پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میںبھی اورعالمی اسلامی تحریکوں کی وساطت سے ساری دنیا میں ایک مرتبہ پھر 5 فروری تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر ایسے عالم میں بنایا جا رہا ہے کہ اس تاریخی دن کے داعی اور تحریک آزادی کشمیر کے عظیم پشتیبان جناب مجاہد ملت قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ اپنی ذمہ داریوں کا حق ادا کر تے ہوئے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ۔ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لئے ان کے مختلف اقدامات کے ضمن میں اس دن کا قومی اہتمام بھی ان کے لئے ایک صدقہ جاریہ ہے۔کشمیریوں کی قربانی اور استقامت کا ایک اور سال بیت گیا بھارتی جبر اور ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی پامالی،کالے قوانین کی آڑ میں بلا روک ٹوک جاری ہے، جذبہ حریت کچلنے کے لئے بھارتی نیتا نت نئے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں ۔ زیر حراستی قتل کے علاوہ تا مرگ عمر قید کی سزاﺅں کا ایک نیا استعماری حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ ہزاروں لاپتہ نوجوانوں کی گمنام قبریں دریافت ہو رہی ہیں ، ہزاروں طلبہ اور معصوم بچے آزادی کے نعرے لگانے اور غلیل سے بھارتی افواج پر کنکریاں پھینکنے کے جرم میں جیلوں میں ہیں ۔ سیز فائر کے قریبی علاقوں میں جومیڈیا کی پہنچ سے دور ہیں اجتماعی عصمت دری کے واقعات بھی روز مرہ کا معمول ہے۔ ایک طرف بھارتی جنرل یہ دعوی کر تے ہیں کہ مقبوضہ ریاست میں عسکریت کی کمرتوڑ دی گ· ہے ، اب صرف چند درجن نو جوان ہی محترک ہیں اور دوسری طرف سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کی ساری کاوشوں کے باو جود فوج خصوصی اختیارات سے دستبردار ہو نے کے لئے تیار نہیں ہے اور یہ جواز پیش کر رہی ہے کہ معمولی فوجی انخلاءکے نتیجے میں بھی ہزاروں مجاہدین فی الفور کشمیر میں داخل ہو جائیں گے اور کشمیر ہمارے ہاتھوں سے جاتا رہے گا ، اپنی موجودگی کے جواز کو ثابت کرنے اور پاکستان کو بد نام کر نے کے لئے آئے روز سیز فائر لائن پر جھڑپوں کی کہانی گھڑی جا تی ہے جسے بھارتی میڈیا نمک مرچ لگا کر جنگی ماحول پیدا کر نے کی کوشش کر تا ہے ۔ لیکن بحمد اللہ ان تمام ہندستانی استعماری ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کی دلی وابستگی تحریک آزادی کے ساتھ برقرار ہے اور وہ کسی بھارتی آئینی فریم ورک کے اندر کسی لولے لنگڑے حل کو قبول کر نے کے لئے تیار نہیں ہیں، جس کا اظہار وفتاَ فوقتاَ شہداءکے جنازوں میں ہزاروں کی تعداد میں پابندیاں توڑ کر یا قائدین حریت بالخصوص سید علی گیلانی کی اپیل پر مختلف مواقع پر شٹر ڈاﺅن ہڑتال کر کے کرتے رہتے ہیں ۔ قائدین حریت کو عوام سے دور رکھنے کے لئے گھروں میں بند کر دیاجا تا ہے ، با لخصوص سید علی گیلانی کو گزشتہ ایک سال سے عیدین اور جمعہ کی نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہ ملی ، یہی صورت حال جناب شبیر احمد شاہ اور جناب یسین ملک کے ساتھ آئے روز روا رکھی جا رہی ہے جو عوام کو متحرک کر نے کے لئے وقتاَ فوقتاَ کو ششیں کرتے رہتے ہیں ۔ تمام استعماری ہتھکنڈوں کے باوجود قوم کی تحریک کے ساتھ کمنٹمنٹ پر بھارتی حکمران اور پالسیی ساز سخت پریشان ہیں اور اس یکجہتی کو تحلیل کر نے کے لئے مختلف اقدامات کر تے رہتے ہیں ایک طرف تو وہ فرقہ وارانہ مسلکی اختلافات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف نوجوانوں کو ثقافتی سرگرمیوں کے نام پر بے مقصدیت کی طرف راغب کر نے کے لئے شراب و شباب کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔حال ہی میں پنچائتی نظام کے ذریعہ نچلی سطح پر حریت اور آزادی کی لہر کو سرد کر نے کے لئے وفا داروں کا ایک گروہ تیار کر نے کی کوشش کی گئی جس کا توڑ کر نے کے لئے سید علی گیلانی اور سید صلاح الدین نے عوام سے اس غدار گروہ سے لاتعلق رہنے کی اپیل کی جس کے نتیجہ میں جوک در جوک پنچائتی نمائندے تحریک حریت کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں ۔ اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے وہاں تمام دینی تنظیموں اور اداروں نے بھی اتحاد قائم کر لیا ہے جسکی سرگرمیوں کو عوامی سطح پر پزیرائی مل رہی ہے ۔ عوام اور نوجوان بھارتی عزائم کا ادراک رکھتے ہوئے دینی اور حریت تنظیموں کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے جلسے جلوسوں اور مظاہروں میں اپنی وابستگی اظہار کر تے رہتے ہیں ۔ امسال جماعت اسلامی کی قیادت میں تبدیلی کے بعد نو منتخب امیر جناب عبداللہ وانی کی حلف برداری کی تقریب میں ضلع بڈگام میں ایک لاکھ سے زائد حاضرین نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ بھارتی ہتھکنڈے کشمیری عوام کے دلوں سے حریت اور اسلام کے ساتھ محبت کے جذبات کو سرد نہیںکر سکتے۔مقبوضہ ریاست کا یہ حوصلہ افزا منظر اس عالم میں ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ موجودہ حکمران پارٹی کے بانی نے کشمیر پر ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کیا تھا ،لیکن ان کی پارٹی کی موجودہ حکومت نے گزشتہ بائیس سالہ تحریک کے موجودہ مرحلہ میں سخت ترین سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے ،ایک طرف کشمیریوں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دریاﺅں کا پانی بند کر تے ہوئے اسے دوسرا ایتھوپیا میں بدلنے کی بھارتی سازشیں ہیں تو دوسری طرف افغانستان کے راستے پاکستان میں تخریب کاری کے واقعات اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام ، دفاعی افواج اور اس کی سلامتی کے خلاف ہمہ گیر حکمت عملی کی سر پرستی کھلے عام یا چھپے امریکی اور یہودی لابی بھی کر رہی ہے جس کا اظہار وقتاَ فوقتاَ اعلی حکام کرتے رہتے ہیں۔ اس سارے منفی ہتھکنڈے کے باوجود بھارت کا انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینا ، اسے افغانستان تک تجارتی راہ داری مہیا کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ، اس سارے عرصے میں بھارت کو بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کر نے کی بجائے اسے یکطرفہ دوستی کی طرف بگٹٹ بھاگنا انتہائی لمحہ فکریہ ہے ۔ موجودہ حکومت کی کشمیر کاز سے دلچسپی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 5 سال میں ایک مرتبہ بھی صدر، وزیر اعظم یا وزیر خارجہ نے کشمیری قیادت سے کوئی ایک مشاورتی اجلاس نہیں کیا بلکہ مرکزی حکومت کی مداخلت اور دھاندلی کے ذریعہ مظفر آباد میں ایک ایسا ٹولہ مسلط کیا جس نے حکومت پاکستان سے بھی پہلے بھارت کو MFN کا درجہ دینے کی قرار داد اپنی کابینہ اور اسمبلی سے پاس کراتے ہوئے ہماری جگ ہنسائی کا اہتمام کیا ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں دینی جماعتوں اور ان کے اتحادی پلیٹ فارموں کے علاوہ مین سٹریم اپوزیشن قیادت نے بھی کشمیریوں کے جذبات کی نہ صحیح تر جمانی کی اورنہ پاکستان کے حوالے سے بھارتی عزائم بے نقاب کر نے کے لیے لب کشائی کی ، جمہوری نظام میں حکومت کی کمزوریوں پراپوزیشن گرفت کر تی ہے اور اصلاح احوال کے لئے رائے عامہ تیار کر تی ہے ،لیکن پاکستان میں پاور پالیٹکس کر نے والی قومی جماعتوں کی قیادن نے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اس حوالے سے کشمیریوں کو شدید مایوس کیا ۔ ان سارے منفی عوامل کے باوجود کشمیر میں تحریک کی لہر کا برقرار رہنا لاکھوں معصوم شہداءکے مقدس خون کا ایک بڑا معجزہ ہے جس پر دنیا کے بڑے بڑے سٹریٹجسٹ انگشت بدندہ ہیں اور تجزیے بھی کر رہے ہیں کہ کشمیریوں کے اس فولادی عزم کی طاقت کا راز کیا ہے؟۔
ہمارے تجزیے کے مطابق افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی یلغار کے بعد حکومت پاکستان نے جو پسپائی اختیار کی 2014 امریکی انخلاءکے بعد تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے مشکلات کا دور ختم ہو نے والاہے ، افغانستان میں حملہ آور طاقتوں کے اعتراف شکست نے اہل کشمیر کو ایک نیا حوصلہ دیا ہے ، اسی طرح چین کی طرف سے کشمیریوں کو سادہ کاغذ پر ویزوں کا اجراءاور کشمیر میں متعین 15 وید بھارتی کور کمانڈر کو ویزہ دینے سے انکار کر کے بھی کشمیریوں کو حوصلہ کا پیغام دیا ہے ، اس عرصہ میں بھارت نے بھر پور کوشش کی کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح سے دو طرفہ سطح پر آجائے لیکن اس کی خواہش کے علی الرغم، اقوام متحدہ کے سیکر ٹر ی جنرل کا دہلی میں کھڑے ہو کر اسے ایک حل طلب مسئلہ قرار دینا انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور دانشوروں کی طرف سے بھارتی پالیسیوں کا جس طرح نوٹس لیاگیا اس سے بھی کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں ، عالم عرب میں انقلابات کی لہر اور اسلامی تحریکوں کی کامیابی نے بھی یہ تاریخی صداقت دہرائی ہے کہ بڑے نصب العین کے لئے عزم اور استقامت رکھنے والی اقوام اور تحریکیں بالاخر کامیاب ہوتی ہیں ، حال ہی میں غزہ میں اسرائیل اور حماس کا معرکہ جس میں اسرائیل کو واضح شکست تسلیم کر نا پڑی اور جنوبی فلپائن میں بنگس مورو تحریک کی کامیابی اور مورو کی خود مختارمسلم ریاست کا قیام بھی تحریک آزادی کے لئے حوصلے کا پیغام ہے ، تسلیم کر نا چاہئے کہ تاریخ کے انتہائی مشکل دور میں کشمیریوں نے اپنی تحریک جاری و ساری رکھتے ہوئے ۔ایک نئی تاریخ رقم کی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امسال قاضی حسین احمد صاحب کی عدم موجودگی میں قومی قیادت اور حکومت زیادہ بھر پور طور پر اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اہل کشمیر کو دو ٹوک پیغام دے کہ منزل کے حصول تک ہم سب قاضی حسین احمدصاحب ہی کی طرح آپ کے شانہ بشانہ ہیں اس سلسلے میں ذیل اقدامات ناگریز ہیں ۔
٭ صدر پاکستان اور وزیر اعظم پارلیمنٹ سے خطاب یا قوم سے خطاب میں اپنے قومی اور تاریخی موقف کا احیاءکریں ۔
٭ آمدہO.I.C; کے اجلاس میں بھارتی عزائم بے نقاب کر نے کے لئے O.I.C کی سابقہ قرار دادوں اور اقدامات کے تعاقب کا اہتمام کیاجائے جس کے نتیجہ میں کشمیر رابطہ گروپ، کشمیر ریلیف فنڈمتحرک ہو سکے ۔نیز انتہا پسند دہشت گرہندو تنظیموں کی کارروائیوں جن کا انکشاف بھارتی وزیر داخلہ و خارجہ کے بیانات میں کیاگیا ہے کو بنیاد بناتے ہوئے دنیا کو اصل بھارتی چہرہ دکھانے کا اہتمام کیا جائے ۔اس سلسلہ میں انسانی حقوق کے اداروں نے جن پانچ سو فوجی و سول افسروں کو کشمیریوں کے قتل عام کا مرتکب قرار دیا ہے کے جنگی عزائم پر بین الاقوامی ٹربیونل قائم کر نے کی تحریک کی جائے
٭ یکطرفہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات اور موضوعہ ایٹمی حملوں کی دھمکیوں سے مقبوضہ کشمیر میں خوف و حراس پیدا کر نے کے علاوہ پاک فوج اور ایٹمی اثاثوں کے خلاف بین الاقوامی مذموم بھارتی مہم کے توڑ کااہتمام کیا جائے ۔نیز پاک فوج اپنی ڈاکٹرائن تبدیل کر نے کے بجائے بھارت اور اس کے سر پرستوں کے پاکستان دشمن عزائم کے تدارک پر مرکوز رکھے ۔
٭ بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے کے فیصلے سے اعلان برات کرتے ہوئے نام نہاد کمپوزٹ ڈائیلاگ کو کشمیر میں ٹھوس پیش رفت سے مشروط کیا جائے۔
٭ ریاست کے آزاد حصوں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو آئینی لحاظ سے مربوط کر تے ہوئے قائد اعظم کے تصور کے مطابق بیس کیمپ کا کردار مو¿ثر بنایا جائے ۔