قاضی حسین احمد علم و کردار ‘ عزم و ہمت اور جہد مسلسل کا عملی نمونہ تھے۔ وہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے عاشق ‘اقبال کے مرد مومن‘ امت کے غم خوار ‘ قافلہ راہ حق کے داعی راہی ‘ ہمقدم ‘ مربی و محسن تھے جن سے قائد اور کارکن یکساں محبت ہی نہیں عقیدت رکھتا تھا ۔ ان سے تعلق رکھنے والا ہر فرد ہی سمجھتا تھا کہ قاضی صاحب اس کے ہیں ۔ جماعت کے حلقوں سے باہر بھی اختلاف رکھنے والے بھی ان کے اخلاص کے قدر دان تھے۔ شاید وہ پاکستان میں واحد ایسے فرد تھے جو ہر ایک سے اور ہر سطح پر کمیونیکشن کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان پر بہت کچھ لکھا گیا اور بہت کچھ لکھا جائے گا لیکن شاید ہی ان کی متنوع خوبیوں اور صلاحیتوں کا احاطہ ہو سکے ۔اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر کے ناظم کی حیثیت سے 1980ءسے قاضی صاحب سے اس وقت ایک ذاتی تعلق استوار ہوا جب وہ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل تھے۔ افغان جہاد مستحکم ہو رہا تھا جس کے استحکام میں ان کا ایک تاریخی کردار تھا ۔ ایرانی انقلاب اور افغان جہاد کے استحکام نے کشمیر کے نوجوانوں میں بھی ایک جذبہ پیدا کر دیا تھا اور وہ بھارت کی پے در پے چیرہ دستیوں اور وعدہ شکنیوں سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ بھارتی استبداد سے گلو خلاصی کے لیے جہاد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں لہٰذا کشمیری نوجوانوں کو بھی افغان جہاد کے عمل سے استفادہ کرنا چاہیے اور مرحلہ وار تیاری بھی تا کہ مناسب وقت پر بھارتی استبداد کو چیلنج کیا جا سکے ۔ یوں تو قاضی صاحب پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے پشتیبان تھے لیکن کشمیر کے ساتھ ان کا تعلق سوا تھا ۔ 1989ءسے لے کر تادم واپسیں انہوں نے ملت اسلامیہ جموں وکشمیر کے ایک سچے خیر خواہ اور پشیبان ہونے کا حق ادا کیا ۔ مقبوضہ جموں وکشمیر سے آنے والے مہاجرین ‘ مجاہدین کی دیکھ بھال اور ضروریات کا اہتمام ہو یا پاکستان میں رائے عامہ بنانے کا محاذ ہو ‘ بین الاقوامی سطح پر سفارتی محاذ کو متحرک کرنا ہویا مقبوضہ کشمیر میں یتمیٰ اور شہداءکے خاندانوں کی کفالت کا چیلنج ہر محاذ پر انہوں نے کشمیریوں کی پشتیبانی کی ۔1990ءمیں جب ہزاروں لوگ آنا ً فاناً آزاد کشمیرمیں آنا شروع ہوئے تو پاکستان شدید سیاسی کشیدگی اور عدم استحکام کا شکار تھا ‘ آزاد جموں وکشمیرمیں حکمرانوں کی ترجیح محض ذاتی اقتدار کا حصول اور اس کا تحفظ بن کر رہ گیا تھا۔ اس مشکل مرحلے پر بیس کیمپ میں جماعت اسلامی نے ہزاروں مہاجرین اور ان کے خاندانوں کی دیکھ بھال کا بیڑا اٹھایا ۔ وہ کام جو حکومتوں کو کرنا چاہیے تھا وہ جماعت اسلامی کو کرنا پڑا ۔اس سارے عمل میں انہوں نے قدم قدم پر حسب ضرورت وسائل بھی فراہم کیے اور شفقت اور رہنمائی سے بھی نوازا ۔ پاکستان میں جماعت کی ساری تنظیم اور برادر تنظیموں کو تحریک کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ۔ اس سلسلے میں اہل خیر حضرات کے سامنے خود جھولی پھیلائی ۔ نیزسید منور حسن صاحب پروفیسر غفور احمد صاحب ‘ جناب نعمت اﷲ خان صاحب جیسے سینئر رہنماﺅں نے بھی تاجران کے سامنے مظلوم کشمیریوں کے ریلیف کے لیے اپنی جھولیان پھیلا کر خدمت اور کشمیر سے وابستگی کا ایک والہانہ انداز متعارف کروایا ۔ قوم ‘حکومت حزب اختلاف اور حزب اقتدار بلکہ زندگی کے تمام شعبوں اور طبقات نے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن 5فروری 1990ءکو پہلی مرتبہ ان ہی کی اپیل پر منایاگیا ۔ اس وقت کشیدگی کے ماحول میں پوری قوم کاکشمیری حریت پسندوں کی اس عظیم الشان یکجہتی کے مظاہرے نے ایک طرف کشمیریوں کو عزم و حوصلے سے لیس کیا اور دوسری طرف پوری دنیا کو متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا ۔ کشمیر صرف کشمیریوں کا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم اور اس کے بچے بچے کا مسئلہ ہے ۔یہ ان کا اخلاص تھا کہ بائیس سال گزرنے کے باوجود ہر سال پانچ فروری کو پوری قوم ایک مرتبہ پھر تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے چارج ہو جاتی ہے ۔یوں پاکستانی حکام اور عوام سب مل کر تجدید عہد کرتے ہیںکہ کشمیرکی آزادی تک اہل پاکستان ان کے شانہ بشانہ ہیں ۔ یکجہتی کے اس تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے کشمیرپر قومی کانفرنسوں اور ریلیوں کا اہتمام بھی ان کی رہنمائی میں جماعت نے پورے ملک میں کیا ۔ یہ سلسلہ تسلسل سے آج تک جاری ہے ۔ملک کے اندر رائے عامہ بنانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سفارتی محاذ پر بھی توجہ دی کہ آزادی کی تحریکوں میں بین الاقوامی محاذ کی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے ۔ بد قسمتی سے شملہ معاہدہ کے بعد پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو کسی بھی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ایک مرتبہ بھی اجاگر نہ کیا جب کہ ہندوستان مسلسل دنیا کو باور کراتا رہا کہ یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے اور کشمیری اب اس کے استعماری قبضے پر مطمئن ہیں ۔اس لحاظ سے اس مسئلے کو شملہ معاہدے کے طابوت سے نکال کر ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی اداروں کے ایجنڈے پر لانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ا س سلسلے میں انہوں نے سب سے پہلے دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کی قیادت کو مشاورت کے لیے مدعو کیا۔چنانچہ13جولائی 1990ءکو ایک بین الاقوامی کانفرنس جماعت کے زیر اہتمام مظفر آباد میں منعقد ہوئی ۔ اس کے تسلسل میں اسلام آباد اور لاہور میں بھی مشاورتی اجلاس ہوئے اور تحریکوں کو اہداف دیے گئے کہ اپنے اپنے ممالک میں رائے عامہ اور حکومتوں کو کشمیر کی صورت حال اور بھارتی مظالم سے آگاہ کیا جائے نیزامت مسلمہ کے حوالے سے بھارتی عزائم بے نقاب کیے جائیں ۔اسلامی تحریکوں نے اپنے اپنے دائرہ کار میں پوری مسلم دنیا میں ایک تحرک پیداکیا ۔اس تسلسل میں ایک کل جماعتی پارلیمانی وفد کی قیادت کرتے ہوئے پورے عالم اسلام کا دورہ کیا ۔اس دورے کے دوران میں حکمرانوں ‘ وزرائے خارجہ ممبران پارلیمنٹ‘ علماء‘سکالرز اور میڈیا کو کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کیا۔ محترم پروفیسر خورشید صاحب‘ بیرسٹر مسعود کوثر ‘ مولانا قاضی عبداللطیف ‘ جناب خلیل حامدی ‘ جیسی عالی دماغ شخصیات اس وفد میں شامل تھیں۔راقم بھی اس وفد کا حصہ تھا۔اس دورے میں عالم اسلام میں ان کے بے پناہ احترام اور بے پناہ اثر ورسوخ کا چشم دید مشاہدہ کیا ۔ محترم قاضی صاحب اور پروفیسر خورشید احمد ‘ خلیل حامدی صاحب عالم اسلام کی اسلامی تحریکوں اور اہل دانش میں بہت محترم نام تھے اس لحاظ سے سرکاری اور عوامی سطح پر اس وفد کو بے پناہ پذیرائی ملی۔ بین الاقوامی سطح پر ان کے احترام اور بے پناہ نفوذ کا قدم قدم پر مشاہدہ ہوتا رہا ۔کئی کئی گھنٹے کی نشستوں میں قاضی صاحب نے مسئلے کا پس منظر اور کشمیریوں کی قربانیوں کے بار ے میں بریفنگ دی ۔ ترکی کی پارلیمنٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے ساتھ تقریباً چار گھنٹے کی تفصیلی نشست رہی ۔ جس میں شرح و بسط کے ساتھ انہوں نے صورت حال واضح کی اور قابل تشفی جو ابات دیے ۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے پہلی مرتبہ اس مسئلہ کی صحیح تفہیم ہوئی اور تجویز دی کہ اس کے دورے تسلسل سے جاری رکھے جائیں۔ترکی کے صدر کے ساتھ آدھ گھنٹے کی طے شدہ ملاقات ‘ پونے دو گھنٹے تک جاری رہی ۔ قاضی صاحب نے بریفنگ میں اتنی دلچسپی پید اکر لی کہ ترک صدر ترگت اوزال مرحوم نے تمام دیگر پروگرامات موخر کرتے ہوئے میٹنگ جاری رکھنے پر اصرار کیا اوراپنی حکومت اور عوام کی طرف سے بھر پور ساتھ دینے کا وعدہ کیا ۔اس طرح کی اہم ملاقات مصر کے وزیر خارجہ عمر موسیٰ سے ہوئی جو بعد میں عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے ۔ جمال عبدا لناصر کے دورسے مصر بھارتی حلقہ اثر میں رہا اس لیے قاضی صاحب کی رائے تھی کہ مصر کی پالیسی ہم آہنگ ہونے سے تمام عالم عرب پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس موقع پر مصر کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بڑھ گئی تھی کہ اگلے ماہ مصر او آئی سی کے سالانہ اجلاس کا میزبان بننے والا تھا ۔ چنانچہ سفارتی قواعد کے مطابق میزبان ملک کی رضا مندی کے بغیر کشمیر کا ایجنڈے پر زیر بحث لانا ناممکن تھا ‘اس لیے یہاں محترم قاضی صاحب کی قیادت نے وفد میں تمام جماعتوں ‘ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں ‘ جامع الازہر کے شیخ الجامعہ شیخ جاد الحق علی جاد الحق اور ممبران پارلیمنٹ سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور انہیں باور کرایا کہ مصر کی او۔ آئی ۔ سی کی رکنیت کی بحالی میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا ‘لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیر کے مسئلے میں مصر تعاون کرے اور آئندہ ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کو شامل کیا جائے ۔اس موقع پر اخوان المسلمون کے تعاون سے قاہرہ ‘ اسکندریہ وغیرہ میں عظیم الشان کشمیر کی یکجہتی کے لیے عظیم الشان جلسوں کا بھی انعقاد ہوا۔حکومتی اور عوامی سطح پر ایسا ماحول بنا کہ حکام نے وعدہ کیا کہ اجلاس میں کشمیر ایجنڈے پر رہے گا۔ بعد میں او ۔ آئی ۔سی کے وزرائع خارجہ کے اجلاس میں 1972ءکے شملہ معاہدے کے بعد پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم سے مسئلہ کشمیر کی باز گشت سنائی گئی اور پاکستان کی طرف سے کسی پیش کی گئی قرار دار متفقہ طور پر منظور ہوئی ۔ جس میں بھارتی مظالم کی مذمت کرنے کے علاوہ اقوا م متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت نے ذریعے حل کرنے پر زور دیاگیا ۔ اس کے بعد ہر سال او آئی سی کے وزرائے خارجہ یا سرابراہی اجلا س میں کشمیر ایجنڈے پر رہا ۔ اس تسلسل میں او آئی سی نے بعد میں کشمیر رابطہ گروپ اور کشمیر ریلیف فنڈ قائم کیے اور حریت کانفرنس کو او آئی سی میں مبصر کا درجہ بھی دیا گیا ۔یوں یہ مسئلہ او آئی سی کی وساطت سے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سیاسی اور انسانی حقوق کے اداروں میں زیر بحث آیا اور بھارتی خواہش کے علی الرغم یہ مسئلہ دنیا کا فلیش پوائنٹ قرار پایا۔ اس سارے عمل میں بنیادی قربانیاں تو کشمیریوں کی ہیں ۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر حکومت پاکستان اور او آئی سی کو مطلوبہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا محترم قاضی صاحب اور ان کی ٹیم کا ایک تاریخی کردار ہے ۔ جسے کوئی مورخ نظر انداز نہیں کر سکتا ۔یہی وجہ ہے اس وقت کے آزاد جموں وکشمیر کے وزیر اعظم ممتاز راٹھور مرحوم نے جن کا اپنا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا قاضی صاحب کی مظفر آباد آمد پر انہیں گارڈ آف آنر پیش کرنے کا اعلان کیا اور کشمیر کاز کے لیے ادا کی گئی شاندار خدمات پر انہیں ”نشان کشمیر “پیش کیا ۔ بعد میں جب پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے بھارت لائن آف کنٹرول سے متصل آبادی پر شیلنگ کر کے ہزاروں لوگوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کر دیا ۔ وادی نیلم کا محاصرہ کر لیا تو قاضی حسین احمد ہر جگہ خود بہ نفس نفیس پہنچے اور متحدہ مجلس عمل کی ایک پارلیمانی وفد بھی عوام کی مشکلات کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا ۔متاثرین کے لیے ریلیف کا اہتمام کیا اور بیس کیمپ کے عوام اور پاک فوج کے حوصلے بلند کیے ۔یوںبھارتی عزائم کے مقابلے میں مجاہدین ‘ عوام اور پاک فوج کی ایک ناقابل تسخیر دفاعی لائن کا اہتمام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح 2005ءکے زلزلہ میں آزا دکشمیرمیں جو قیامت صغریٰ برپا ہوئی اس میں بھی محترم قاضی صاحب پہلی شخصیت تھے جو تمام متاثرہ علاقوں میں خود پہنچے ۔ ریلیف کیمپس قائم کروا ئے پوری جماعت اور مرکزی ٹیم کوریلیف کے لیے وقف کر دیا ۔ ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں اور مسلم این جی اوز کومتوجہ کیا کہ آزمائش کی اس گھڑی میں آگے بڑھ کر اپنا کردار اد اکریں ۔دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے قائدین وفود اور ریلیف کے اداروں کے ساتھ آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے متاثرین کی معاونت کو پہنچے۔ چنانچہ اسلامی تحریک کے رضا کاروں نے اخلاص سے وہ کردار ادا کیا جس کا اعتراف اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان بھی کرنے پر مجبور ہوئے ۔ مغربی این جی اوز تو فوٹو سیشن کر کے رخصت ہو گئیں لیکن قاضی صاحب کا یہ صدقہ جاریہ الخدمت اور دیگر این جی اوز کی شکل میں آج بھی موجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام کشمیری قاضی صاحب کی جدائی کو اپنے ایک محسن اور مخلص پشتیبانی سے محرومی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ مقبوضہ اور آزاد جموں وکشمیر کی تمام دینی اور سیاسی جماعتیں مجاہدین ‘ مہاجرین اور ان کے قائدین اس موقع پر دل گرفتہ ہیں کہ وہ اپنے ایک عظیم محسن اور پشتیبان سے محروم ہو گئے ہیں اور وہ دعا گو ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرماتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ ان کے خاندان اور پاکستان میں کشمیریوں کی حقیقی پشتیبان ان کی جماعت اور قیادت کو استقامت بھی عطا کرے اور ان کے خوابوں کے مطابق وہ مقام اور قوت بھی عطا کرے تا کہ پاکستان ایک مستحکم حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بن سکے جس کی خاطر لاکھوں لوگ جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں ۔ کم و بیش تین دہائیوں پر محیط قاضی صاحب سے تحریکی اور ذاتی تعلقات کا احاطہ کرنے کے لیے پوری کتاب درکار ہے ۔ انہوں نے تحریک کی تقویت کے لیے ہر تجویز کا خیر مقدم کیا ۔ ہماری حوصلہ افزائی کے لیے بڑے بڑے اقدامات کیے ‘ ان کی زندگی مسلسل ایک تحریک اور تربیت گاہ تھی ۔ نا مساعد حالات میں بھی وہ امید کے چراغ جلائے رکھتے تھے ۔ مایوسی اور دل شکستی انہیں چھو کر نہ گزری تھی ۔ ہمیشہ خود بھی پر امید رہے اور دوسروں کے ہاتھ میں امید کی شمعیں تقسیم کرتے رہے ۔ اندرونی اور بیرون ملک لا تعداد مواقع پر سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ۔ ہر موقع پر ان کی شخصیت کے راز کھلتے رہے ۔ دوسری مرتبہ دل کے بائی پاس آپریشن کے بعد انہوں نے فرمایا اپنے ہاں کسی ایسے مقام پر رہائش کا اہتمام کریں جہان بچوں کے ساتھ کچھ عرصہ آرام کیا جا سکے چنانچہ ہم نے اپنے گاﺅں کے قریب سدھن گلی ضلع باغ کے صحت افزا مقام پر رہائش کا اہتمام کیا جہاں ہفتہ بھر رہے اور فیملی کے ساتھ شرف میزبانی کا موقع بخشا ۔وہ سعید ساعتیں ہمارے خاندان کے لیے زندگی کا اثاثہ ہے ۔ وہ تحریک بھی تھے ادارہ بھی ۔ انہوں نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے لیے افغان اور کشمیر جہاد کے لیے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لیے جو خدمات سر انجام دیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں ۔ امارت کی ذمہ داری سے فراغت کے بعد بھی فارغ تو بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا کے مصداق اتحاد امت کے لیے سر گرداں رہے ۔ ملی یکجہتی کونسل کے احیاءکے لیے انہوںنے قائدانہ کردار ادا کیا اور دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے عظیم الشان اتحاد امت کانفرنس منعقد کر کے اتمام حجت کیا ۔اس سلسلے میں وہ آخری سفر میں مظفر آباد تشریف لائے کشمیر میں سیاسی اور دینی حلقوں میںوہ بے پناہ مقبول ہیں ۔ وہاں بھی یکجہتی کونسل کی تشکیل کی اور الوداعی ہدایات دیں ۔ اقامت دین اور جہاد فی سبیل اﷲ میں ان کی جدوجہد ان کے تیار کردہ کارکنان ‘ ادارے برادر آصف قاضی اور ڈاکٹر سمیہ راحیل قاضی جیسی ان کی نیک سیرت اولاد سب ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے ۔اپنے عقیدت مندوں کو وہ پیغام دے گئے کہ وہ اس دنیا سے چلے گئے ان کا مشن زندہ ہے ۔ اسے زندہ اور سر بلند رکھنے کے لیے سب مل کر ان کے دست راست سید منور حسن صاحب کے ہاتھ مضبوط کریں تا کہ قافلہ راہ حق اسلامی انقلاب کی منزل سے ہمکنار ہو سکے۔