افغان جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین اور کمیونزم کی شکست اور سنٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ کی آزادی کے بعد کشمیر اور فلسطین میں بھی آزادی کی تحریکیوں کو نیا اعتماد ملا بالخصوص کشمیری نوجوان پر عزم ہوئے کہ سوویت یونین کو جذبہ جہاد کے نتیجے میں شکست ہو سکتی ہے تو بھارتی استبداد بھی جذبہ حریت اور شوق شہادت کے نتیجے میں انجام سے دو چار ہو سکتا ہے ۔چنانچہ کشمیری نوجوانوں نے تمام جمہوری اور آئینی حربے آزمانے کے بعد بھارتی استبداد کو عوامی اور عسکری ہر محاذ پر چیلنج کیا ۔ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان سری نگر اقوام متحدہ کے دفتر پہنچے اور مطالبہ کیا کہ کشمیریوں سے رائے شماری کا وعدہ پورا کیا جائے۔ ان پر امن اجتماعات پر بھارتی افواج نے اندھا دھند فائرنگ کر کے کشمیریوں کے سینے چھلنی کیے ۔ لال چوک سری نگر حریت پسندوں کے لہو سے لہو لہان ہوگیا ۔ بھارتی مظالم سے ستائے ہوئے ہزاروں نوجوان جوش انتقام سے سرشار ہو کر آزاد کشمیر کے بیس میں اترنا شروع ہوئے جہاں عوام نے انہیں آنکھوں پر بٹھایا لیکن پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں اور اداروں کی باہم چپقلش اور بے اعتمادی نے آنے والے پر عزم نوجوانوں کی پہلے مرحلے پر کوئی حوصلہ افزائی نہ کی ۔ ان حالات میں جماعت اسلامی نے بھر پور میزبانی کا حق ادا کیا اور تحریک آزادی کشمیر کے عظیم پشتیبان مجاہد ملت قاضی حسین احمد رحمتہ اﷲ علیہ نے اپیل کی کہ 5فروری 1990ء کو پوری پاکستانی قوم حکومت ‘ اپوزیشن ‘ سول سوسائٹی ‘ سیاسی جماعتیں اور عوام سب مل کر اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے انہیں یہ پیغام دیں کہ وہ اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں ۔ اخلاص پر مبنی ان کی اپیل نے اپنے اثرات مرتب کیے ۔ اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے مرکز اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور اسلامی جمہوری اتحاد کے رہنما میاں محمد نواز شریف جو وزیر اعلیٰ پنجاب تھے ‘قاضی صاحب کی اپیل کی توثیق کرتے ہوئے بھر پور یکجہتی کشمیر کا مظاہرہ کیا ۔ اس وقت سے آج تک ہر سال پاکستان میں قومی سطح پر اس دن یکجہتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ اس موقع پر حکومت اپوزیشن اور پوری قوم اہل کشمیر کے ساتھ اپنی بھر پور وابستگی کا مظاہرہ کرتی ہے ۔ آج محترم قاضی حسین احمد ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن یہ اظہار یکجہتی بھی ان کا ایک صدقہ جاریہ ہے جس کا احیاء ہر سال 5فروری کے موقع پر ہوتا رہتا ہے ۔آج یکجہتی کشمیر اس عالم میں منایا جا رہا ہے کہ ایک طرف تو بھارتی جبر و استبداد و قتل غارت گری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ‘ ہزاروں شہداء کی گمنام قبریں دریافت ہو رہی ہیں اس قتل و غارت میں ملوث پانچ سو فوجی اور سول آفیسرز کی نشان دہی بھی انسانی حقوق کا کمیشن کر چکاہے جن پر مقدمات چلانے کی سفارش کی گئی ہے ۔ ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل ‘‘اور ’’ایشیا واچ‘‘ اور خود بھارت کے اہل دانش اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارتی ریاستی دہشت گردی پر سراپا احتجاج ہیں اور فوج کے خصوصی اختیارات جس کی رو سے اسے قتل عام کا لائسنس دیاگیا ہے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ قائدین حریت کی زندگیوں کو شدید خطرہ ہے ان پر حملے کیے جا رہے ہیں اور انہیں عوام سے دور رکھنے کے لیے قید و بند اور نظر بند رکھا جا رہا ہے۔ بالخصوص قائد حریت سید علی شاہ گیلانی گزشتہ تین سال سے جمعہ اور عیدین کی نماز یں بھی ادا نہیں کر سکے ۔ انہیں شہداء اور قریبی عزیزوں کے جنازوں میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ بین الاقوامی میڈیا ‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور ریلیف کے اداروں کو کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں ہے حتیٰ کہ مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر دنیا میں واحد ایسا خطہ ہے جہاں بیرونی دنیا بالخصوص پاکستان میں فون پر رابطہ کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ کشمیریوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے مسلکی اور فروعی اختلافات کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے لیکن بھارت کے ان تمام استعماری اور منفی ہتھکنڈوں کے باوجود تحریک آزادی کا جوش و خروش بر قرار ہے اور مقبوضہ ریاست کا بچہ بچہ کسی بھارتی آئینی فریم ورک کے اندر کوئی حل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ شہداء کے جنازوں اور جب کبھی موقع ملے تو قائدین حریت کے جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر لوگ تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ سید علی گیلانی کو وادی کے دو تین مقامات کولگام ‘ کپواڑہ وغیرہ میں جلسوں کی اجازت ملی جہاں لاکھوں لوگوں نے شرکت کر کے بھارت کو نوشتہ دیوار پڑھوانے کی کوشش کہ آزادی کے متوالے اس سے کم کسی حل کو قبول نہ کریں گے ۔ حال ہی میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ضلعی اجتماعات میں بھی غیر معمولی حاضری دیکھنے میں آئی ۔ بالخصوص نوجوانوں کی شرکت اور جوش خروش نے بھارتی پالیسی سازوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے ۔ بھارتی صدر اور وزیر اعظم کے دوروں کے موقع پر ہڑتالیں ہوں یا افضل گورو کی شہادت اور بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر یوم سیاہ پوری کشمیری قوم بیک زبان ہو کر نعرہ زن ہوتی ہے کہ ـ’’ہم کیا چاہتے آزادی ‘ آزادی کا مطلب کیا لا الہ الاﷲ اور بھارتی غاصبو کشمیر ہمارا چھوڑ دو …… کشمیریوں کی یہ استقامت بھارت کے اندر بھی رائے عامہ پر اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے ۔ ارون دھتی رائے اور گوتم نولکھا اور اے۔جی۔ نورانی جیسے دانشور ڈنکے کی چوٹ پر کہنے پر مجبور ہیں کہ بھار ت کی اٹوٹ انگ کی رٹ بے معنی ہے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیے بغیر بھارت کی اپنی سلامتی محفوظ نہیں ہے ۔ حال ہی میں عام آدمی پارٹی کے مرکزی رہنما پرشانت بھوشن نے بھی دو ٹوک موقف اختیار کیا کہ کشمیر میں رائے شماری کر ائی جائے ۔ البتہ نریندر مودی اور کانگریس کی قیادت انتخابی معرکہ آرائی میں ووٹ بنک مضبوط کرنے کے لیے اٹوٹ انگ کی رٹ قائم کیے ہوئے ہیں اور بھارتی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی ۔
حقائق کا ادراک کرتے ہوئے کشمیر میں فوجی انخلاء اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے بجائے فوجی قبضہ کو مزید مستحکم کرنے کے اقدامات ہو رہے ہیں ۔ کشمیریوں سے لاکھوں کنال اراضی زبردستی ہتھیا کر نئی نئی فوجی چھاؤنیاں آباد کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ ورکنگ باؤنڈری پر 154کلومیٹر طویل دیوار برلن کی طرح ایک دیوار برہمن تعمیر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی سے جوڑنے اور اسے سرحد پار دراندازی کا رنگ دینے کے لیے سیز فائر لائن پر وقتاً فوقتاً بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کو پانی سے محروم رکھنے کے لیے درجنوں ڈیمز بنائے جا رہے ہیں ۔ دریاؤں کا رخ موڑنے کے لیے منصوبے شروع کر دیے گئے جس کی واضح مثال کشن گنگا پراجیکٹ ہے جس کے نتیجے میں دریائے نیلم میں پانی کی مطلوبہ تعداد نہ ملنے کی وجہ سے نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ کے لیے پیداوار شدید طور پر متاثر ہوگی۔ اس پس منظر میں یکجہتی کشمیر کا تقاضا یہ ہے کہ
٭ حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کے بنیادی نکتہ پر قومی اتفاق رائے کا اعادہ کرے۔
٭ وزیر اعظم پاکستان 5فروری آزاد جموں وکشمیر اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کریں اور کشمیریوں کو واضح حمایت کا یقین دلائیں نیز بھارت پر واضع کریں کہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور باہم دوستی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
٭ بھارت سے بات چیت میں باہم تعلقات کو مسئلہ کشمیر پر پیش رفت سے مشروط کیا جائے اور کشمیر کو ایک Core Issueکی حیثیت سے دوبارہ اجاگر کیا جائے ۔
٭ بھارتی ریاستی دہشت گردی اور آبی جارحیت کی حکمت عملی کو اقوام متحدہ O.I.Cاور دیگر بین الاقوامی اداروں میں بے نقاب کیا جائے۔
٭ کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کی تجاویز کی روشنی میں آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کو آئینی لحاظ سے مربوط کرتے ہوئے تحریک آزادی کا حقیقی بیس کیمپ بنانے کے اقدامات کیے جائیں۔
٭ ایک مضبوط اسلامی اور جمہوری پاکستان آزادی کشمیر کا ضمن ہے ‘ لہٰذا قرار داد مقاصد کے مطابق پاکستان کو ایک عملی فلاحی اسلامی ریاست بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں اس کے نتیجے میں دہشت گردی اور خانہ جنگی کا ختم ہو سکتی ہے اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
٭ 2014ء نیٹو کے افغانستان سے انخلاء کا سال ہے اس موقعے کو سفارتی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے کشمیر پر اپنے موقف کے حق میں بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کی جائے اور بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے تا کہ وہ ریاستی دہشت گردی ختم کرنے اور فوجی انخلاء پر مجبور ہو۔