مسلم دنیا میں کشمیر کے حوالے سے بھارتی پروپیگنڈے کے توڑ اور کشمیرکے مظلوم مسلمانوں کی آواز پہنچانے کے لیے وقتاً فوقتاً بین الاقوامی اجتماعات میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے جس سے استفادہ کرتے ہوئے کانفرنسوں میں عمومی خطابات کے علاوہ شرکاء ‘ حکام ‘ ذر‘ئع ابلاغ اور پالیسی ساز حلقوں میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اجاگر کرنے ‘پاکستان اور مسلم دنیا کے حوالے سے صہیونی لابی کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ گزشتہ دنوں الجزائر کی اسلامی تحریک کے نامور قائد محفوظ النحناح کی یادمیں منعقدہ ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جو اسلامی تحریک سے وابستہ دو جماعتوں حرکۃ مجمتع السلم اورجبہۃ التغییرکے مشترکہ اہتمام سے دارالحکومت میں منعقد ہوا ۔ کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں خطاب کا موقع ملا جس میں الجزائر اور عرب دنیا کے نامور قائدین تحریک اسلامی ‘ علماء‘ دانشور ار ذرائع ابلاغ سے وابستہ مردو اور خواتین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اپنے خطاب میں مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تحریک آزادی کشمیر سے وابستگی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے منتظمین کو متوجہ کیا ۔ وہ اپنے محروم قائد کی تقلید میں خطہ فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی میں اپنا بھر پور حصہ ڈالیں ۔ کانفرنس کے دوران میں عرب دنیا سے آئے ہوئے مندوبین سے انفرادی ملاقاتوں میں بھی انہیں کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کیا اور انہیں باور کرایا کہ اہل عرب حکومتوں اور عوام سے ہمیں اسی طرح کی حمایت کی توقع ہے جس طرح مسئلہ فلسطین پر کشمیریوں کے علاوہ پاکستانی قوم اور حکومت اہل فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے ۔ انہیں یہ بھی باور کرایا کہ ایسے عالم میں جب کہ بہت سے عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات استوار کر لیے ہیں ‘دباؤ اور ترغیبات کے باوجود پاکستان کا اپنے مفادات قربان کرتے ہوئے فلسطین کاز کے ساتھ وابستہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کی قدر کی جانی چاہیے ۔
مندوبین اور ذرائع ابلاغ پر یہ بھی واضح کیا کہ کس طرح بھارت اور اسرائیل کھلے عام ایک گٹھ جوڑ کے ذریعے پاکستان سمیت مسلم دنیا کو اپنا ہدف بنا چکے ہیں ۔ایسی صورت میں بھارت کو کوئی رعایت دینا اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے ۔بحمد اﷲ ہمارا موقف ہر جگہ سنا گیا اور اسے پذیرائی بھی ملی ۔ کانفرنس میں تیونس کے رہبر انقلاب شیخ راشد الغنوشی سمیت عالم عرب کے اہم رہنماؤں سے مفید ملاقاتیں رہیں ۔ ہماری ملاقاتوں اور بریفنگز کے نتیجے میں مندوبین نے اپنے خطابات میں بھی اور باہم ملاقاتوں میں بھی ہمیں بھر پور تائید سے نوازا ۔ کانفرنس کے بعد مزید دو دن قیام کے دوران الجزائر کے حکومتی ذمہ داران سیاسی قائدین اور ذرائع ابلاغ سے مفید ملاقاتیں رہیں جس میں ہم نے انہیں باور کرایاکہ اہل الجزائر نے آزادی کی جنگ میں پندرہ لاکھ شہداء کی قربانیاں پیش کرنے والی آزادی کی تحریکوں کے لیے سنگ میل نصب کیا ہے ۔ قابض استعمار کے ہتھکنڈوں کے حوالے سے اہل الجزائر اہل کشمیر کے دکھ کو دوسری اقوام سے بہتر طور پر محسو س کر سکتے ہیں ۔ ایک کشمیری لیڈر نے اپنی سوانح عمری میں دورہ الجزائر کے دوران الجزائر کے بانی صدر احمد بن بیلا سے ملاقات کا حوالہ بھی دیا جس میں بن بیلا نے دفتر کی کھڑکی کھولتے ہوئے تاحد نظر شہداء کے قبرستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کشمیری رہنما سے کہا کہ اگر آزادی حاصل کرنا چاہتے ہو تو یوں شہداء کے قبرستان آباد کرنا پڑیں گے۔ یہ تاریخی حوالے دیتے وقت ہم نے بتایا کہ اس نصیحت پر عمل پیرا ہوتے اہل کشمیر شہداء کے قبرستان آباد کر رہے ہیں ۔ انہیں آپ کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ الجزائر عرب دنیا کا رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہونے کے علاوہ وسائل سے بھی مالا مال ہے ۔ فرانسیسی اسے سونے کی چڑیا سمجھتے ہوئے اس پر قابض ہوئے او رڈیڑھ سو سال اپنے استعماری قبضے کو بر قرار رکھنے کی کوشش کی بلکہ الجزائر کو فرانس میں مدغم کرکے اسے باقاعدہ فرانس کا حصہ بنا دیا گیا تھا لیکن جذبہ جہاد اور شوق شہادت کے ہاتھوں بالآخر استعمار کو شکست تسلیم کرنا پڑی اور الجزائر ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا جس طرح بر صغیر میں انگریزوں نے جاتے جاتے سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کی ایک ایسی نسل تیار کی جو برطانیہ کی رخصتی کے بعد اس کے مفادات اور کلچر کے محافظ بن گئے۔
اسی طرح الجزائر میں فوج بیورو کریٹس اور سیاست دانوں پر مشتمل ایک ایسا کلب معرض وجود میںآیا جس نے الجزائر کے اسلامی اور جہاد ی تشخص کو تحلیل کرنے کی کوشش کی لبرل ازم کو ہوا دی گئی ان نامساعد حالات میں الجزائر کے عوام نے اپنے دینی تشخص کو برقرار رکھا ‘ دورے کے دوران میں یہ دلچسپ معلومات بھی ملیں فرانسیسی فوج نے فوجی یلغار کے ساتھ ساتھ عیسائی مشنریز کو فوج در فوج الجزائر ارسال کیا اور ایک مرکزی چرچ تعمیر کرتے ہوئے اسے افریقہ میں عیسائیت کے فروغ کا مرکز بنا دیا گیا ۔ مشنریز کو بے پناہ وسائل بھی فراہم کیے گئے لیکن آفرین ہواہل الجزائر کی استقامت پر ڈیرھ سو سال میں ایک بھی مسلمان مرتد ہو کر عیسائی نہ بنایا جا سکا حالانکہ افریقہ کے دیگر ممالک میں پورے کے پورے ملک عیسائیت کی یلغار میں سر نگوں ہو گئے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ فرانس کے دو سابق صدور متراں اور شیراک کی ماؤں کی قبریں بھی الجزائر میں ہیں۔ دونوں لیڈر یہاں ہی پیدا ہوئے یا انہوں نے بچپن یہاں گزار ا اس سے فرانسیسیوں کے نزدیک الجزائر کی اس قدر اہمیت تھی کہ ان کی قیادت سے وابستہ خاندان الجزائر سے تعلق پر فخر محسوس کرتے تھے اور الجزائر کی تحریک آزادی کو ختم کرنا ایک قومی فریضہ بھی ۔جہاد اور قربانیوں کے اس پس منظر میں الجزائر کے خمیر میں اسلام رچا بسا ہے ۔ یہاں کوئی فرقہ رایت نہیں ہے ۔ اکثر یت امام مالک کے پیرو کار ہے ‘ لیکن مسلکی اعتبار سے کوئی تعصب کی فضا موجود نہیں ہے ۔ شہر کے وسط میں عثمانی دور خلافت کی ایک حنفی مسجد موجود ہے جس کی بہترین تزئین و آرائش کی گئی ہے ۔ یہاں حنفی امام کی اقتداء میں مالکی بڑے خشوع اور خضوع سے عبادت کرتے ہیں نہ اس ملک میں کوئی نسلی تفاوت ہے ۔ البتہ نوے کی دہائی میں الجزائر ایک سنگین خانہ جنگی کے عمل سے گزرا جس کے نتیجے میں دو لاکھ افراد نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ لاکھوں لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے اور اس خانہ جنگی میں الجزائرکو پچاس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔ یہ خانہ جنگی اس وقت شروع ہوئی جب عباسی مدنی کی قیادت میں اسلامی فرنٹ کی پہلے بلدیاتی اور بعد میں ریاستی انتخابات میں بھرپور کامیابی کے باوجود فرانس اور مغرب کے دباؤ پر انہیں اقتدار منتقل کرنے کے بجائے ان پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ا س رد عمل میں جذباتی نوجوانوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے اور ایک مسلح جنگ شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے کئی حکمران تبدیل ہوتے رہے بالآخر فوج اور اسٹیبلشمنٹ نے زمام کار ملک کے موجودہ صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ کے سپرد کی جو خود بھی تحریک آزادی کے ایک نیک نام مجاہد رہے ہیں۔ انہوں نے بڑی حکمت سے اس خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے دلیرانہ اقدامات کیے ۔ اس سلسلے میں ان کا ایک سب سے مفید قدم عام معافی تھا جس کے نتیجے میں ان لوگوں کو بھی معاف کر دیاگیا جن پر فوج اور دفاعی تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے سنگین مقدمات تھے سب مقدمات واپس لے لیے گئے جس سے ایک خوش گوار فضا ء قائم ہوئی اور پہاڑوں اور صحراؤں سے نوجوانوں نے دوبارہ آبادیوں کا رخ کیا ۔اسی طرح کسی بھی فریق کی طرف سے ہلاک ہونے والے کے لیے بھی یکساں معاوضے کا اہتمام کیاگیا اور جن لوگوں کے مکان کاروبار متاثر ہوئے انہیں بھی معاوضے دے کے مطمئن کیا گیا۔ الجزائر کے با خبر حلقوں نے یہ معلومات بھی فراہم کیں کہ محض طاقت اور اتھارٹی کے استعمال سے اس بحران سے نکلنا ناممکن تھا۔ آج کل پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت سے نبٹنے کے لیے حکمت عملی کی تشکیل کی باز گشت ہے ہمارے پالیسی سازوں کو الجزائر کے تجربہ سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
محفوظ النحناح مرحوم کو اس لحاظ سے بھی ایک قومی رہنما کی حیثیت سے تمام حلقوں میں یکساں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ انہوں نے آزمائش کے اس مرحلے میں کمال استقامت کا مظاہرہ کیا اور رد عمل میں عسکری تحریک کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ۔پر جوش نوجوانوں کو صبر کی تلقین کرتے رہے اور انہیں باور کراتے رہے کہ عسکری حکمت عملی سے تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں خانہ جنگی ہوگی جس میں ایک طرف فوج نشانہ بنے گی اور دوسری طرف نہتے عوام یا اسلام کے جذبہ سے سر شار نوجوان۔ یہ خانہ جنگی ہمارے دشمنوں کے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنے گی ۔اسی طرح فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھاتے رہے کہ طاقت سے تحریکیں ختم نہیں ہو سکتیں ۔اپنے اس موقف کی انہیں قیمت بھی ادا کرنا پڑی ۔ان کے نائب شیخ بو سلیمانی سمیت پانچ سو اہم رہنماؤں اور کارکنان کو یہ کہہ کر نشانہ بنایاگیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی ہیں ۔اس عرصے میں نوے کی دہائی کے وسط میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں شیخ محفوظ ساڑھے تین ملین سے زائد ووٹ لے کر کامیاب بھی ہوگئے لیکن ایک مرتبہ پھر فوج اور اسٹیبلشمنٹ نے نتائج تبدیل کر کے انہیں ہرا دیا گیا ۔ اس کیفیت میں انہوں نے نہایت صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور اپنے وابستگان کو اشتعال میں انتہا پسندی سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان کی وفات کے بعدان سے وابستہ اسلامی تحریک کے حلقے تین مختلف جماعتوں میں منقسم ہو گئے جن میں سے دو حمس اور جبہۃ التغییر ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہو گئے ۔ حمس کے صدر ڈاکٹر عبد الرزاق المقری ایک ہر دلعزیز شخصیت ہیں جبکہ جبہۃ التغییرکے سربراہ عبدالمجید مناصرہ بھی ایک کہنہ مشق پارلیمنٹرین اور سابق وزیر حکومت ہیں ۔ دونوں کے اتحاد سے اسلامی تحریک الجزائر میں پھر ایک موثر قوت بن کر ابھر رہی ہے ۔ ایک تیسری جماعت بھی ان ہی کی فکر سے متاثر ہے ۔ وہ اگرچہ فی الحال اس اتحاد میں شامل نہیں ہے لیکن عالم عرب کے اہم اخوانی رہنما ان سب کو متحد کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ یہ ہو سکا تو آئندہ انتخابات الجزائر میں اسلامی تحریک کو کامیاب ہونے سے کوئی نہ روک پائے گا ۔ سیمینار کی ایک نشست میں الجزائر کی انٹیلی جنس کے ایک سابق سر براہ ریٹائرڈ جنرل نے یہ انکشاف بھی کیا کہ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ڈاکٹر عبدالرزاق المقری اس وقت الجزائر کے سب سے ہر دلعزیز رہنما ہیں۔ شفاف انتخابات میں وہی الجزائر کے صدر منتخب ہو سکتے ہیں ۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ اسٹبیلشمنٹ انہیں بھی اقتدار سے دور رکھنے کی پوری کوشش کرے گی اس نے مشورہ دیا کہ آپ اپنا اصلاحی کام جاری رکھیں اورپاور پالیٹکس کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کریں ۔ الجزائر کے موجودہ صدر مسلسل بیمار ہیں ‘حال ہی میں فرانس میں زیر علاج رہنے کے بعد وطن واپس لوٹے ہیں ۔ ان کی حکومت کے وزراء اور سرکاری حکام کے بارے میں شکایات باقی مسلم دنیا میں حکمران کلب کی طرح موجود ہیں کہ وہ عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں ۔ نوجوانوں میں تبدیلی کی ایک خواہش موجود ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی کی خواہش کسی نتیجہ خیز تحریک کی شکل اختیا رکرتی ہے یا سٹیٹس کو جاری رہتا ہے ۔
الجزائر کے حکمران سیاست دان اور عوام پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ۔ الجزائر کے صدر کے سیاسی مشیر محمد علی بو غازی سے ملاقات میں انہوں نے پاکستان اور اہل کشمیر کے ساتھ اپنے والہانہ جذبات کا اظہار کیا اور بھر پور یقین دہانی کرائی کہ او آئی سی اور یو این سمیت دنیا کے ہر فورم پر ہم پاکستان اور اپنے کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں۔اسی طرح کے جذبات کا اظہار حکمران جماعت LN Fکے پارلیمانی لیڈر طاہر خاوا طہ نے بھی کیا ۔ ان سے ان کے دفتر میں بڑی خوش گوار ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ الجزائر کی آزادی کی تحریک میں پاکستان بھر پور کردار کی وجہ سے ہر فرد پاکستان سے محبت کا گرویدہ ہے ۔ انہوں نے بھی حکمران جماعت کی طرف سے بھر پور معاونت کا یقین دلایا ۔یہ انکشاف کیا کہ اس وقت بین الاسلامی پارلیمانی یونین میں الجزائر وائس چیئرمین ہے اور ان کی پارٹی کے ایک اہم رہنما اس ذمہ داری پر فائز ہیں ۔ اس پلیٹ فارم سے بھی وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے بھر پور آواز اٹھائیں گے۔ حرکت المجتمع السلم حمس کی شوری ٰکے چیئرمین برادر ابو بکر جو ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں جن کا اٹلی اور الجزائر میں وسیع کاروبار بھی ہے نے بھر پور میزبانی کا حق ادا کیا ۔ اپنے گھر پر ایک پر تکلف عشائیے کا اہتمام کیا ۔ جس میں پارٹی کے اہم رہنما شریک ہوئے ۔جن سے تفصیل کے ساتھ کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا اور طے پایا کہ پارٹی کی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں وہ کیا کیا اقدامات کریں گے۔ اسی طرح کی یقین دہانی حمس کے صدر ڈاکٹر عبدالعزیز اور جبہۃ التغییر کے سر براہ ڈاکٹر عبدالمجید المناصرۃنے بھی اپنی ملاقاتوں میں کروائی ۔ حمس کے ہیڈ کوارٹر میں ان کے نائب صدر اور سابق وزیر حکومت الہاشمی جعبوب سے ملاقات ہوئی جنہوں نے بھر پور تائید سے نوازا یہا ں حمس کے نوجوانوں کے شعبہ کے سربراہ سے بھی مفید ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ الجزائر کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں وہ کشمیر پر ایک بھر پور مہم چلائیں گے۔ الجزائر کے سب سے بڑے اخبارالخبر کے ایڈیٹوریل بورڈ سے بھی تفصیلی نشست ہوئی ۔جس میں مسئلہ کشمیر کے پس منظر ‘بھارتی مظالم کی تفصیلات ‘امت مسلمہ اور عالم انسانیت کس طرح اس جدوجہد میں ہمارا تعاون کریں یہ انٹرویو نمایاں طور پر شائع ہوا ۔
اسی طرح دیگر ریڈیو‘ ٹی وی چینلز اور اخبارات سے بھی انٹرویو ز ہوئے جن کا مفید فیڈ بیک ملا ۔ اس دور میں عرب امور کے ماہر اور ممتا زسکالر برادر راجہ خالد محمودخان بھی ہمراہ رہے ۔ جنہوں نے دورے کو مفید بنانے اور کانفرنسوں میں ترجمانی کا بھرپور حق ادا کیا اﷲ انہیں جزائے خیر عطا کرے۔ آمین۔ مختصر وقفوں میں الجزائر کے تاریخی مقامات دیکھنے کا موقع بھی ملا جن میں تہذیہب روما کے قیدی آثار دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ فلسطین سے نیلگوں سمندر کے کنارے ایک خوب صورت ہوٹل میں ہمارے قیام کا انتظام کر رکھا تھا ۔ جہاں الجزائر کے خوب صورت شہر کے نظارے کانفرنس کی تھکاوٹ اتارنے کا ذریعہ بنے ۔ الجزائر کا ساحل ڈیڑھ ہزار میل پر محیط ہے ۔یہ دنیا کے خوب صورت ساحلوں میں شمار ہوتا ہے ۔ جہاں سیاحت کے لیے بے پناہ امکانات ہیں ۔ اچھی سہولتوں اور مارکیٹنگ کے ساتھ سیاحت کی صنعت کو وسعت دی جا سکتی ہے ۔لیکن موجودہ حالات حکومت بہت ویزا دینے بھی یہی محتاط ہے ۔ہمارے دورے سے بیشتر وزیر اعظم ترکی طیب اردگان نے الجزائر کا تین روزہ دورہ کیا جس میں انہیں بے پناہ پذیرائی ملی ۔ دورے کے دوران عثمانی دور کی مساجد اور اداروں کی بحالی کا اہتمام کرتے ہوئے گم شدہ تہذیبوں ‘ رشتوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی جس کی الجزائر کے عوام و خواص نے بے پناہ تحسین کی ۔ ہمارے دورے اور سر گرمیوں کے مثبت فیڈبیک سے آگاہی اور تحسین کے لیے الجزائر کے سینئر سفارت کار دفتر تشریف لائے جنہوں نے مخلصانہ برادرانہ جذبات کا ایسا اظہار کیا ۔ ملاقات میں جب ہم نے الجزائر میں محبت کے اہل کشمیر کے لیے بہتے زمزموں کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ الجزائر کی آزادی میں پاکستان کے دیگر تاریخی کردار کے علاوہ یہ تاریخی واقعہ بھی ہر الجزازی کے دل پر نقش ہے کہ جب الجزائر کی آزادی کی تحریک کے روح رواں بن بیلا کو فرانس نے دہشتگرد قرر دیتے ہوئے ان کی آمدور رفت کو مسدود کرنے کی کوشش کی تو اس وقت پاکستان نے بن بیلا کو ڈپلومیٹک پاسپورٹ جاری کر کے اس سازش کو ناکام بنایا ۔چنانچہ وہ اسی پاسپورٹ پربین الاقوامی دورے کرتے رہے‘ اس لیے ہر الجزائری پاکستان کو تحریک آزادی کا پشتیبان تصور کرتا ہے لیکن ان برادر جذبا ت سے فائدہ اٹھانے کے لیے بد قسمتی سے حکومتی حلقوں میں کوئی ادراک نہیں الجزائر میں نہیں مسلم دنیا میں جہاں بھی جانے کا موقع ملا امکانات کا ایک وسیع سمندر موجود ہے۔ جس سے تجارتی اور سفارتی سطح پر استفادہ کیاجا سکتا ہے ۔لیکن ہمارے حکمت کاروں کی سوئی امریکہ اور مغرب پر ٹکی ہوئی ہے۔وہ اسی کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں جب کہ بھارت یہ موقع مسدود کرنے کی کوشش کر رہا۔