استاد ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ستر کی دہائی میں ایسام‘ESAM) Economic & Social Researches Center) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔جس کا مقصد امت مسلمہ کے مسائل پر تحقیقات کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سیمینارز کے انعقادکا سلسلہ جاری رہتاہے‘تاکہ امت مسلمہ کے رہنماسرجوڑ کربیٹھیںاور اپنے مسائل کی تشخیص اور اس کے حل کے لیے اقدامات تجویز کریں، یہ ادارہ ہر سال ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرتا ہے جس میں دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے قائدین ‘ وزراء‘ سفراء‘ اہل دانش اور مختلف شعبوں کے ماہرین شرکت کرتے ہیں ۔ راقم کو بھی اس ادارے کے زیر اہتمام کانفرنسز میں شرکت کا موقع ملتا رہاہے۔
دو سال قبل بھی اس کے زیر اہتمام کانفرنس میں شرکت کی تھی ،جس میں خود ڈاکٹر نجم الدین اربکان بیشتر وقت کانفرنس میںشریک رہے اور اس کی افتتاحی اور اختتامی سیشنز میں انہوں نے دنیا پر امریکہ اور صہیونی لابی کی گرفت اور اس سے نکلنے کے لیے اپنامشہور لائحہ عمل پیش کیا ،جس کا گزشتہ چند سالوں سے وہ ہر مجلس میں اہتمام کرتے تھے ۔ استاد کی رحلت کے بعد یہ پہلی کانفرنس ایک ایسے موقع پر منعقد ہوئی جب عرب بہار کے نام سے عرب دنیا ایک بڑے انقلاب کی لپیٹ میں ہے ۔عالمی سطح پر اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ نام نہاد ورلڈ آرڈر اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے اور انسانیت ایک نئے نظام کی منتظر ہے ۔ اس لیے امسال کی کانفرنس کا موضوع بھی ” اتحاد اسلامی اور عالم جدید “ طے کیاگیا تھا ۔ اس کانفرنس میں 93ممالک کی بھر پور نمائندگی تھی ۔ پاکستان سے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر محمد کمال ‘ ڈائریکٹر امور خارجہ عبدالغفار عزیز ‘ ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ زبیر صفدر ‘ ناظم جمعیت پنجاب عمر عباس نے شرکت کی ۔ جب کہ کشمیر کے وفد میں راقم کے ساتھ نائب امرائے جماعت شیخ عقیل الرحمن ‘مشتاق احمد ایڈووکیٹ ‘اور راجہ نزاکت علی خان ناظم جموں و کشمیر اسلامی جمعیت طلبہ شریک ہوئے ۔ افتتاحی اجلاس میں خوش آئند بات یہ تھی کہ ترکی کے وزیر خارجہ پروفیسر ڈاکٹر داﺅد اوغلو اور نائب وزیر اعظم بھی شریک ہوئے ۔ موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی حکومت اور پارٹی کی کارکردگی کا احاطہ کیا ۔ پہلے سیشن کے اہم مقررین میں راقم نے بھی کشمیر کی صورت حال بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات ‘کالے قوانین ‘ اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے’ تحریک آزادی کشمیر اہل کشمیر‘ سے تعاون اور یک جہتی کا مطالبہ کیا۔
امت مسئلہ کے مسائل کے حوالے سے اہل کشمیر کی وابستگی کا بھی تذکرہ کیا کہ کس طرح اپنے دکھوں کو فراموش کرتے ہوئے عالم اسلام میں جہاں بھی افتاد پڑے پہلا رد عمل سری نگر سے سامنے آتا ہے ۔ کشمیری امت کا حصہ ہیں اور عملاًحصہ بننے کے لیے بھارت کی غلامی سے آزادی چاہتے ہیں ۔ لہٰذا امت مسلمہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومتوں اور عوام کی نمائندگی کرنے والے دیگر اداروں اور تنظیموں کی سطح پر بھر پور تعاون کریں۔ برادر عبدالغفار عزیز نے بھی امت کے دیگر مسائل کا احاطہ کرنے کے علاوہ مسئلہ کشمیر کو مسئلہ فلسطین کے بعد امت کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا اور اہل کشمیر کی حمایت کے لیے کماحقہ اقدامات کا تقاضا کیا ۔ کانفرنس میں دیگر اہم مقررین نے بھی مسئلہ کشمیر کو اہم حل طلب مسئلہ قرار دیا ۔
کانفرنس کے دوران ترکی کے وزیر خارجہ سے ملاقات میں انہیں یاد دلایا کہ ترکی نے ہمیشہ او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ہم یہاں یاد دہانی کرانے آئے ہیں کہ آج کے حالات میں ترکی سے ہماری توقعات میںمزید اضافہ ہوگیا جس پر انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہماری ترجیح اول رہا ہے اور آئندہ بھی ترکی اس میں کوئی کوتاہی نہ کرے گا۔ ایسی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کا ایک مفید پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ وقفوں کے دوران میں اہم وفود سے ملاقاتوں کا موقع مل جاتا ہے ۔ چنانچہ ہمارے وفد نے اس حوالے سے وقت کا بھر پور استعمال کیا ۔ سعادت پارٹی کے صدر اور استاد اربکان کے جانشین مصطفی کمالک سے تفصیلی ملاقات ہوئی ۔ انہیں استاد کی کشمیر کے حوالے سے وابستگی کے پس منظر میں یاد دلایا کہ ان کے مشن کے وارث کی حیثیت سے اہل کشمیر آپ سے کیا توقعات رکھتے ہیں ؟ جس پر ان کا جواب بہت حوصلہ افزا تھا کہ اپنے جماعت اور ترک عوام کی طرف سے ہم آپ کو بھر پور تعاون کا یقین دلاتے ہیں ۔کشمیرکو ہم اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ ملاقات میں انہوں نے اپنے دیگر سینئر ذمہ داران کو شریک رکھا اور ہماری تجاویز کے فالو اپ کے لیے انہیں ہدایات جاری کیں ۔ اس طرح بزرگ سیاست دان اور دانشور رجائے کوتان جو ڈاکٹر نجم الدین اربکان کے شروع سے دست راست رہے ہیں ۔ چند سال وہ سعادت پارٹی کے صدر بھی رہے ۔ اس حیثیت سے 2005ءکے زلزلہ کے موقع پر وہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے دورے پر تشریف لائے تھے ۔ اس موقع پر اپنے تمام اداروں کو انہوں نے متاثرین کی خدمت کے لیے وقف کر لیا تھا ۔ کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی ان کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملتا رہا ۔ وہ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو کے مصداق اپنے مشن سے منسلک رہتے ہیں ۔ آج کل وہ ایسام جیسے اہم ادارہ کے سربراہ بھی ہیں ۔ ان کا افتتاحی خطاب بھی فکر انگیز تھا بلکہ استاد نجم الدین اربکان کے وژن کی تشریح اور تجدید عہد پر مبنی تھا ان سے الگ سے تفصیلی ملاقات رہی ۔
میڈیا اور ریسرچ کے محاذ پر کشمیر کے حوالے سے مستقل کام جاری رکھنے کا تقاضا بھی کیا جس پر انہوں نے اتفاق کیا ۔ کانفرنس کے شرکاءمیں ایک اور شخصیت جنہیں مرکزیت حاصل رہی ۔ وہ اخوان المسلمون کے نائب مرشد عام استاد جمعہ امین تھے جو علم و خطابت اور ایثار وقربانی کے حسین مرقع ہیں ۔ا ن سے ملاقات میں اہل کشمیر اور قائدحریت سید علی گیلانی کا سلام پہنچایا اور مصر کے انقلاب پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ مصر اور دیگر عرب ممالک میں جہاں تبدیلی کی لہر اٹھی ہے ۔قیادت اور حکومت کی سطح پر کشمیر کی موثر ترجمانی کریں گے۔ کیونکہ ان ممالک میں انقلاب کی اس لہر میں اخوان ہی قیادت کر رہی ہے ۔ لہٰذا نئے تناظر میں او آئی سی اور بین الاقوامی اداروں میں اخوان کی انقلابی قیادت کو زیادہ فعال کردار ادا کرنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں ۔ان سے عرض کیا اہل کشمیر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی جدوجہد آزادی میں ان کی بھر پور پشتیبانی کی جائے گی نیز امت کے خلاف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے ،جس پر ان کی طرف سے حمایت اور رتعاون کی بھر پور یقین دہانی کرائی گئی اور یہ کہا گیا کہ ان انقلابات کے خلاف ابھی بڑی سازشیں کارفرما ہیں اور انہیں مستحکم ہونے میں بھی وقت لگے گا ۔ لیکن کشمیر کا مسئلہ پوری امت کا اہم مسئلہ ہے مسئلہ فلسطین کے بعد یہی مسئلہ امت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جس سے عہدہ برآ ہونا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔اس طرح کی اہم ملاقاتیں سوڈان کے سابق وزیر خارجہ مصطفی اسماعیل عثمان اور دیگر درجنوں اہم شخصیات سے جاری رہیں ۔ کانفرنس میں امت مسلمہ کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ کشمیر پر بھی ایک پر زور قرار داد متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیاگیا۔ اس کانفرنس سے متصل انٹرنیشنل یوتھ فورم کے زیر اہتمام ایک اور بین الاقوامی کانفرنس تھی جس میں مسلم دنیا کی طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ جس میں زبیر صفدر ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ ‘ نزاکت علی خان ناظم جموں وکشمیر اسلامی جمعیت طلبہ اور ناظم پنجاب نے پاکستان اور کشمیری طلبہ کی نمائندگی کی ۔ کانفرنس میں بھی وفد نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی وجہ سے طلبہ اور نوجوانوں کو درپیش مسائل کا احاطہ کیا اور وفود سے ملاقاتوں میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کیا ۔
ESAMکے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس سے متصل سعادت پارٹی ملی گرس کے پلیٹ فارم سے ہر سال استنبول کی فتح کا جشن مناتی ہے ۔ جس میں امسال لاکھوں مرد و خواتین شریک ہوئے ۔1453ءمیں مشہور مجاہد کمانڈر سلطان محمد فاتح نے صرف انیس برس کی عمر میں عیسائی بازنیطینی سلطنت کو شکست دینے کے لیے خشکی پر سے کشتیاں چلاتے ہوئے دوسری طرف سمندر میں اتار دی تھیں اور اس دور کی سپر طاقت کو شکست دے کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کی بشارت کے مطابق بہترین لشکر اور اس کے بہترین امیرکے لقب کے حقدار ٹھرے تھے ۔ یہ امت مسلمہ کی تاریخ کا اہم واقعہ ہے ۔ استنبول کی فتح کے بعد ان کے سب سے بڑے چرچ اور ان کے عالمی اقتدار کی علامت احیائے صوفیہ کو سلطان نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا جس میں صدیوں تک مسلمان سجدہ ریز ہوتے رہے ۔ یہ سلسلہ مصطفی کمال اتاترک کے بعد رک گیا اور اسے مسجد کی بجائے ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیاگیا ۔ آج بھی ترکی میں اسے دوبارہ مسجد کے طورپر بحال کرنے کی تحریک چل رہی ہے ۔ جشن فتح کے لاکھوں شرکاءنے سٹیڈیم میں پروگرام میں شرکت سے پہلے احیاءصوفیہ کے باہر نماز ظہر ادا کی اور اس کی بحالی کی تحریک کی یاد تازہ کی ۔ جشن فتح کا پروگرام بھی بہت ایمان افروز تھا۔ ملی اور جہادی ترانوں نے پورے سٹیڈیم میں جوش و خروش کی فضا پیدا کر دی ۔ عام طور پر روایت ہے کہ پروگرام کے جوبن کے موقع پر سعادت پارٹی کے مرکزی قائدین اہم مہمانوں کو ایک فلوٹ میں سوار کر کے سارے سٹیڈیم کا چکر لگاتے ہوئے شرکاءکے جوش و خروش کو مہمیز دیتے ہیں ۔اس مرتبہ فلوٹ پر تحریک آزادی فلسطین اور تحریک آزادی کشمیر سے یک جہتی کے لیے تحریک آزادی فلسطین کے رہنما رائد صالح اور راقم کو اس فلوٹ پر سوار کرتے ہوئے امت کے ان دو اہم مسائل کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ۔ اس موقع پر بھی مختلف خطوں سے آنے والے وفود کے نمائندے خطاب کرتے ہیں ۔ پاکستان ،کشمیر بلکہ جنوبی ایشیا کی نمائندگی کرتے ہوئے عبدالغفار عزیز ڈائریکٹر امور خارجہ جماعت اسلامی پاکستان نے جو عربی زبان کے ایک فصیح مقرر ہیں نے بھر پور ترجمانی کی اور خطے کے تمام مسائل کا احاطہ کیا ۔ مسئلہ کشمیر امت کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے اور اہل ترکی سے کیا توقعات ہیں اس کا اظہار کرنے کے علاوہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہونے والی سازشوں کا بھی اظہار کیا ۔ نیز جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور اس کی قیادت جس عتاب کا شکار ہے اس پر بھی روشنی ڈالی ۔
ان ہی دنوں ایک اور اہم کانفرنس او آئی سی ممالک کی این جی اوز کی ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام تھی ۔ جس میں مسلم ممالک کے علاوہ ان ممالک سے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور این جی اوز کے ذریعے فلاحی کام کر رہے ہیں نمائندگی تھی یہ بھی ایک اہم بین الاقوامی نمائندہ اجتماع تھا ۔ اس کے منتظمین نے اس اہم کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جس میں خطاب کرتے ہوئے اس فورم کا شکریہ ادا کیا کہ اس کے تحت گزشتہ سال مظفر آباد میں ایک بین الاقوامی کشمیر کانفرنس کا انعقاد ہوا جس سے مقبوضہ کشمیر میں امت کی طرف سے یکجہتی کا اہم پیغام پہنچا ۔ اس کے بعد مزید پیش رفت کی جائے اور یہ فورم موثر اقدام کرے تا کہ بھارت پر موثر دباﺅ بڑھاتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی بد ترین پامالی سے روکا جا سکے۔
کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی تازہ ترین حکمت عملی پر روشنی ڈالی کہ انسانی حقوق کی بد ترین پامالی ‘ لاکھوں متاثرین اور شہداءکے خاندانوں کی حالت زار اور پھر اس دلخراش صورت حال سے دنیا کو بے خبر رکھنے کے لیے میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں ‘ ریلیف ایجنسیوں کی عدم رسائی حتیٰ کہ مقبوضہ وادی سے بیرون ملک نہ ٹیلی فون کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی Netاور Facebookپر کسی سے رابطہ ہو سکتا ہے ۔ ان حالات میں مسلم این جی اوز بھارتی حکومت پر دباﺅ ڈالیں ‘وہاں جانے کی کوشش کریں ۔ انہیں یاد دلایا کہ ترکی کی IHHجیسی این جی اوز نے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے فریڈم فوٹیلا چلایا ۔اس طرح کا کوئی قدم مقبوضہ کشمیر میں محاصرہ ختم کرنے کے لیے اٹھایا جائے ۔ دیگر تجاویز کے علاوہ یہ تجویز بھی دی گئی کہ آزاد کشمیر سے براستہ چکوٹھی بین الاقوامی ریلیف کارروان چلانے کا اہتمام کیا جائے اور اس کی modalitiesطے کرنے کے لیے کوئی کمیٹی قائم کی جائے ۔ نیز اس فورم کے پلیٹ فارم سے مقبوضہ کشمیر کی مجموعی صورت حال پر ایک قرار داد کے ذریعے نوٹس میں لیا جائے ۔ نیز ڈاکٹر غلام نبی فائی صاحب جو اس فورم کے ممبرہیں اور وقت امریکی عدالت نے انہیں سزا سنا دی ہے ‘ان کا سلام پہنچایا اور ان کی خدمات اور رہائی کے حوالے سے ایک قرارداد کی تجویز پیش کی ۔الخدمت پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے برادر سید بلال اور دیگر مندوبین نے میری تجاویز کی حمایت کی ۔یوں تینوں قرارداوں سے کانفرنس نے اتفاق کیا ۔ اس موقعے پر ایسوسی ایشن کے انتخابات بھی ہوئے ۔ ترکی کے علی کرد اس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے جو اس فورم کو فعال بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہیں اور دیگر عہدیداران کو مبارک باد دی ۔ کشمیر کے حوالے سے رابطے میں رہنے پر اتفاق ہوا ۔ انہوںنے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کے لیے ہم بھر پور کردار ادا کریں گے ۔
دورے کے دوران میں حکمران پارٹی کے اہم عہدیداران کی وساطت سے وزیر اعظم ترکی رجب طیب اردگان سے بھی ملاقات کی کوشش کی جو ان کے مصروف شیڈول کی وجہ سے ممکن نہ ہوئی ۔البتہ ان کی طرف سے ان کے خصوصی مشیر اور پارلیمنٹ میں پاک ترک پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین برہان کایا ترک سے اہم ملاقات کی جس میں انہوںنے وزیر اعظم اور حکومت ترکی کی طرف سے کشمیر پر اپنی کمٹمنٹ کی یقین دہانی کرائی ۔ یہ ملاقات دو گھنٹے سے زائد جاری رہی ۔ جس میں ہم نے ساری صورت حال ان کے سامنے رکھی ۔ بالخصوص کشمیر کی پاکستان اور امت کے لیے اہمیت اور بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔ برہان صاحب نے چونکہ پاکستان سے تعلیم حاصل کی ہے ۔یوں وہ یہاں کے حالات سے اچھی طرح آگاہ ہیں ۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں مزید ملاقاتوں کا اہتمام کیا ۔ بالخصوص ایمبسڈر وولکان بز کر جو پارلیمان کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین ہیں اور پیشے کے لحاظ سے سفارت کار ہیں سے بہت سی مفیداور اہم ملاقاتیں رہیں ۔ جس میں انہوں نے ان کاوشوں کا ذکر کیا جو ترکی کی حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مختلف سطح پر کر رہی ہے ۔برہان کایانے بتایا کہ ترکوں کی پاکستان سے محبت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ پاک ترک پارلیمانی کمیٹی میں ساڑھے تین سو اراکین شامل ہیں ۔ یہ پارلیمان کی سب سے بڑی کمیٹی ہے۔ بڑی تعداد میں اس کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ممبران نے اپنے نام پیش کیے۔ اس میٹنگ میں پارلیمنٹ کے دیگر اہم ارکان بھی موجو د تھے۔ بریفنگ کے بعد سوال و جواب کی مفید نشست ہوئی ۔ ہماری تجاویز کو پذیرائی بخشتے ہوئے انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ رسمی ان تجاویز کو سفارشات کی شکل میں حکومت اور پارلیمنٹ تک پہنچائیں گے جس کا ٹھوس نتیجہ سامنے آئے گا ۔ وزیر اعظم ترکی کے ایک اور دست راست علی شاہین کمیٹی کے یورپی یونین کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے اہم ممبر اور اور وائس چیئرمین ہیں ۔ ان سے بھی اہم ملاقات ہوئی ۔ علی شاہین ریسرچ سنٹر برائے جنوبی ایشیاکے چیئرمین بھی ہیں جو ایک اہم تھنک ٹینک ہے جس سے کافی تعداد میں سابق اور موجودہ وہ ممبران پارلیمنٹ کے علاوہ اہم سفارت کار وابستہ ہیں سے بھی مفید نشستیں رہیں ۔ انہوں نے بھی اپنے حلقہ تعارف کے ممبران پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کرانے کے علاوہ اپنے ادارہ کے مرکزی دفتر میں اہم نشست کا اہتمام کیا ۔ جس میں دو گھنٹے تفصیلی بات چیت اور سوال و جواب کی نشست رہی ۔ علی شاہین بھی پاکستان سے فارغ التحصیل ہیں اس لیے ان کی کشمیر اورپاکستان کے ساتھ بڑی گہری وابستگی ہے بلکہ بہت شستہ اردو بھی بول لیتے ہیں ۔ انہوں نے پارلیمنٹ ہاوئس میں عشائیے کا اہتمام کیا ۔ جس میں اہم ممبران پارلیمنٹ نے شرکت کی ۔ اس طرح برہان کایانے بھی ظہرانے پر اہم ممبران کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا ۔ ان کے تعاون سے ہم نے نو گھنٹے پارلیمنٹ ہاﺅس میں گزارے جس میں ممبران پارلیمنٹ کے علاوہ ترکی کے دو اہم ٹی وی چینلز سے تفصیلی انٹرویوز بھی ہوئے ۔ جس کی ترجمانی خود علی شاہین کرتے رہے۔
وزیر اعظم ترکی کے لیے سید علی شاہ گیلانی صاحب کا خط بھی ہمراہ تھا جو برہان کایا ترک کی وساطت سے وزیر اعظم تک پہنچایا گیا ۔ جس میں انہوں نے اہل کشمیر کی طرف سے قبرص کے مسئلہ پر ترک بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی تفصیلات بیان کی۔ ترکی کے وزیر اعظم کی جنرل اسمبلی میں خطاب کی تحسین کی اور توقع کا اظہار کیا کہ ترکی دو طرفہ سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی ہماری بھر پور نمائندگی کرے گا ۔ برہان کایا نے محترم گیلانی صاحب کے لیے وزیر اعظم اور اپنی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ ترکی کی حکومت اور عوام بھی کشمیری بھائیوں کو مایوس نہیں گے ۔ دورے کے دوران بعث پارٹی کے صدر ڈاکٹر نعمان کرتمولش اور دیگر اہم سیاسی رہنماﺅں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اور ان این جی اوز کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا ۔ ان کے مرکز میں ذمہ داران سے ملاقاتیں اور ان کی خدمات کا شکریہ ادا کیا۔جو انہوںنے متاثرین زلزلہ اور متاثرین سیلاب کی بحالی کے لیے کیں ۔ ان میں IHH‘ یار دم علی ‘ جان سویو ‘ حکمت فاﺅنڈیشن قابل ذکر ہیں ۔ IHHکو اس وقت بین الاقوامی شہرت ملی جب اس نے فریڈم فوٹیلا کا اہتمام کیا جس پر اسرائیل نے جارحیت کر کے گیارہ افراد کو شہید اور درجنوں افراد کو زخمی کر دیا ۔اس میں پاکستان سے نامور صحافی طلعت حسین اورخبیب فاﺅنڈیشن سے ندیم صاحب نے نمائندگی کی ۔ برطانیہ میںمقیم دختر کشمیر پروین یعقوب جو بنیادی طور پر وادی سماہنی آزادکشمیر سے تعلق رکھتی ہیںنے بھی شرکت کی ۔اس موقع پر اس تاریخی سفر کی سال گرہ تھی ‘اس حوالے سے ماوا مرمرہ نام کے یاد گار جہاز پر ہی یہ تقریب منعقد ہوئی۔اس میں وہ سب لوگ شریک تھے‘ جو اس موقع پر جہاز پر موجود تھے ۔ اس سفر میں شہید ہونے والوں کے لواحقین بھی شریک تھے ۔
IHHکے چیئرمین بلند ہدرم نے اس موقع پر بڑا ایمان افروز خطاب کیا اور کہا کہ اسرائیل نے فریڈم فوٹیلا پر حملہ کرکے حماقت اور بزدلی کا ثبوت دیا ہے ۔ وہ یاد رکھے کہ اس کے ناجائز قبضہ کے خاتمہ تک فلسطینی اور دنیا کا ہر مسلمان بلکہ ہر با ضمیر انسان اپنی جدوجہد جاری رکھے گا۔کئی اہم ٹی وی چینلز اور اخبارات سے تفصیلی انٹرویوز بھی کیے ۔ آخری دن استنبول میں ایک بھر پور پریس کانفرنس بھی ہوئی ۔تمام انٹرویوز کو ٹی وی چینلز اور اخبارات نے اچھی کوریج دی ۔ سفیر پاکستان محمد ہارون شوکت سے بھی پاکستانی سفارت خانے میں ملاقات ہوئی ۔ انہیں بھی دورے کے فیڈ بیک سے آگاہ کیا اور امکانات کی نشان دہی کی ۔ سفیر موصوف خود بھی ترک ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں سے اچھے روابط رکھتے ہیں ۔ دورے کے دوران میں پاکستان اور سفارتی مشن کے بارے میں ترکی کی سیاسی اور دینی حلقوں کے تاثرات پہنچائے اور تجویز دی کہ اہل ترکی جو سیکولر ازم اور لادینیت کے ترش ذائقہ چکھنے کے بعد دوبارہ اسلام کی طرف رجوع کر رہے ہیں وہ پاکستان کو اس کے نظریاتی پس منظر میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہر حال میں ان کے تصور کو گزند پہنچانے سے احتراض کیا جائے۔ ہمارے نوٹس میں بعض اہم ممبران پارلیمنٹ اور سیاسی شخصیات نے حال ہی میں پاکستان کا Soft Imageمتعارف کرانے کے شوق میں سفارت خانے کے زیر اہتمام عریاں فیشن شو اور کیٹ واک جیسے پروگرامات کے انعقاد پر انہوں نے بہت صدمے کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے پروگرام یہاں مغربی تہذیب کے علمبردارسفارت خانے بھی نہیں کرتے جو پاکستان کے سفارت خانے بالخصوص استنبول کونصلیٹ کے زیر اہتمام ہوئے ۔ سفیر موصوف نے پورے پروگرام کی وضاحت کی ۔ لیکن پھر بھی ہم نے ہمدردوں کے تحفظات سے انہیں آگاہ کر دیا ۔ ہمارے دورے کو کامیاب بنانے کے لیے ترکی کے ان دوستوں نے اہم کردار ادا کیا جو پاکستان کے تعلیمی اداروں بالخصوص اسلامی یونیورسٹی سے فارغ ہوئے ہیں ۔ یہ حضرات ہمارے ہمہ وقت سفیر ہیں۔ افسوس کہ سفیر سازی کا یہ سلسلہ اب کم یا بالکل ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ بالخصوص عاطف نے انقرہ میں اہم ملاقاتیں کروائیں اور انالولیہ نیوز ایجنسی جو بڑی نیوز ایجنسی ہے ‘اس پر انٹرویوز کے ذریعے ہماری آواز ترکی کے عوام تک پہنچائی۔ استنبول کے صحافتی حلقوں میں برادر محمود عثمان اوغلو بھی پاکستان سے فارغ التحصیل ہیں ۔ انہوں نے بھی اہم ملاقاتوں کا اہتمام کیا۔اس طرح پاکستان اور کشمیر کاز کے ہمہ وقتی سفیر جو سفارت کاروں سے بھی بڑھ کر اپنے ملک کی نمائندگی کرنے والی شخصیت برادر ڈاکٹر ندیم جو اپنا ہسپتال چھوڑ کر بیشتر وقت ہمارے ساتھ رہے اور اہم ملاقاتوں کا اہتمام کیا ۔ ذرائع ابلاغ پر ترجمانی کی اور ہمارے سفر کو آسان بنایا ۔ اﷲ تعالیٰ انہیں اس کا اجرعطا کرے ۔ وہ امت اور پاکستان کا ایک بڑا اثاثہ ہیں ان کی قدر کی جانا چاہیے اسی طرح ترکستانی مہاجر برادر ہداسیت اﷲ محمود سلطان نے بھی میزبانی کا حق ادا کیا ۔ ان سب کو اﷲ تعالیٰ اجر عظیم عطا کرے۔ اس دورے کے دوران میں جہاں بھی گئے محبت کے بے پناہ جذبات نے استقبال کیا ۔ شاید اسی محبت کا یہ نتیجہ بھی تھاکہ پاکستان کے حالات پر ہر شخص کو تشویش میں مبتلا پایا ۔ ممبران پارلیمنٹ ‘ پالیسی ساز ‘ میڈیا ‘ دانشور ‘ سب کو یکساں تشویش میں دیکھا ۔صرف ترکی ہی نہیں ہر فرد پاکستان کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمان فکر مند ہیں ‘لیکن شو مئی قسمت پاکستان کے حکمران اور اشرافیہ کو نہ فکر ہے اور نہ احساس زیاں
وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
دورے کے دوران میں علامہ سعید نورسی کی جماعت کے ایک مرکز میں بھی حاضری کا موقع ملا ۔ جہاں استنبول کے اہل دانش جمع تھے‘ منتظمین نے بتایا کہ اس اجتماع میں یونیورسٹیوں کے چنیدہ اساتذہ اور نہایت ہی ہونہار طلبہ جو مختلف موضوعات پر ریسرچ کر رہے ہیں موجود ہیں۔ ان سے بھی خطاب کا موقع ملا۔ بر صغیر بالخصوص پاکستان اور ترکی کے تاریخی رشتوں کا تذکرہ ہوا اور اہل کشمیر کا درد اور پیغام ان تک پہنچایا ۔ جماعت کا ترکی میں وسیع حلقہ اثر ہے ۔ ترکی اور ترکی سے باہر دنیا میں پھیلا ہوا تعلیمی اداروں کا نٹ ورک ان کا نہایت کامیاب تجربہ ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر فتح اﷲ رولگن ان کے سربراہ ہیں جن کا بے پناہ احترام ہے ۔ ترکی کے حالات کے مطابق انہوں نے بڑی حکمت سے زندگی کے تمام شعبوں میں نفوذ کیا ہے ۔ بیورو کریسی ‘فوج ‘ ذرائع ابلاغ اور کاروباری دنیا میں ان کا وسیع حلقہ اثر ہے ۔ اسی طرح نقشبندی سلسلہ کے روحانی بزرگ شیخ محمود افندی کے مرکز میں بھی حاضری کا موقع ملا ۔ وہ استنبول سے باہر تھے اور پیرانہ سالی کی وجہ سے ملتے بھی کم ہیں ۔ 1995ءمیں دورہ ترکی کے موقع پر مولانا غلام نبی نوشہری کے ہمراہ ان سے ملاقات ہوئی تھی جس کی یاد آج بھی تازہ ہے ۔ ان کا سلسلہ دینی مدارس اور مساجد کے ذریعے معاشرے کو کتاب و سنت سے جوڑے ہوئے ہے۔ترکی کا ایک چہرہ تو بالکل لبرل ہے لیکن نقشبندی سلسلہ سے وابستہ مردو خواتین لباس اور حلیے میں کامل متشریح ہیں۔ان کے ہیڈ کوارٹر پر پر تکلف عشائیے کا اہتمام ہوا جس میں دنیا بھر سے آنے والے مسلم این جی اوز کے نمائندے بھی شریک تھے۔ ان کا مشن ہے کہ ہر محلے میں ایک مسجد اور مدرسہ قائم کیا جائے ۔ یہ سارے دینی ادارے اور اثر و رسوخ رکھنے والے وسیع سلسلے ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی خدمات کے معترف ہیں اور ترکی میں تبدیلی کے عمل میں انہیں مرد آہن قرار دیتے ہیں ۔ اس وقت ان تمام اداروں کی حمایت موجودہ وزیر اعظم رجب طیب اردگان کو حاصل ہے ۔ وہ خود بھی ان مراکز سے ذاتی تعلقات رکھتے ہیں اور ان کے اثر و رسوخ سے آگاہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی سازشوں کے باوجود وزیر اعظم اردگان اور ان کی پارٹی کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے ۔ تازہ سرویز کے مطابق انہیں 54%عوام کی حمایت حاصل ہے ۔ گویا ترکی کا دوسرا فرد ان کے ساتھ ہے ۔ ہمیں اپنے دورے میں ٹیکسی ڈرائیور سے لیک یونیورسٹی کے پروفیسرز تک سب کو رطب اللسان پایا ۔ حمایت کرنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اردگان اس کا ہر لحاظ سے مستحق ہے ۔ اس لیے کہ اس نے حکومت میں آنے کے بعد ترک معاشرے سے کرپشن کلچر کا خاتمہ کر دیا ۔ افراط زر کی شرح کسی دور میں سارے یورپ میں سب سے زیادہ ترکی میں ہوا کرتی تھی آج سب سے کم ہے ۔معیشت مستحکم ہو رہی ہے ۔ گزشتہ چند برسوں میں ترکی کی فی کس آمدنی دو ہزار ڈالر سے بڑھ کر گیارہ ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ترکی جو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے 26ارب ڈالرز کے قرضوں کا مقروض تھا آج صرف چار ارب ڈالر اس کے ذمہ ہیں ۔ بے روز گاری کی شرح کم ہو رہی ہے ۔ سڑکوں کی تعمیر اورپختگی گزشتہ دس سالوں میں جس قدر ہوئی اس قدر گزشتہ ستر سال میں نہ ہو سکی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئینی اصلاحات کے ذریعے فوج کا سیاسی کردار ختم کر دیاگیا ۔ سول حکومتو ںکا تختہ الٹنے والے سازشی جرنیلوں میں سے اس وقت ڈیڑھ سو کے لگ بھگ گرفتار ہیں جن میں چار فور سٹار جرنیل بھی شامل ہیں ۔ آئینی عدالت جو فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار کا کردار ادا کرتی تھی ۔ اسے بھی غیر موثر بنا دیا گیا ہے۔ یوں ترکی میں حقیقی جمہوری روایات پروان چڑھ رہی ہیں ۔ یہ روایات مادر پردر آزاد نہیں ہیں ‘بلکہ اپنے ماضی سے جڑی ہیں ۔ترکی نے اپنے آپ کو Rediscoverکر لیا ہے اور دوبارہ وہ امت اور عالمی سطح پر وہ قائدانہ کردار ادا کرنے کی تیاری کر رہا ہے جو اس نے صدیوں تک کیا ہے۔ ان کا یہ عزم ایک لیڈر سے لے کر ٹیکسی ڈرائیور تک کی گفتگو میں جھلکتا ہے ۔
سردست ترکی حکومت اور حکمران جماعت کو سیاسی چیلنج نہیں ہے ۔ حزب اختلاف کمزور ہے فوج کا سیاسی کردار ختم ہونے کے بعد سیکولر حزب اختلاف اور بھی کمزور ہو گئی ہے ۔ مزید آئینی اصلاحات کے لیے ایجنڈا قوم کے سامنے رکھ دیا گیا ہے ۔ اہل دانش اس پر مشورہ کرر ہے ہیں۔عمومی رائے یہی ہے کہ ترکی میں آئینی ترمیم کے ذریعے صدارتی طرز حکومت رائج ہو جائے گا اور آئندہ طیب اردگان ترکی کے صدر بن جائیں گے ۔ یوں اس ٹیم کو مزید مواقع ملے تو ترکی مسلم دنیا کے لیے ایک قابل تقلید رول ماڈل بن سکے گا ۔ طیب اردگان مسئلہ فلسطین اور امت کے دیگر مسائل پر قائدانہ کردار کی وجہ سے عرب دنیا میں بھی بہت مقبول ہیں۔ وہ شام کی بعثی حکومت کے مظالم کے خلاف صف آرا ہیں ‘اس کی حزب اختلاف کا بیس کیمپ بھی اس وقت ترکی میں بن چکا ہے ۔اس کے نتیجے میں عرب تاجر اور صنعت کار ترکی کا رخ کر رہے ہیں ۔ مغربی بنکوں سے اپنا سرمایہ ترکی منتقل کر رہے ہیں ۔ یوں ترکی کی DFIڈائریکٹ فارن انوسٹمنٹ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ ترکی کے پاس اس وقت سوارب ڈالر زسے زائد زرمبادلہ کے ذخائر ہیں ۔ عرب دنیا میں انقلابات کے بعد ترکی عرب تعلقات میں مزید بہتری کے امکانات ہیں ۔ طیب اردگان پہلے ہی پڑوسی ممالک کے ساتھ ویزا فری زون قائم کرنے کی پالیسی دے چکے ہیں ۔ اب اسی میں مزید تیزی اور بہتری کے امکانات ہیں ۔ اے کے پارٹی کی حکومت نے یوں تو تمام ہی شعبوں میں ترقی کی ہے ۔ لیکن تعلیم کے میدان میں خصوصی توجہ سے ان کی جامعات دنیا کی بہترین جامعات میں شمار ہوتی ہیں ۔ ساری مسلم دنیا کے طلبہ کے لیے انہوں نے اپنی جامعات کے دروازے کھول دیے اور معقول وظائف کا اہتمام کیا ہے ۔ پاکستانی طلبہ کو اس سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ برادر ڈاکٹر ندیم کی وساطت سے انقرہ اور استنبول میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ سے بھی ملاقاتیں رہیں جو وہاں کے نظام تعلیم سے بہت مطمئن ہیں ۔ حکومت پاکستان کو اس پہلو پر خصوصی توجہ دینا چاہیے ۔ اس طرح پاکستانی بزنس کمیونٹی کے لیے بھی بڑے مواقع ہیں۔ پاکستان سے جو منفرد جہت و عقیدت کے مظاہرے وہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اس کی روشنی میں تو پاکستان کی مٹی بھی وہاں چمک سکتی ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ دو طرفہ تجارت کا حجم بہت کم ہے ۔ حکومت اور بزنس کمیونٹی کو اس پر بھی توجہ دینا چاہیے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ترکی کے سیاسی تجربہ سے استفادہ کرتے ہوئے ایسا نظام اور قیادت لائی جائے جو پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی مملکت بنا سکے۔ ترکی اور عرب انقلابات نے ثابت کیا کہ یہ کام اسلامی تحریکیں ہی کر سکتی ہیں ۔ یہی امت کی نجات دہندہ ہیں۔
عالم اسلام کی نظر یں پاکستان پر جمی ہوئی اور پاکستان کے متقدر حلقوں کی نظر یں کرپشن اور لوٹ مار پر لگی ہیں ۔ ترکی میں تبدیلی کے داعی استعجاب و حیرت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ سید مودودی ؒ کی فکر اور لٹریچر اور علامہ اقبال ؒ کے انقلابی کلام سے عرب و عجم میں انقلاب پھوٹ پڑے ہیں۔ یہ دونوں ہستیاں پاکستان میں مدفون ہیں ۔ ان کا بیش قیمت لٹریچر بھی الماریوں میں محفوظ ہے۔ خود اہل پاکستان کسی انقلاب کا عنوان کیوں نہ بن سکے ؟ یہ آج کے عالم اسلام کا اہم سوال ہے ۔ اﷲ کرے پاکستانی عوام اور اسلامی تحریک اس کا جواب تلاش کر سکے ۔
نہیں مایوس اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی