تازہ خبریں

library

Islamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic Library
 
spinner

گلگت بلتستان

آئینی پیکیج‘ خدشات و مضمرات

عبدالرشید ترابی

This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

گلگت بلتستان تاریخی اعتبار سے ریاست جموںو کشمیر کا حصہ ہے ۔تقسیم ہند سے قبل یہ ریاست 84471مربع میل رقبہ پر مشتمل تھی اور سیاسی لحاظ سے اسے تین صوبوں میں تقسیم کیاگیا تھا جس کی تفصیل اس طرح ہے:۔
صوبہ جموں : (ریاسی ‘ ادھم پور ‘ ڈوڈہ ‘ میر پور اور ذیلی ریاست پونچھ پر مشتمل تھا جسے پونچھ جاگیر کہا جاتا تھا۔ 1936ءمیں مہاراجہ نے اسے ریاستی کنٹرول میں لے لیا تھا۔)
صوبہ کشمیر: (اننت ناگ( اسلام آباد) پلوامہ‘بڈگام‘ سری نگر ‘ بارہ مولہ اور کپواڑہ پر مشتمل تھا۔) رقبہ 8539مربع میل ۔
سرحدی صوبہ لداخ و گلگت : (یہ صوبہ لداخ ‘ بلتستان اور گلگت اضلاع پر مشتمل تھا ) اس کا رقبہ 63554مربع میل تھا۔
1947ءمیں شروع ہونے والی تحریک جہاد کے نتیجے میں ریاست کا ایک حصہ آزاد ہو کر آزاد جموں وکشمیر کہلایا جس کا رقبہ 4144مربع میل پر مشتمل ہے جس کے موجودہ اضلاع مظفر آباد ‘ ہٹیاں بالا اور نیلم صوبہ وادی کشمیر کا حصہ ہیں اور باغ ‘پونچھ ‘سدھنوتی ‘ کوٹلی ‘ میر پور ‘ بھمبر صوبہ جموں کا حصہ ہیں ۔ سرحدی اضلاح صوبہ لداخ اور گلگت کا آزاد حصہ 29814مربع میل پر مشتمل ہے۔ 1947ءمیں بلتستان اور گلگت ہی پر مشتمل تھا جس میں استور اور دیامر وغیرہ شامل تھے ۔البتہ کمیونزم کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر برطانوی حکومت نے دریائے سندھ کے مغربی حصے کو مہاراجہ سے 26مارچ1935 ساٹھ سالہ لیز پر لیا اور اسے ایک ایجنسی کا درجہ دے کر ایک پولیٹکل ایجنٹ کی نگرانی میں دے دیا۔تقسیم بر صغیر کا فیصلہ ہوتے ہی یہ لیز منسوخ کر کے ‘اسے دوبارہ یکم اگست 1947ءکو مہاراجہ کے سپرد کر دیا گیا۔چنانچہ مہاراجہ نے اس سرحدی صوبے کے لیے بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو اپنا گورنر مقرر کے کے روانہ کیا جسے بعد میں تحریک کے دوران مجاہدین نے گرفتار کے کے آزادی کا اعلان کیا۔اس خطے کا ریاست کے ساتھ تعلق مزید وضاحت اس امر سے ہو گی کہ 1934‘1937‘1941اور1947ءمیں ریاستی اسمبلی کے لیے جو انتخابات منعقد ہوئے ان میں گلگت بلتستان سے بھی ممبران منتخب ہوئے۔البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ علاقے اس خطے کے جذبہ آزادی سے سرشار مجاہدین نے اپنی جدوجہد سے آزاد کرائے بالخصوص مہاراجہ کی فوج اور گلگت سکاﺅٹس میںجو مسلمان آفیسرز اور نوجوان تھے انہوں نے بغاوت کرتے ہوئے مقامی مجاہدین کو بھی اپنے ساتھ ملایا ۔کرنل مرزا احسن خان اور میجر محمد خان جرال اسی باغی دستے کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ سمیت ڈوگرہ افسروں اور سپاہیوں کو یرغمال بنا لیا یا قتل کر ڈالا ۔ یوں یکم نومبر1947ءاپنی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے گلگت کے راجہ شاہ رائیس خان کی قیادت میں ایک عبوری حکومت قائم کی اور حکومت پاکستان کو انتظام اورانصرام سنبھالنے کے لیے ٹیلی گرام کے ذریعہ دعوت دی جس کے جواب میں 16نومبر کو سردار محمد عالم خان کو حکومت نے پولیٹیکل ایجنٹ کی حیثیت سے گلگت روانہ کیا جو صوبہ سرحد کی حکومت میں محض ایک تحصیلدار تھے ۔ اس اثناءمیں جب کہ مجاہدین کے قدم فتح کی جانب گامزن تھے حکومت ہند نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے اپیل کی کہ جنگ بند کراتے ہوئے ریاست کے مستقبل کا پر امن حل نکالنے میں مدد دی جائے ۔ 13اگست 1948ءاور5جنوری 1949ءکو جو قرار دادیں منظور ہوئیں ان کی رو سے بھی پاکستان اور ہندوستان دونوں نے ان اضلاع کو ریاست جموں وکشمیرکا حصہ تسلیم کیا اور جس کا اعتراف دونوں کے ریاستی آئین میں بھی موجود ہے ۔ نیز سیز فائر کے بعد اقوام متحدہ کے جو مبصرین تعینات ہوئے وہ ریاست کے باقی حصوں کی طرح یہاں پر اب بھی موجود ہیں ۔اس وقت چونکہ رسل و رسائل اور مواصلات کے ذرائع بہت محدود تھے۔ 28اپریل 1949ءکو حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام و انصرام عارضی طور پر حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ اس معاہدے پر حکومت پاکستان کی طرف سے مرکزی وزیر مشتاق احمد گورمانی اور حکومت آزاد جموں وکشمیر کی طرف سے صدر ریاست سردار محمد ابراہیم خان اور چوہدری غلام عباس مرحوم صدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کو آزاد حکومت نے دستخط کیے۔
O چین کے ساتھ 2مارچ1963ءکو طے پانے والے سرحدی معاہدے میں بھی ان علاقوں کو ریاست جموں وکشمیر کا حصہ گردانا گیا ہے اور اس بات کو واضح طور پر معاہدے کا حصہ بنایاگیا ہے کہ ریاست کی آزادی کے بعد اس معاہدے کو از سر نو ریاست کی مقتدرہ کے سامنے توثیق کے لیے پیش کیا جائے گا۔
O اس طرح بھارتی طیارے گنگا کے ہائی جیکنگ کیس کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان علاقوں کو ریاست کا حصہ قرار دیا۔
O نیز8مارچ1993ءکو آزاد جموںو کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عبدالمجید ملک کی سربراہی میں متفقہ طور پر ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار ملک مسکین ‘ محمد بشیر اور امیر جان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے گلگت بلتستان کو نہ صرف ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیا بلکہ ایکٹ1974ءکے دائرہ عمل میں شامل کرنے کے لیے حکم دیا کہ حکومت آزاد کشمیر اس سلسلے میں ضروری آئینی اور انتظامی انتظامات کا اہتمام کرے جو مرکزی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا۔
اس تاریخی حقیقت کے باوجود حکومت پاکستان اسے آزاد جموں وکشمیر سے الگ رکھنے کی کوشش اس لیے کرتی رہی ایک تو ان علاقوں کی سٹریٹیجک اہمیت کا حوالہ دیا جاتا رہا کہ شاہراہ ریشم تعمیر ہونے کے بعد ان علاقوں کو وفاقی حکومت ہی کے کنٹرول میں رہنا چاہیے ‘لیکن اس سے بڑا سبب بیورو کریسی کے اپنے مفادات تھے اس لیے کہ یہاں سیاسی جماعتیں اور سیاسی عمل بہت کمزور رہا فرقہ وارانہ پس منظر کی وجہ سے کوئی ایسی جاندار قیادت نہ ابھر سکی جو تمام مکاتب فکر کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے علاقے کے مفادات کا تحفظ کر سکتی ۔وزارت امور کشمیر نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جان بوجھ کر ایک حکمت عملی کے تحت بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی اگرچہ وہاں کے وکلاءاور دانشور اور صاحب شعور سیاسی کارکنان علاقے میں ایک باوقار نظام حکومت کا مطالبہ کرتے رہے اور وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ اصلاحات بھی ہوتی رہیں لیکن ایسا نظام حکومت جو ریاست کی وحدت اور علاقے کے وقار کی حقیقی علامت ہو ‘اسے پنپنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔جس کے نتیجے میں وہاں علاقے کی آئینی حیثیت کے بارے میں رائے عامہ تقسیم ہو گئی اور بد قسمتی یہ رہی کہ یہ تقسیم بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر عمل میں لائی گئی ۔ آزادی کے فوری بعد ایک فیصد بھی ابہام نہ تھا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ نہیں ہیں ۔1954ءتک ریاستی ڈومیسائل اور پنشن بھی مظفر آباد سے جاری ہوتی تھی ۔ گلگت بلتستان میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے طلبہ آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے تھے ‘آج بھی وہاں اکثر انتظامی عہدوں پر فائز سینئر حکام اور وکلاءکی ایک بڑی تعداد مظفر آباد اور میر پور کے کالجز سے فارغ ہے ۔لیکن رفتہ رفتہ بیورو کریسی نے رائے عامہ کو تقسیم کرنے کے لیے کچھ مکاتب فکر کو باور کرایا کہ آزاد جموں وکشمیر میں شمولیت سے آپ قلیل اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے کیونکہ آپ کی آبادی وہاں کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ایک تہائی سے بھی کم ہے اور وہاں لوگ تعلیم و ترقی کے لحاظ سے بھی بہت آگے ہیں۔ اس لیے الگ صوبے کا مطالبہ کرو ‘تا کہ آپ ا قلیت میں تبدیل ہونے سے بچ سکیں بیورو کریسی کو اس علاقے کی تاریخی حیثیت کا تو کماحقہ ‘ علم تھا اور وہ بھی سمجھتی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں الگ صوبہ بنانا محال ہے ۔وہ سمجھتے تھے کہ اس ہتھکنڈے سے رائے عامہ تقسیم ہو گی اور آزاد جموںو کشمیر کے ساتھ ملنے کا امکان مسدود ہو کر موجودہ سٹیٹس کو کی پوزیشن برقرار رہے گی جہاں وہ سیاہ و سفید کی مالک رہے گی۔جنگلات ‘ معدنیات ہر شے پر ان کی اجارہ دارہ ہے اس لیے اس تقسیم کی وجہ سے جو مفادات کی ہم آہنگی پیدا ہو تی چلی گئی اور پھر بیرون ملک بعض طاقتوں کی دلچسپی نے صورت حال کو اور بھی پیچیدہ کردیا ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اسی کی دہائی سے جو فرقہ وارانہ اختلافات اجاگر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس میں ہمسایہ ممالک اور ان کے وسائل نے بھی اپنا رنگ دکھایا اور یہ سمجھا جانے لگا کہ ان علاقوں میں کسی خاص مکتب فکر کی بالا دستی سے باقی پاکستان میں بھی حالات پر گرفت مضبوط ہو سکتی ہے اس لیے اس آویزش میں رو زبروز اضافہ ہوتا چلا گیا ۔جس کے نتیجے میںابھی تک سینکڑوں افراد اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیاگیا وہاں رائے عامہ تقسیم ہونے کے نتیجے میں تین نکتہ ہانظر سامنے آئے ہیں:
(i) علاقے کو اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے آزاد ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ شامل کیا جائے ۔ اہل سنت ‘ جماعت اسلامی ‘ جمعیت العلمائے اسلام ‘ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ اور قوم پرست جماعتیں اس نکتہ نظر کی حامی اور پرچارک ہیں۔
(ii) ان علاقوں کو صوبائی درجہ دیا جائے تحریک جعفریہ ان کی برادر تنظیمیں اور پیپلز پارٹی اسی نکتہ نظر کی حامی آغا خان بحیثیت کمیونٹی بھی اس نکتہ نظر کی وکالت کرتے ہیں۔
(iii) ان علاقوں کو بالکل خود مختار ریاست بنایا جائے ۔ نیشنل بلاورستان فرنٹ سے وابستہ تنظیمیں اسی نکتہ نظر کی وکالت کرتی رہی ہیں۔
طویل پراسیس کے بعد تمام جماعتوں پر مشتمل 2000ءمیں گلگت بلتستان نیشنل الائنس معرض وجود میں آئی جس میں تینوں نکتہ ہائے نظر نے اپنے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے ایک متفقہ موقف پر اتفاق کر لیا۔
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے چونکہ یہ علاقے ریاست کا حصہ ہیں اس لیے مسئلہ کشمیر کے حل تک ان علاقوں کو :
(i) آزاد جموں وکشمیر طرز کا با اختیار نظام حکومت دیا جائے جس میں انتظامی اور عدالتی تمام ادارے داخلی لحاظ سے خود مختار باوقار اور خود مختار ہوں ۔
(ii) دونوں یونٹس یعنی آزاد جموں و کشمیر اورگلگت بلتستان کو تحریک آزادی کشمیر کی تقویت اور ریاست کی علامتی وحدت کے لیے کشمیر کونسل میں مساوی نمائندگی دینے کا اہتمام کرتے ہوئے کونسل کو دو اکائیوں کا ایوان بالا قرار دیا جائے جس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہوں۔
(iii) مسئلہ کشمیر پر ہونے والی بات چیت کے تمام مراحل میں گلگت بلتستان کے نمائندگان کو بھی حق نمائندگی دیا جائے۔
جناب عنایت اﷲ شمالی صدر گلگت بلتستان نیشنل الائنس‘جناب مشتاق احمد ایڈووکیٹ امیر جماعت اسلامی گلگت بلتستان اور دیگر قائدین نے شب و روز محنت کر کے تمام سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کو اس موقف پر متفق کر لیا لیکن حکومت نے نہ صرف اس متفقہ موقف کو نظر انداز کر کے پیکیج کا اعلان کیا بلکہ ان قائدین سے کماحقہ مشاورت کا اہتمام بھی نہیں کیا۔ جس سے شکوک و شبہات میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔ وزیر امور کشمیر نے کشمیری قیادت کے ساتھ وزارت خارجہ میں منعقدہ اجلاس میں دعویٰ کیا کہ پیکیج کے حوالے سے تمام جماعتوں اور مکاتب فکر کو اعتمادمیں لیاگیا ۔لیکن راقم نے اپنے گلگت و دیامر اور استور کے اضلاع کے حالیہ دورہ کے دوران میں سیاسی جماعتوں کے قائدین ‘ علمائے کرام اور سابق ناردرن ایریا کونسل کے ممبران سے انفرادی ملاقاتوں میں جو معلومات لیں ان کی رو سے وزیر امور کشمیر نے قطعاً غلط بیانی سے کام لیا ان تمام قائدین نے بر ملا کہا کہ ان سے کسی نوعیت کی مشاورت نہیں کی گئی۔کونسل کے اراکین نے بتایا کہ انہوں نے وزیرا عظم پاکستان کی موجودگی میں یہ مطالبہ کیا کہ کونسل کی شکل میں ایک جمہوری ادارہ موجود ہے آپ پہلے بحث کے لیے اس کے فلور پر پیش کریں ۔ بقول ان کے وزیر اعظم نے بھی اس سے اتفاق کیا لیکن بعد میں نہ صرف یہ کہ اسے بحث کے لیے پیش نہ کیاگیا بلکہ آخر وقت تک اس آرڈر کی کاپیاں تک فراہم نہ کی گئیں۔
اس طرح شکوک و شبہات میں مزید اضافہ یوں بھی ہوا کہ وزارت خارجہ کے اجلاس میں جہاں آزاد جموں و کشمیرکی قیادت نے دو ٹوک انداز میں اس پیکیج کو مسترد کرتے ہوئے اسے تحریک آزادی کشمیر کے لیے سم قاتل قرار دیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ۔ صدر ریاست راجہ ذوالقرنین نے یہاں تک پیش کش کی کہ آپ ریاست کے دونوں حصوں کو باہم مربوط کریں میں صدارت چھوڑنے کے لیے تیار ہوں ۔ یہ منصب گلگت بلتستان کے بھائیوں کو دینے سے وہ مطمئن ہوتے ہیں تو فوری طور پر اہتمام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آخر میں کم از کم مطالبہ یہ کیاگیا کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کی اصلاحات کو تبدیل کر دیا جائے ۔ تا کہ اس تاثر کی تصحیح ہو سکے کہ آپ ان علاقوں کو صوبہ بنانے جا رہے ہیں جو بالآخر تقسیم کشمیر کا ذریعہ بنے گا ۔ وزیر خارجہ نے ساری قیادت سے وعدہ کیا کہ آپ کاتحفظات نوٹ کر لیے گئے ہیں اور آرڈر کے حتمی اجراءپر ان کی روشنی میں اصلاح کی جائے گی لیکن مقام افسوس ہے کہ ایسا نہ ہوا اور چند دن کے بعد جو آرڈر جاری ہوا وہ جوں کا توں تھا۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس سارے پراسیس کے پیچھے کوئی ایسی نادیدہ طاقت ور قوت کار فرما تھی جس کے سامنے حکومت بے بس ہے ۔کڑیاں ملائی جائیں تو وہ وہی قوت ہے جس کے دباﺅمیں جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر سے دست برداری اختیار کی اور تقسیم کشمیر کے مختلف مجہول فارمولے پیش کیے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مشرف کی حکومت کے اختتام کے باوجود کشمیر پر پسپائی کا عمل جاری ہے اور موجودہ حکومت ہر وہ کام کرنے پر تلی بیٹھی ہے جو مشرف بھی نہ کر سکا تھا ۔اس لیے اس امر کا قوی خدشہ موجود ہے کہ وہاں نئی اسمبلی قائم کرنے کے بعد اس سے قرارداد پاس کرواتے ہوئے گلگت بلتستان کو حتمی طور پر صوبہ قرار دیا جائے ۔یوں یہ عمل پاکستان کی طرف سے یک طرفہ طور پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے دستبرداری سمجھا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کی بنیادیں منہدم ہو جائیں گی جس کے بل پر حق خود ارادیت کی تحریک جاری ہے اس کے ساتھ ہی بھارت کو ترغیب ملے گی وہ اپنے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کرتے ہوئے ہندو اکثر یتی صوبہ جموں کو براہ راست بھارت میں شامل کر لے اور وادی کشمیر کے مسلمانوں کو مزید سبق سکھانے کا اہتمام کرے ۔ ان خدشات کے پیش نظر جماعت اسلامی آزاد جموںو کشمیر نے پیش قدمی کرتے ہوئے سب سے پہلے گلگت میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جماعتوںنے شرکت کرتے ہوئے اس پیکیج کو مسترد کیا اور گلگت بلتستان نیشنل الائنس کے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر اپنا متفقہ مطالبہ بنایا ۔11ستمبر کو راولپنڈی میں ایک اور آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی جس میں آزاد جموں وکشمیر ‘ گلگت بلتستان اور حریت قائدین نے شرکت کر کے اس پیکیج کو مسترد کرتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئےGBNAکے مطالبات پر مبنی ڈیکلریشن منظور کیا ۔اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ صدر آزاد کشمیر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر بھی براہ راست شریک رہے اور انہوںنے ڈیکلریشن پر دستخط بھی کیے ۔
اس کے بعد ریاستی صحافیوں اور دانشوروں نے ایک گول میز کانفرنس 16ستمبر کو منعقد کی جس میں جماعت کے زیر اہتمام کانفرنس کے ڈیکلریشن کی توثیق کرتے ہوئے وہاں مزید باوقار نظام حکومت دینے کا مطالبہ کیا گیا ۔4 اکتوبر نیشنل پریس کلب اسلام آباد نے ایک اور گول میز کانفرنس منعقد کی جس میں کشمیری نژاد رہنمالارڈ نذیر احمدبھی خاص طور پر شرکت کے لیے لندن سے تشریف لائے اس کانفرنس میں بھی اتفاق رائے سے متذکرہ موقف برقرار رہا اور وزیر امورکشمیر کی وضاحتوں کے باوجود کشمیری قیادت کے تحفظات برقرار رہے ۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ مظفر آباد کے موقع پر 8اکتوبر کو کشمیری قیادت نے ایک مرتبہ پھر متفقہ طور پر اپنے موقف کا اعادہ کیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ۔ستم یہ ہے کہ وزیرامور کشمیر اپنے موقف کی رٹی رٹائی وضاحت تو کرتے رہے ہیں ‘ لیکن کشمیری قیادت کے تحفظات اور سوالات کا کوئی جواب ان کے پاس موجود نہیں ہے۔
اب ذرا مختصراً داخلی خود مختاری کے بارے میں پیکیج کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس میں کون سے اختیارات دیے گئے ہیں جن کا بہت شہرہ ہے ۔
اس پیکیج کی واحد مثبت بات یہ ہے کہ ان علاقوںکا نام شمالی علاقہ جات کی بجائے گلگت بلتستان رکھ دیاگیا ہے جو علاقے کے لوگوں کا متفقہ دیرینہ مطالبہ تھا۔ جواس علاقے کی شناخت بھی ہے لیکن اس میں دیامر والے شاکی ہیں کہ انہیں نظر انداز کر دیاگیا ہے۔ان کی تجویز تھی کہ نئے نام سے گلگت بلتستان کے ساتھ دیامر کا اضافہ کیا جائے۔
٭ قبل ازیں وہ تمام اختیارات جو بطور چیف ایگزیکٹو وزیر امور کشمیر کو حاصل تھے انہیں تقسیم کرتے ہوئے چیئرمین کونسل وزیر اعظم پاکستان ‘کشمیر کونسل اور گورنر جو کونسل کے وائس چیئرمین ہیں کو تفویض کر دیے گئے ہیں ۔ یوں چیئرمین کے اختیارات کا بیشتر حصہ وزیر امور کشمیر انچارج وزیر کی حیثیت سے خود استعمال کریں گے اور باقی اختیارات گورنر استعمال کرے گا جو صدر پاکستان کا نمائندہ ہوگا اس طرح کچھ تھوڑا حصہ وزیر اعلیٰ کی صوابدید پر بھی ہوگا ۔
٭ وزیر اعلیٰ کو چیف ایگزیکٹو تو کہاگیا ہے لیکن عملاً بڑے بڑے انتظامی اختیارات سے وہ تہی دامن ہوگا ۔ مثلاً چیف الیکشن کمشنر اور ایڈیٹر جنرل کا تقرر وغیرہ تمام اہم اختیارات چیئرمین کونسل ‘ گورنر اور کونسل کے پاس ہوں گے۔اس طرح قانون سازی کے اختیارات کے حوالے سے کونسل کو 55اور اسمبلی 71امور پر قانون سازی کرے گی۔ تمام شعبوں مثلاً جنگلات ‘ معدنیات‘ سیاحت ‘ نصاب تعلیم ‘ محصولات اور ٹیکسز ‘ہوائی اڈوں اور شاہراہوں ‘ بجلی وغیرہ تمام اہم امور پر قانون سازی اورانتظامی اختیارات کونسل کو دے دیے گئے ہیں چیف کورٹ اور چیف اپیلٹ کورٹ جوڈیشل کونسل میں ججز کی تقرریاں بھی کونسل کے سپرد کردی گئی ہیں۔
اس طرح عملاً گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی محض بلدیاتی سطح کے امور پر قانون سازی کر سکے گی اور وہاں کی حکومت بلدیاتی سطح کے اختیارات میں استعمال بروئے کار لائے گی بلکہ چیف ایگزیکٹو بیک وقت چیئرمین کونسل انچارج وزیر کونسل یعنی وزیر امور کشمیر اور گورنر تینوں اتھارٹیز کے سامنے جواب دہ ہوگا ۔
٭ آرڈر میں علاقے کی تاریخی حیثیت کا کوئی تعارف نہیں ہے اور نہ یہ وضاحت موجود ہے کہ یہ آرڈر کب تک موثر رہے گا اصولی طور پر آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین ایکٹ1974ءکی طرح اس آرڈر میں بھی یہ وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ مسئلہ کشمیرکے حل تک نظام کوموجودہ شکل دی جا رہی ہے اور اس میں حسب ضرورت ترامیم و اضافے ہوتے رہیں گے اس آرڈر کے ذریعے گلگت بلتستان کو کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے منسلک کرنے کی بجائے گلگت بلتستان کے نظام کو کشمیر سے الگ رکھنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے ۔ مثلاً آرڈر میں انچارج وزیر کو جگہ جگہ وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان تحریر کیاگیا ۔ اس طرح وزارت امور کشمیر کو بھی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان قرار دے کر بین السطور یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیر اور گلگت بلتستان دو الگ الگ اکائیاں ہیں جو چھپے ہوئے عزائم کے بارے میں اشارہ دیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اورامریکہ کا موجودہ شیطانی اتحاد پاکستان کو اپنی شہ رگ سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔پاکستان میں بر سر اقتدار موجودہ کمزور اور بے سمت قیادت سے ایسے فیصلے کروانا آسان سمجھا جا رہا ہے ۔اگر پاکستان کے محب وطن قائدین اور جماعتوں نے مخمصے سے نکل کر بھر پور کردار ادا نہ کیا تو مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کوہی نہیں ‘بلکہ خود پاکستان کی سلامتی کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔ کشمیریوں سے بڑھ کر نظریاتی پاکستانی شاید ہی کوئی اور ہو ۔گزشتہ اکسٹھ سال سے وہ اپنی آزادی اور پاکستان کی بقاءکی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں اور ابھی تک پانچ لاکھ شہداءکی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں ۔قائد تحریک حریت سید علی گیلانی سمیت تمام کشمیری قائدین مضمرات کو بھانپتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران طے کر بیٹھے ہیں کہ کوئی احتجاج خاطر میں نہ لایا جائے گا اور نہ کسی معقول دلیل ہی کو سند قبولیت حاصل ہوگی۔یہ پسپائی اس وقت رکے گی جب پاکستانی قیادت اور رائے عامہ اپنا فرض ادا کرے گی اہل کشمیر تو پورا کشمیر پاکستان کی جھولی میںڈالنا چاہتے ہیں لیکن مقتدر اشرافیہ محض ایک حصہ کو ضم کر کے
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
کے مصداق محض چند کلیوں پر قناعت کرنا چاہتی ہے۔ بلا شبہ جماعت اسلامی پاکستان ‘مسلم لیگ ن‘ جمعیت علمائے اسلام ‘ مسلم لیگ ق سب ہی نے اس پیکیج پر تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن محض اظہار کرنا کافی نہیںہے بلکہ اس سلسلے میں ایک بھر پور متفقہ موقف اور لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے تا کہ پسپائی اور شکست خوردگی کی اس لہر کو روکا جا سکے ۔اس طرح آزاد کشمیر کی قیادت نے ایک صائب موقف تو اختیار کیا ہے لیکن گلگت بلتستان کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید استوار کرنا چاہیے۔پارٹی قیادتیں خود وہاں کا دورہ کریں اور باہم بے اعتمادی کی فضاکو ختم کریں جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے جماعت اسلامی پاکستان اور آزاد جموںو کشمیر نے ہمیشہ وہاں کے مظلوم عوام کے بنیادی حقوق کے حوالے سے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھائی ہے ۔ جماعت اسلامی آزا دجموں وکشمیر نے اپنے قیام (1974ئ) ہی سے ان علاقوں کے ساتھ اپنا گہرا تنظیمی تعلق استوار کر رکھا ہے ۔بانی امیر جماعت مولانا عبدالباری مرحوم کو ان علاقوںکے حقوق کے حوالے سے جدوجہد کے نتیجے میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور ان علاقوں میں ان کے کاروبار کو زبردست نقصان پہنچایا گیا۔ان کے بعد کرنل رشید عباسی مرحوم نے”آزادی کا بے نور سورج “ کے عنوان سے علاقے کے بنیادی مسائل کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون تحریر کیا جو بعد میں ایک کتابچے کی شکل میں شائع ہوا۔اس طرح گزشتہ عرصے میں سابق امیر جماعت سردار اعجاز افضل خان کی میزبانی میں گلگت میں وحدت کشمیر کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پہلی مرتبہ آزاد جموں وکشمیر کی قیادت نے اجتماعی طورپر گلگت کا دورہ کیا اور ریاست کی وحدت کو برقرار رکھنے کا عہد کیا ۔ نیز انہوںنے ”شمالی علاقہ جات کی آئینی حیثیت “ کے عنوان سے ایک بھر پور مکالہ تحریر کیا جو کتاب کی شکل میں شائع ہوا۔
راقم گزشتہ تیس برسوں کے دوران میں درجنوں مرتبہ ان علاقوں کے چپے چپے کا دورہ کرتا رہا ہے ۔ان کے مسائل کے حل اور موقف میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جماعت نے گلگت اور اسلام آباد میں کئی آل پارٹیز کانفرنسوں اور سیمینارز کی میزبانی کی ہے۔تمام سیاسی و دینی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ ایک ذاتی تعلق قائم کرتے ہوئے جہاں ایک طرف ہم نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف ان کے مسائل کواجاگر کرنے کے لیے راقم نے کئی مضامین تحریر کیے جو قومی اخبارات میں چھپتے رہے ۔ نیز پاکستان کے تمام سیاسی اور عسکری قائدین کو ملاقاتوں اور خطوط کے ذریعے متوجہ کیا کہ وہ زمین اور تاریخی حقائق کی روشنی میں لوگوں کوبنیادی اور آئینی حقوق فراہم کریں ۔ اسمبلی ممبر کی حیثیت سے ایک پرائیویٹ بل بھی پیش کیا جس میں ریاست کے دونوں حصوں کو یکجا کر کے باوقار ریاست کے قیام کی تجوید دی تا کہ دونوں حصے تحریک آزادی میںبھر پور کردار ادا کر سکیں ۔جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی قائدین جناب قاضی حسین احمد ‘ جناب لیاقت بلوچ ‘جناب ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ‘جناب سراج الحق علاقے کا دورہ کرتے رہے اور پارلیمنٹ میں بھی ان کے مسائل کی ترجمانی کرتے رہے۔ الحمداﷲجماعت کی ان کاوشوں کا اعتراف گلگت بلتستان میں ہر سطح پر موجود ہے ۔ایک نظریاتی تحریک ہونے کے ناطے جماعت اسلامی پاکستان اور آزاد جموں وکشمیر ان علاقوںمیں باوقار نظام حکومت کے اہتمام کے ساتھ بنیادی حقوق کی بحالی کے حوالے سے بھر پور کردار ادا کرتی رہیں گی تا کہ ریاست کی آزاد اکائیاں تحریک آزادی کشمیرمیں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں ۔ کشمیری قیادت اور اہل قلم اور دانشوروں کی سطح پر اس حوالے سے اتفاق رائے نہایت ہی خوش آئند ہے اس لہر کے اثرات اب گلگت بلتستان میں منتقل ہو رہے ہیں ۔ راقم کے حالیہ دورے کے دوران چلاس کے مقام پر علمائے کرام ‘سیاسی زعماءاور دانشوروں نے متفقہ طور پر اس پیکیج کو مسترد کر کے اپنی بھر پور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انشا ءاﷲ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نام نہاد پیکیج کی پیچیدگیاں واضح ہونے پر خوش فہم حضرات بھی تمام فرقہ وارانہ اور سیاسی تعصبات سے بالا تر ہوکر ایک موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے ۔ حکومت پاکستان کے فیصلہ سازوں کو بھی نوشتہ دیوار پڑھنا چاہیے اور تحفظات کا ازالہ کرنے کا بھر پور اہتمام کرنا چاہیے ورنہ اس طرح کے مجہول اقدامات خود حکمران جماعت کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔