بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس نے جموں سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری پر 179کلومیٹر لمبی اور 10میٹر بلند کنکریٹ اور سریہ پر مشتمل دیوار برلن سے زیادہ مضبوط اور زیادہ ناقابل عبور دیوار تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے ۔ قبل ازیں اس سارے علاقے میں بارہ فٹ بلند تار بندی کا کام مکمل ہو چکا ہے جس پر اضافی فلڈ لائٹس بھی نصب کی گئی ہیں ۔ اس دیوار نے 118دیہات متاثر ہوں گے جس کے باسی شدید بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں۔Econmic Timesکے ستیش چندرا اور رائے چوہدری کی رپورٹس کے مطابق وزارت داخلہ اس منصوبے میں فنڈز فراہم کرے گی اور B.S.Fاپنی نگرانی میں یہ منصوبہ مکمل کرے گی ۔اس سلسلے میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی کٹھ پتلی حکومت سے N.O.Cحاصل کرنے کی تحریک شروع کر دی گئی ہے ۔ نیز فوجی مقاصد کے حصول کے لیے چوبیس ممبران اسمبلی کی جماعت سے حکومت کو تحریک پیش کی جا سکتی ہے جس کے لیے مقبوضہ کشمیر میں فوجی جنتا ممبران کو دباؤ اور لالچ کے ذریعے زیر دام لانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس دیوار بندی پر کام شروع کرنے سے پہلے بھارتی حکام نے اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے اس کے تجربات سے بھی استفادہ کیا ۔ دیوار بنانے کا جوا زیہ پیش کیاگیا ہے کہ خار دار تار کاٹتے ہوئے مجاہدین داخل ہو جاتے ہیں جنہیں روکنا مشکل ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارتی افواج مجاہدین سے کس قدر خوف زدہ ہیں اور ان کے مورال کی کیا سطح ہے ؟ نیز اس عمل کے ذریعے ایک پروپیگنڈا مہم بھی بھارتی حکام کے پیش نظر ہے تا کہ دنیا کو بتا سکیں کہ کشمیر میں برپا تحریک آزادی در حقیقت پاکستان سے در اندازی کی وجہ ہے ۔ بھارت کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ اس نوعیت کے دفاعی منصوبوں کی آڑ میں کشمیریوں کی زیادہ سے زیادہ زمین ہتھیائی جائے جسے حسب ضرورت غیر ریاستی باشندوں میں تقسیم کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی ڈیمو گرافی تبدیل کر دی جائے ۔ بہر حال اس کے عزائم کوئی بھی ہوں حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا یہ منصوبہ بین الاقوامی اور ریاستی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کے قطعاً منافی ہے ۔ قبل ازیں بھارت باڑ بندی کے ذریعے ایسی کوششیں کرتا رہا ہے لیکن پاک فوج کی مزاحمت سے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوا لیکن مشرف دور میں سیز فائر کے بعد بھارت نے موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے خار دار باڑ بندی کا منصوبہ کافی حد تک پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ‘ یہ باڑ بندی سیز فائر لائن سے بالعموم دو تا پانچ کلومیٹر اندر لگائی گئی ہے کئی دروں اور گھاٹیوں میں یہ فاصلہ دس کلومیٹر اندر تک پہنچ جاتا ہے۔ آبادیوں کے عین درمیان میں اس فصیل میں گیٹ رکھے گئے ہیں جو مخصوص اوقات میں کھلتے بند ہوتے ہیں یوں سیز فائر لائن سے مستقل کشمیریوں کی آمدورفت میں بے پناہ مشکلات پیدا ہو گئی ہیں ۔ بالخصوص خوشی غمی کے موقع پر چند منٹ کے فاصلے پر رہنے والے رشتے دار بھی آپس میں ملنے سے قاصر رہتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی افواج کو اس کی اجازت بھی نہیں ملنا چاہیے تھی چہ جائیکہ اب وہ دیوار برلن سے زیادہ وسیع اور بلند دیوار بنانے کے منصوبے بنا رہا ہے ۔ بھارت کے اس مذموم منصوبے کے حوالے سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھر پور تحریک جاری ہے جس کے دباؤ کی وجہ سے ابھی تک کٹھ پتلی حکومت N.O.Cجاری نہیں کر سکی لیکن اس حوالے سے جو رد عمل میں پاکستان اور آزاد کشمیر میں حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر ہونا چاہیے تھا وہ مفقود ہے ۔ یہ سردمہری بھارتی عزائم کی تکمیل کے لیے ایک لائسنس فراہم کرنے کے مترادف ہے ۔ مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے وفاقی وزیر نے اسے بھارت کا داخلہ معاملہ قرار دے کر کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے کے دعوے کی توثیق کی ہے ۔ یہ کشمیریوں کے بنیادی حقوق اور پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے سنگین مجرمانہ پالیسی ہے اس کا تدارک نہ کیاگیا تو کشمیر کاز اور پاکستان کی سلامتی کو زبردست دھچکا لگ سکتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان اس سلسلے میں بھارت سے دو طرفہ سطح پر بھی موثر احتجاج کرے اور افواج پاکستان بھی بھارت پر واضح کر یں کہ ایسی کسی کوشش کو یک طرفہ طور پر کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ نیز حکومت پاکستان یا آزاد کشمیر بین الاقوامی عدالت کا بھی دروازہ کھٹکھٹائیں ۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف کو کشمیر کاز کو بین الاقوامی سطح پر توجہ ملے گی اور دوسری طرف بین الاقوامی عدالت ہمارے موقف کے حق میں فیصلے دینے کی صورت میں بھارت کی اس مذموم حکمت عملی کو مسدود کر دے گی ۔ اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطین میں اس طرح کی دیوار بندی کے بار ے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کا فیصلہ پہلے موجود ہے جس میں اسرائیل کے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کے منافی قرار دی ہے ۔ اس نظیر کی روشنی میں قومی امکانات ہیں کہ فیصلہ کشمیریوں کے حق میں ہوگا ۔ شرط یہ ہے کہ اس کے لیے باصلاحیت ‘ قانونی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں ۔ا س حوالے سے کشمیریوں کو عوامی سطح پر بھی پر زور احتجاج کا حق استعمال کرنا چاہیے۔