بالاخر نجم الدین اربکان بھی چل بسے - انا للہ و انا للہ راجعون- ہر ذی نفس نے موت کا مزا چکھنا ہے لیکن نہایت خوش نصیب ہے و ہ شخص جس کے دنیا سے رخصت ہوتے وقت زمانہ گواہی دے کہ جانے والا اپنے لئے نہیں بلکہ امت کی سربلندی اور انسانیت کے لئے جیا- نجم الدین اربکان یقینا ایسے ہی خوش قسمت انسان ہیں جنہوں نے زندگی کا ایک ایک لمحہ ترکی میں احیائے اسلام کے لئے وقف کردیااور جن کی جہد مسلسل سے ترکی کمال ازم اور سیکولرازم سے نکل کر دوبارہ امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بن چکا ہے - آج ترکی کا ہر فرد اس بات کا معترف ہے کہ موجودہ ترکی نجم الدین اربکان کی جانگسل جدوجہد کا ماحصل ہے - یوں ان کی وفات سے اہل ترکی ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ ایک عظیم قائد اور مدبر سے محروم ہوگئی ہے، اس لئے کہ اربکان دنیا ئے اسلام کے صف اول کے ان قائدین میں شمار ہوتے تھے جو فلسطین ،کشمیر، بوسنیا،عراق ، افغانستان اور دنیا میں موجود ہر ہر کہیں مظلوم مسلمانوں کے ترجمان سمجھے جاتے تھے لیکن افسوس کہ ہمارے میڈیا میں پاکستا ن اور امت کے اس محسن کی وفات کا سانحہ کا وہ نوٹس نہیں لیا جس کے وہ حقدار تھے- گزشتہ بیس برس کے دوران میں لاتعداد مرتبہ استاد اربکان سے ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا- کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں ان کے ساتھ شرکت کا موقع ملا اور کشمیر کے حوالے سے اسلام آباد میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں ان کی میزبانی کی سعادت بھی حاصل ہوئی - ان سے آخری ملاقات گزشتہ برس مئی میں ان کے ایک ادارے ESSAM کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی کانفرنس میں ہوئی جس میں ان کے خطابات سننے کے علاوہ ان سے کشمیر کی صورت حال پر ایک تفصیلی نشست بھی ہوئی جس میں انہوں نے ہمیشہ کی طرح تحریک آزادی کے حوالے سے اپنی طرف سے اہل ترکی کی طرف
سے مکمل تعاون و یکجہتی کا یقین دلایا - اس موقع پر دنیا بھر سے آئے ہوئے اسلامی تحریکوں کے قائدین کا بھی ایک اجلاس ہوا جس میں انہوں نے عالمی حالات پر اپنا نقطہ ءنظر بیان کیا - راقم کی تجویز پر کشمیریوں کے ساتھ5 فروری کو عالمی سطح پر یوم یکجہتی منانے کا فیصلہ ہوا جس کی انہوں نے بھرپور تائید کی۔
جناب نجم الدین اربکان بچپن ہی سے ایک نابغہ ءروزگار شخصیت تھے۔ وہ 1926 ءمیں پیدا ہوئے ۔انہوں نے انٹر سائنس میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد استنبول یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کے دوران میں ہی انہوں نے ایک سالہ نصاب پر پہلے ہی عبور حاصل کر لیا ۔ چنانچہ مکینکل انجینئرنگ میں داخلہ کے وقت میں انہیں اگلے درجہ میں ترقی دے دی گئی۔ ترکی کے ایک اور اہم سیاستدان اور سابق وزیرا عظم سلیمان ڈیمرل بھی ان کے کلاس فیلو تھے لیکن وہ تعلیمی استعداد میں ان سے بہت پیچھے تھے ۔ استنبول یونیورسٹی سے فراغت کے بعد انہوں نے جرمنی سے مکینیکل انجینئرنگ میں صرف ڈیڑھ برس کے عرصے میں پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ وہ ایک سیاستدان کے ساتھ ساتھ سائنسدان بھی ہیں ۔ انہیںیہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ترکی میں کم توانائی سے چلنے والے ڈیز ل انجن کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ واپسی پر وہ استنبول یونیورسٹی میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے اور اساتذہ اور طلبہ کے ایک وسیع حلقے کو اپنا گرویدہ بناتے ہوئے انہیں اسلامی تحریک میں کردار ادا کرنے کے لئے تیار کیا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے یونیورسٹی کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر کاروبار کو پیشہ بنایا اور جلد ہی استنبول چیمبرز آف کامرس کے صدر منتخب ہوگئے۔ اس عرصے میں ملک کے دانشوروں اور تاجروں کے ایک وسیع حلقے میں جناب اربکان نے اپنا مقام بنالیا ۔ آپ نے انہیں یہ باور کرایا کہ ترکی کی ترقی و فلاح اسلام سے بغاوت کرکے نہیں بلکہ اسلام کی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کرکے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ 1969 ءمیں تمام طاقتوں کی مخالفت کے باوجود قونیہ سے پہلی مرتبہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور ملی نظام پارٹی کی بنیاد رکھی جسے بعد میں ملی سلامت پارٹی کا نام دے دیا گیا۔ آزاد امیدوار کی حیثیت سے ترک پارلیمنٹ میں قومی اور بین الاقوامی مسائل کے حل کے حوالے سے ان کی شاندار کارکردگی اور ان کی صلاحیت سے متاثر ہو کر ترکی کی اہم اور موثر شخصیات ان کے ساتھ شامل ہوتی چلی گئیں۔ چنانچہ اگلے انتخابات میں ملی سلامت پارٹی ترک پارلیمنٹ میں تین بڑی پارٹیوں میں شامل ہوگئی ۔ باقی دو بڑی پارٹیوں میں سلیمان ڈیمرل کی عدالت پارٹی اور بلند ایجوت کی پیپلز پارٹی شامل تھیں۔ چونکہ انتخابات میں کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کرپائی تھی ۔ اس لئے 1974 ءمیں آپ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کی جس میں بلند ایجوت وزیراعظم اور پروفیسر اربکان نائب وزیراعظم مقرر ہوئے۔ وزارت داخلہ ، وزارت صنعت اور وزار ت زراعت جیسی اہم وزارتیں حاصل کیں۔ ملی سلامت پارٹی کی ٹیم نے شب و روز محنت اور دیانت سے کام کرتے ہوئے کرپشن کو کم کیااورایک مضبوط صنعتی انفراسٹرکچر قائم کیا۔ جس کی بنیاد پر ترکی نے صنعتی میدان میں نمایاں ترقی کی۔ نیز اس عرصے میں قبرص جس پر یونان کا قبصہ تھااور ترکی جسے اپنا حصہ سمجھتا تھا، جہاں بڑی تعداد میں ترک آبادی موجود ہے ، پر فوج کشی کرکے ترک قبرص کو آزاد کر الیا جس سے آپ ترک قوم کے ہیرو سمجھے جانے لگے۔ حکومت میں اس شاندار کارنامے کے نتیجے میں ملی سلامت پارٹی کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ۔ نوجوان اور طلبہ آپ کے دلدادہ تھے۔ ان حالات میں انتخابات میں ملی سلامت پارٹی کی زبردست کامیابی کے امکانات تھے جس سے خوفزدہ ہو کر اسی کی دہائی کے اوائل میں ملک میں مارشل لاءلگا دیا گیا اور تمام پارٹیوں اور لیڈرز پر پابندی عائد کردی گئی۔ترک حکمران اشرفیہ اور بیوروکریسی انہیں سیکولر ازم کےلئے خطرہ قرار دے کر ہر لحا ظ سے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی رہی۔ ان کی ہمہ گیر تحریک آگے بڑھ رہی تھی جس میں بالخصوص ترک نوجوان طبقہ انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھنے لگا۔ طلبہ یونین کے انتخابات میں جب establishment کی کھلی حمایت کے باوجود سیکولر حلقوں کو اسلام دوست نوجوانوں نے شکست دی تو حکمرانوں نے تھپکی دے کر تعلیمی اداروں میں اسلامی تحریک کے طلبہ پر حملے شروع کروا دیے ۔ درجنوں نوجوان قتل اور زخمی ہوگئے۔ عوامی سطح پر ہیجان پیدا ہوئے جسے روکنے کے لئے ترکی میں مارشل لاءلگا دیا گیا ۔ نجم الدین اربکان کی جماعت سمیت دیگر جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ طویل عرصہ تک مارشل لا ءنافذ رہا ۔ بالاخر کنعان ایورن نے انتخابات کروائے لیکن اربکان کی جماعت کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں۔ پابندیوں کی وجہ سے وہ پوری مہم نہ چلا سکے ۔ چنانچہ مارشل لاءکے بعد پہلے انتخابات میں انہوں نے چالیس کے قریب نشستیں حاصل کیں۔ ترکی کے قانون کے مطابق مجموعی طور پر 10 فیصد ووٹ حاصل نہ کرنے والی سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں حق نمائندگی کھو دیتی ہیں۔ یہ شرط دراصل نجم الدین اربکان کاراستہ روکنے کے لئے لگائی گئی تھی۔ مقتد ر قوتوں کو یقین تھا کہ 10 فیصد ووٹ حاصل کرنا اربکان کے لئے مشکل ہو گا۔ بہر حال انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے کام کو منظم کرتے چلے گئے اور رفاہ پارٹی کے نام سے جلد ہی تیار شدہ نوجوانوں کو منظم کر لیا۔ 1991 ءمیں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تو استنبول اور انقرہ سمیت ملک کی تمام اہم بلدیات پر وہ کامیاب ہو گئے۔ موجودہ وزیر اعظم کو استنبول کی بلدیہ کا مئیر مقرر کیا گیا۔ بلدیاتی اداروں میں رفاہ پارٹی نے حیران کن نتائج دکھائے جس کا اگلے عام انتخابات میں حزب الرفاہ کو بہت فائدہ ہوا۔ وہ 16 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ رفاہ کو اقتدار سے باہر رکھنے کےلئے دوسری جماعتوں کا مصنوعی اتحاد قائم کرلیا گیا لیکن ان کی حکومت نہ چل سکی۔مڈٹرم انتخابات ہوئے جس میں حزب رفاہ ترکی کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ لیکن اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ تھی ۔سلیمان ڈیمرل کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کی۔ طے پایا کہ پہلے اڑھائی برس ان کی پارٹی کی نامزد کردہ تانسو چلر وزیر اعظم ہوں گی اور اگلے اڑھائی سال کے لئے جناب اربکان وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالےں گے۔ حزب رفاہ نے مخلوط حکومت کو کامیاب بنانے کے لئے بہت ایثار کا مظاہرہ کیا ۔ اور جب اڑھائی برس پورے ہونے پر اربکان وزیر اعظم بنے تو فوج اور establishment کو ایک بار پھر سیکولر ازم خطرے میں نظر آیا اور پے در پے مشکلات کھڑی کی جاتی رہیں لیکن اربکان نے بھی ہمت نہ ہاری ۔ انہوں نے مختصر عرصہ میں ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنا لیا ۔ تنخواہوں میں اضافہ کیا ۔ OIC کو متحرک کیا اور D-8 فورم قائم کرکے اسلامی مشترکہ منڈی قائم کرنے کی کوشش کی ۔ اگر وہ اپنے اڑھائی سال پورے کر لیتے تو ترکی میں ایک بڑا انقلاب برپا ہوتا لیکن روایتی قوتوں نے پھر کردار ادا کیا او ر ان کی حکومت ختم کردی۔ ان کے خلاف مقدمات قائم کرکے انہیں قید کردیا گیااور پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ اس عرصہ میں انتخابات ہوئے جن میں ان کی پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ یہ ان کی سیاسی جدوجہد کی مختصر کہانی ہے ، ورنہ ان کے کام کی تفصیلات اور اس کے اثرات کئی جلدوں کی کتب کا تقاضا کرتے ہیں۔ ترکی اور امت مسلمہ کے مستقبل کے حوالے سے وہ ہمیشہ بہت پر امید رہے ، اور پر عزم ہیں کہ حالات کا نقشہ ضرور تبدیل ہوگا۔ جس کے لئے انہوں نے ملی گرش( ملی شعور )کے نام سے ایک تحریک قائم کر رکھی ہے۔ جس کے لئے و ہ شب و روز کام کرتے رہے۔
1990 ءمیں مقبوضہ کشمیر میں تحریک نے نیا انقلابی انداز اپنایا اور وہاں سے ہزاروں لوگ ہجرت کرکے آزاد کشمیر پہنچنا شروع ہوئے تو بین الاقوامی سطح پر سفارتی محاذ پر اس مسئلے کو اجاگر اور منظم کرنے کے لئے ہم نے مظفرآباد اور اسلام آباد میں مسئلہ کشمیر پھر بین الاقوامی کانفرنسوں کا اہتمام کیا جس میں جناب اربکان سمیت عالم اسلام کے اہم رہنما اور دانشورشریک ۔ اس کے فوراُ بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت میں ایک قومی وفد نے ترکی اور مشرق وسطی کے اہم ممالک کادورہ کیا جس میں ایک رکن کی حیثیت سے میں بھی شریک تھا، اس دورے میں یوں تو تمام ہی برادر ممالک میں پذیرائی ملی لیکن ترکی میں حکومتی اور عوامی سطح پر استقبال اور محبت کا انداز سوا تھا۔ اس وقت ترگت اوزال ترکی کے صدر تھے اور سلیمان ڈیمرل قائد حزب اختلاف تھے۔ حکومتی سطح پر وزیر خارجہ ، پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے علاوہ تمام اہم ساستدانوں سے ملاقاتیں رہیں۔ اس دورے کو کامیاب بنانے میں جناب اربکان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ صدر اوزال سے ہماری ابتدائی ملاقات صرف 35 منٹ کےلئے طے ہوسکی جو تقریباُدوگھنٹے جاری رہی۔ ملاقات میں جناب قاضی حسین احمد نے کشمیر کی پاکستان اور پوری امت مسلمہ کے لئے سٹریٹجک اہمیت کو اجاگر کیا تو صدر ترکی بہت متاثر ہوئے ۔ انہوں نے ساری تفصیلات کو نقشوں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی ۔ اس عرصہ میں ہماری انقرہ سے استنبول کے لئے فلائیٹ کاوقت ہو چکا تھا۔ لیکن صدر کے شوق اور محبت میں جہاز ائیر پورٹ پر منتظر رہا اور وہ برادرانہ تعلق اور محبت کی باتیں کرتے رہے۔ اور اپنی طرف سے مسئلہ کشمیرکے حوالے سے تعاون اور حمایت کا یقین دلایا۔ اس طرح سلیمان ڈیمرل صاحب اور باقی سیاستدانوں نے بھی بھرپور محبت کا مظاہرہ کیا۔ ترکی کے موجودہ وزیراعظم اس وقت نو خیز سیاستدان اور جناب اربکان کے دست راست تھے اور ہمارے دورے کی کامیابی کےلئے بہت متحرک رہے۔ استنبول میں انہوں نے صحافیوں ، دانشوروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے موثر افراد کے ساتھ کئی پروگرامات کروائے۔ جناب اربکان نے ترکی میں سلطان محمد فاتح کو جو فتح قسطنطنیہ کے ہیرو ہیں کو ایک مرتبہ پھر قومی ہیرو کی حیثیت سے اجاگر کیا۔ یوں ہرسال وہ فتح قسطنطنیہ کا جشن منانے کا اہتمام کرتے رہے۔ جس میں پوری قوم بالخصوص نوجوانوں کو یاد دلاتے رہے کہ وہ کن قابل فخر اور صاحب ایمان لوگوں کے اخلاف ہیں۔ اس موقع پر عظیم الشان جلسہ اور عوامی پریڈ بھی ہوئی اور قاضی صاحب کو مہمان خصوصی کا درجہ دیا ۔ پورا گراﺅنڈ مجاہد اربکان اور مجاہد قاضی کے نعروں سے گونج اٹھا تھا۔ راقم کو اس کے بعد بھی جناب نوابزادہ نصراللہ مرحوم کی سربراہی میں وفد میں ترکی جانے کا موقع ملا۔ اس موقع پر تمام اہم سیاسی رہنماﺅں اور حکومتی ذمے داروں سے ملاقاتیں رہیں۔اس دورہ کو کامیاب بنانے کے لئے بھی جناب اربکان نے اہم کردار ادا کیا اور باقی مفید ملاقاتوں کے علاوہ استنبول میں مئیر اردگان کی ذمے داری لگائی کہ وہ عوامی استقبالیوں اور میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ہمارے موقف کو پہنچانے کا اہتمام کریں۔ یوں کشمیر اور پاکستان کے ساتھ ترکی کی قومی سطح پر وابستگی اورذاتی حوالوں سے ان قائدین کی محبت اور قربت میں اور بھی اضافہ کردیا ۔ اس لئے یہ دورہ ان ساری خوش گوار یادوں کو تازہ کرنے کا ذریعہ بھی بنا۔
اربکان کا پیغام امت کے نام
استاد نجم الدین اربکان عمر کے آخری حصے میں ہر مجلس میں امریکی ورلڈ آر’ر کے مقابلے میں اسلامی ورلڈ آر’ر پر اپنا لائحہ عمل بیان کرتے تھے جس کے اہم نکات یہ تھے :
اس وقت پوری دنیا کے چھ ارب انسان دنیا میں پھیلے ہوئے تیس ملین ( تین کروڑ) یہودیوں کے یرغمال بن چکے ہیں ‘ صہیونیت ایک نسلی مذہب ہے ۔ چونکہ اشاعت اور تبلیغ کے ذریعے ا ن کی آبادی میں اضافہ ناممکن ہے ‘اس لیے انہوںنے فیصلہ کیا کہ سیاسی اور معاشی حکمت عملی کے ذریعہ بالا دستی کو بروئے کار لا کر دنیا پر حکمرانی کریں ۔ وہ اپنے اس ہدف میں کامیاب رہے ۔ آج اسرائیل اکیلا نہیں ‘بلکہ دنیا کے تمام صہیونی نیٹ ورک اور اس کے زیر اثر امریکہ اور یورپ کی حکومتیںاس کی پشت پر ہیں ۔ ہمیں عالمی صہیونیت کے تانے بانے کا پاریو بکھیرنا ہوں گے ۔ انہوںنے اقوام متحدہ ‘ NATO‘ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سب کو صہیونی مقاصد کی تکمیل کے لیے قائم ہونے والے ادارے قرار دیا ۔ انہوں نے خاص طور پر امریکہ کا ذکر کیاکہ اس کی سیاسی ‘ دفاعی اور معاشی تمام پالیسیاں صہیونیوں کے اثر و رسوخ میں تشکیل پذیر ہوئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہودی اس حد تک با اختیار ہیں کہ امریکہ کا سنٹرل ریز رو بنک درحقیقت ان ہی کی ملکیت ہے ۔ ڈالر تو محض خزانے کی ایک رسید ہے اصل خزانہ صہیونیوں کے کنٹرول میں ہے ۔ اس کی ایک رسید لوگ خزانہ سمجھتے ہیں ۔ اس وقت ایک ہزار ٹریلین ڈالر سے زائد ان کی ملکیت میں ہے ۔ جنگی ٹیکنالوجی اور معاشی وسائل کی بنیادد پر وہ کنپٹی پر پستول رکھ کر ہم سے اپنے مطالبات منوا رہے ہیں ۔ بلا شبہ اس وقت انہیں غلبہ حاصل ہے ‘لیکن ان کا نظام زوال پذیر ہے ۔انہوںنے تاریخی واقعات کو گرافس کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ نمرود کے ظالمانہ نظام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چیلنج کیا اور وہ فتح مند ہوئے ۔ فرعون کے استبداد کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چیلنج کیا اور وہ کامیاب ٹھہرے ۔ عرب کی گھٹا ٹوپ جہالت میں جو تمام برائیوں کا مرکب تھی ‘ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم حق لے کر آئے تو انہیں غلبہ نصیب ہوا جو مسلسل بارہ سو سال تک قائم رہا ۔ اس کے بعد امت مسلمہ کی اپنی کمزوریوں اور مغر ب کی سازشوں کی وجہ سے ہم مغلوب ہوئے ‘جہاں آزادیاں ملیں بھی تو وہ ادھوری رہیں ۔ مسلم حکمران امریکہ اور مغرب کے کاسہ لیس بن گئے ‘لیکن امت مسلمہ کی بیداری اور مغرب کی استعماری پالیسیاں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی ۔انہوں نے اپنے خطاب میں امت مسلمہ کے غلبہ اور مغرب کے استعمار کو ناکام کرنے کے لیے چار شرائط بیان کیں:
۱۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ موجودہ اقوام متحدہ صہیونیوں اور استعمار کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہے اس لیے مسلم ممالک کو اس سے نکل آنا چاہیے۔ اور اپنی اقوام متحدہ قائم کرنا چاہیے دنیا کے 57ممالک کے اس ادارے کی حیثیت اور صلاحیت کو نظر انداز نہ کرسکے گا ۔
۲۔ سیاسی عزم (Political Will) ....استعمار کو چیلنج کرنے کے لیے سیاسی قیادتیں اور حکمران سیاسی عزم پیدا کریں اور مغرب کی مرعوبیت سے نکلیں اپنے عوام پر اور اپنے وسائل پر اعتماد پیدا کریں ۔
۳۔ باہم تعاون.... یورپی یونین نے مشترکہ پارلیمان اور مشترکہ منڈی اور کرنسی قائم کرلی ہے مسلمان ممالک ایسا کیوں نہیں کر سکتے مشترکہ اداروں کو قائم ہونا چاہیے ۔
۴۔ مشترکہ کرنسی ....ڈالر اور یورو کو ترک کر تے ہوئے مسلم ممالک اپنی مشترکہ کرنسی کا اہتمام کریں تو ڈالر اور یورو کو اپنی قدر معلوم ہو جائے گی۔ ان کی معاشی گرفت اور ڈآلر اور یورو کی بالا دستی سے اس صورت میں ہم نکل سکتے ہیں کہ مشترکہ کرنسی کے اہتمام کریں ۔
انہوں نے پورے عزم کے ساتھ کہا کہ ہم یکسوئی اور اﷲ پر توکل کرتے ہوئے جدوجہد کریں تو اﷲ تعالیٰ کی تائیدو نصرت شامل حال ہوگی کہ اس کی نصرت کا وعدہ اہل ایمان ہی کے ساتھ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نام نہاد ورلڈ آرڈر ناکام ہو چکا ہے انسانیت کو متبادل نظام کی ضرورت ہے جو اسلام کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے ۔اس لیے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ‘ اسلام امن و انصاف و بھائی چارے کا دین ہے اس پر عمل پیرا ہو کر ہی دنیا میں امن اور بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے ۔
انہوں نے اپنے وزارت عظمیٰ کے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس نقشہ کے مطابق میںنے کام شروع کیا تھا ۔ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے فوری بعد D-8( 8-Developing Muslim Nations) کا تصور دیا کہ ترقی پذیر مسلم اکثریت رکھنے والے آٹھ بڑے ممالک جن کی آبادی ایک ارب کے قریب ہے ۔ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر ایک ایسا نیوکلیس کہ ان کے گرد امت مسلمہ اور پھر امریکہ او ر مغرب سے بیزار ساری انسانیت اکٹھی ہو سکے ۔ اس لیے اگر یہ نیو کلس مضبوط ہو تو چین ‘ روس سمیت اور افریقہ اور براعظم جنوبی امریکہ کے 160ممالک بھی اس کے گرد اکٹھے ہو سکتے ہیں ۔اس لیے کہ ان ممالک میں بسنے والے چھ ارب انسان صہیونیت اور اس کے آلہ کار امریکہ کی استعماری گرفت سے نکلنا چاہتے ہیں ۔ جنوبی امریکہ میں برازیل جیسابڑا ملک اور وینزویلا واضح طور پر اس کا اظہار کر رہے ہیں ۔انہوں نے اپنے خطابات میں نئے معاشی
تصورات بھی پیش کیے اور کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کو ایک دوسرے کی جڑواں بہن قرار دیااور کہا کہ ان کے بعد اب صرف اسلام کا معاشی نظام ہے جو دنیا میں مساوات اور عدل قائم کر سکتا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر اربکان نے جشن استنبول کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے لاکھوں انسانوں کے سمندر کو جس میں مردو خواتین بالخصوص نوجوان بڑی تعداد میں موجود تھے یاد دلایا کہ محض قسطنطنیہ کی یاد میں محض جشن منا لینا کافی نہیں ہے بلکہ اس عظیم تاریخی واقعہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔ قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے صحابہ کرام کے دور سے لے کر مسلمانوں نے صدیوں تک کوششیں کیں لیکن یہ فتح اس وقت نصیب ہوئی جب سلطان محمد فاتح اور اس کی فوج بہترین عملی اور جذبہ جہاد سے شرسار مسلمان تھے ۔ ان کی فوج منظم تھی اور ان کے پاس دشمن سے بھی زیادہ بہتر جنگی ٹیکنالوجی دستیاب تھی حتیٰ کہ اس نے خشکی پر بحری بیڑہ چلا کر تاریخ کا محیر العقول کارنامہ سر انجام دیا ۔ اس عظیم فتح کے نتیجہ میں بازنیطینی سلطنت اپنے اختتام کو پہنچی اور اسلام کو عروج نصیب ہوا ۔ اگلے کئی سو سال سے زائد عرصہ تک مسلمان ایک سپر طاقت ٹھہرے ۔ جس کے اقتدار کا مرکز استنبول تھا۔احیائے صوفیہ کو گرجاسے مسجد میں تبدیل کر کے اﷲ کی کبریائی کا ڈنکہ بجایا لیکن آج پورا عالم اسلام استعمار کے شکنجہ میں ہے ۔احیائے صوفیہ کی مسجد کی حیثیت کو تبدیل کر کے اسے ایک میوزیم بنا دیا گیا ہے ۔ان حالات میں محض نعروں سے تبدیلی نہیں آئے گی ۔بلکہ جہاد ہی سے ہمارے مسائل حل ہوں گے۔ جہاد
ایک ہمہ گیر جہاد ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدان میں معاشی و اقتصاد کے میدان میں بھی اور علم و کردار کے میدان میں بھی اپنے آپ کو برتر ثابت کرنا ہوگا -
نجم الدین اربکان اس جہان فانی سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے بعد اپنے ابدی جہاں کے لئے رخصت ہوگئے ، اللہ انہیں جنت میں اعلی مقام عطا کرے - ترکی اور امت کو نعم البد ل عطافرمائے اور ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ انہوں نے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لئے عالم اسلام کو عالمی استعمار اور اس کے گماشتوں سے نجات لا سکیں اور احیائے اسلام کی عالمی تحریک میں اپنا کردار ادا کرسکیں-