں۔