آج سے چند سال قبل Essamکے نام سے ترکی کے عظیم مدبرو رہنما ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ایک تھنک ٹینک قائم کیا تھا جو ترکی اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹس تیار کرنے کے علاوہ سالانہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرتا ہے جس میں ساری دنیا سے احباب فکر اسلامی تحریکوں کے قائدین اور سکالرز شرکت کرتے ہوئے مختلف موضوعات پر فکر انگیز مقالہ جات پیش کرتے ہیں ۔ باہم تبادلہ خیال ہوتا ہے اور اعلامیہ کی شکل میں امت مسلمہ اور عالم انسانیت کو درپیش مسائل کے حوالے سے ایک جامع موقف کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ امسال بھی یہی کانفرنس روایتی جوش و خروش سے منعقد ہوئی جس میں دنیا کے پچہتر ممالک کے دو سو نمائندوں نے شرکت کی ۔پاکستان سے جناب حافظ محمد ادریس اور جناب عبدالغفار عزیز نے جماعت اسلامی پاکستان کی نمائندگی کی اور اپنے خطابات میں کشمیریوں کی بھرپور ترجمانی کی اور امت مسلمہ کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ زبیر حفیظ اور سابق ناظم اعلیٰ زبیر صفدر نے پاکستانی نوجوانوں کی نمائندگی کی۔ کشمیر سے نمائندگی کا شرف ہمیں حاصل ہوا۔ میرے ہمراہ امور خارجہ کے معاون خصوصی راجہ خالد محمود ‘کشمیر ریلیف کے سیکرٹری جنرل طاہر صدیق شریک سفر رہے ۔ کانفرنس کا عنوان تھا ’’ نام نہاد ورلڈ آڈراورامت کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل ‘‘ ۔افتتاحی اجلاس سے ادارے کے سربراہ اورترکی کے ممتاز دانشور مرحوم اربکان کے دست راست سابق وزیر استاذ رجائے کوتان نے کانفرنس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ کانفرنس ایک ایسے عالم میں منعقد ہو رہی ہے جب امت مسلمہ بہت زیادہ سنگین مسائل سے دوچار ہے ۔ ایک طرف صہیونی سرپرستی میں ایک ایسا تہذیبی ایجنڈا مسلط کیا جا رہا ہے جو ہمارے دینی تشخص اور اقدار کو تحلیل کر رہا ہے اور دوسری طرف مسلم دنیا میں مسلکی اورنسلی اختلافات کو ابھارتے ہوئے جگہ جگہ خانہ جنگی شروع کر ا دی گئی ۔ فلسطین اور کشمیر میں مظالم میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ شام اور عراق میں خانہ جنگی ایک بڑے فتنے کا پیش خیمہ ہے ۔اراکان اور مشرقی ترکستان میں مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے ۔ مصر اور بنگلہ دیش میں اسلامی تحریکوں کے قائدین کو عدالتی قتلوں کے ذریعے شہید کیا جا رہا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان سارے مسائل کے حل کے حوالے سے مسلم دنیا کی قیادت مفلوج ‘بے حس اور بے بس بن کر رہ گئی ہے ۔ افتتاحی اجلاس میں ترکی کے نائب وزیر اعظم امراﷲ نے حکومت کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے کانفرنس کے ایجنڈے کی تائید کی اور مسلم دنیا کو درپیش مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنی حکومت کی طرف سے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ۔ راقم نے اپنے خطاب میں دیگر مسائل کے علاوہ کشمیر پر بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا ۔ آٹھ لاکھ بھارتی افواج کی طرف سے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم ‘ مسلط شدہ کالے قوانین ‘ ہزاروں شہدا کی گمنام قبریں ‘ حراستی قتل ‘ قائدین حریت باالخصوص سید علی گیلانی کی مسلسل نظر بندی اور 47سے پانچ لاکھ کشمیریوں کی شہادتوں کے علاوہ بیس لاکھ مہاجرین کو گھروں سے بے دخل کرتے ہوئے ریاست کے مسلم تشخص کو تحلیل کرنے کی بھارتی حکمت عملی پر راقم نے تفصیل سے بات کی اور یہ بھی باور کرایا کہ کشمیر کی آزادی استحکام پاکستان اور امت مسلمہ کے لیے کس قدر اہمیت رکھتی ہے ۔ کس طرح بھارت پاکستان اور آزاد کشمیر کو بنجر صحرا میں بدلنے کے لیے پانیوں کا رخ موڑ رہا ہے ۔ یہ بھی واضح کیا کہ حکومت پاکستان گزشتہ دس سال سے باہم مذاکرات سے مسئلے پر پیش رفت کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن بھارت بنیادی مسئلہ پر بات چیت کے لیے تیار نہیں ہے ۔ ان سارے انسانیت کش اقدامات میں اسے صہیونی لابی کا بھرپور تعاون اور سرپرستی حاصل ہے اور نام نہاد ورلڈ آرڈر کشمیر سمیت مسلمانوں کے دیرینہ مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ۔تجویز پیش کی کہ مسئلہ کشمیر پر ایک جامع قرار داد منظور کی جائے ۔ نیز حکومتی اور عوامی سطح پر بھارت پر بھر پور سفارتی دباؤ بڑھایا جائے تا کہ کشمیر ی مظالم سے نجات اور اپنے حق خود ارادیت جسے بھارت سمیت اقوام عالم نے تسلیم کر رکھا ہے کو حاصل کر سکیں ۔ کانفرنس میں پیش کردہ قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کر تے ہوئے پورے عالم اسلام کی طرف سے اہل کشمیر کے ساتھ بھر پور یکجہتی کا مظاہرہ کیاگیا۔ کانفرنس میں تقریباً تمام اہم مقررین نے مسئلہ کشمیر کا بھر پور تذکرہ کیا اور تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ کانفرنس کے دوران دنیا بھر سے آئے ہوئے وفود سے ملاقاتیں بھی رہیں ۔ایسی کانفرنسوں کی افادیت رہتی ہے اور ہم ایسے مواقع سے بھر پور استفادہ بھی کررتے ہیں ۔ کانفرنس کے اختتام پر سعادت پارٹی کے زیر اہتمام جشن فتح استنبول میں شرکت کا موقع ملا جس کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔اس پروگرام کے ذریعے پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ترک نوجوانوں کو اپنے عظیم الشان تاریخی ورثہ سے جوڑ دیا ۔ کانفرنس کے دوران میں بھی اور اس کے بعد چند روزہ قیام کے دوران میں وہاں سیاسی رہنماؤں ‘ عالمی شہرت رکھنی والی I.H.Hاور جانسو جیبی N.G.Os‘ میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں سے ملاقاتیں رہیں۔ سعادت پارٹی کے ہیڈ کوارٹر استاذ اربکان کے جانشین اور پارٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر مصطفی کمالک سے تفصیلی ملاقات ہوئی ۔کشمیر پر ان کے تعاون کا شکریہ ادا کیا اور انہیں متوجہ کیا کہ اپنی سرگرمیوں میں مسئلہ کشمیر کوہمیشہ زندہ رکھیں جس پر انہوں نے بھر پور یقین دہانی کرائی کہ کشمیر پر ہماری وہی کمٹمنٹ برقرار ہے جو استاذ ڈاکٹر اربکان کی تھی ‘ہم ہر محاذ پر آپ کے شانہ بشانہ ہیں ۔ایک اور نہایت اہم ملاقات وزیر اعظم ترکی کے دست راست اور پارٹی کے نائب صدر ڈاکٹر نعمان کرتمولش(Kurtumolish) سے ہوئی جوپارٹی پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور پاکستان سے بہت محبت رکھتے ہیں اور آئندہ صدارتی انتخابات میں طیب اردگان کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں یہ ترکی کے متوقع وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی پارٹی اور حکومت کی طرف سے بھر پور تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ قبل ازیں بھی ترکی نے ہمیشہ مسئلہ کشمیرکو امت مسلمہ اور انسانیت کا مسئلہ سمجھتے ہوئے ہر فورم پر ساتھ دیا ہے ۔ اب بھی ہم آپ کے شانہ بشانہ ہیں البتہ بدلتی ہوئی عالمی صورت حال میں ایک ایسی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں کشمیری ظلم سے نجات اور اپنا حق حاصل کر سکیں ۔ حکمران پارٹی کے ایک اور اہم رہنما انجینئر برہان کایا ترک جو پاک ترک پارلیمان فرینڈ شپ گروپ کے چیئرمین ہیں ‘وہ دوران تعلیم پاکستان میں ہی مقیم رہے ہیں سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں لنچ کا اہتمام کیا جس کے دوران میں دیگر ممبران پارلیمنٹ بالخصوص حزب اختلاف کے ارکان سے بھی ملاقات کا موقع ملا ۔ سب ممبران نے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔برہان وزیر اعظم اردگان کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں اور پاکستان اور جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔ انہیں تازہ ترین صورت حال سے آگاہی بھی دی اور تجویز بھی کہ پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لایا جائے ۔ نیز O.I.Cاور اقوام متحدہ جیسے اداروں میں ترکی کشمیر رابطہ گروپ کے ممبر کی حیثیت سے متحرک کردار ادا کرے جس پر انہوں نے بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی ‘البتہ یہ کہا کہ ترکی حکومت پاکستان کی صوابدید پر ہے ۔ پاکستان جو کردار ضرورت محسوس کرے حکومت ہمیں متوجہ کرے ہم وہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ مسلم دنیا اور عالم انسانیت کو درپیش مسائل کے حوالے سے کانفرنسوں اور سیمینارز کا استنبول مرکز بنتا جا رہا ہے اور اس کی N.G.Osاس میں بڑا متحرک کردار ادا کر رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ او ۔آئی ۔ سی ممالک سے وابستہ این ۔جی ۔اوز کا سیکرٹریٹ بھی استنبول میں ہے جس کے سربراہ ڈاکٹر علی کرد ایک درد مند مسلمان ہیں ۔ ان سے ان کے ہیڈ کوارٹر میں ملاقات ہوئی اور کشمیر کی صورت حال سے آگاہی کے ساتھ انہیں تجویز پیش کی کہ وہ اپنے ادارے کے زیراہتمام کشمیر پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کریں جس کا انہوں نے وعدہ کیا ۔ توقع ہے کہ یہ کانفرنس ترکی کے صدارتی انتخابات کے بعد منعقد ہو سکے گی ۔ دیگر این ۔جی ۔اوز کو بھی ہم نے ملاقاتوں میں تجویز پیش کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر کا دورہ کریں اور خود وہاں انسانی حقوق کی پامالی کا مشاہدہ کریں ۔ سب ہی نے وعدہ کیا کہ وہ اس میں پیش رفت کریں گے ۔ دورے کے دوران میں ترک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھرپور انٹرویوز ہوئے ۔ TRTترک ریڈیو ‘ ٹیلی ویژن کے نام سے حکومت کے زیر اہتمام ایک بڑا ادارہ ہے جس کی پچیس زبانوں میں نشریات ہوتی ہیں۔ اردو میں بھی ٹی وی اور ریڈیو نشریات نشر کی جاتی ہیں ۔ اس کے اردو سیکشن کے سربراہ ڈاکٹر فرقان حمیدنے تفصیلی انٹرویو کیا اور ہیڈ کوارٹر بالخصوص اپنے سیکشن کا دورہ کرایا ۔ اپنے دیگر احباب سے ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ ڈاکٹر فرقان حمید ایک باخبر صحافی ہیں ۔یونیورسٹی میں استاد بھی ہیں ۔ ترکی کے حالات پر ان کی گہری نظر ہے ۔ ان کے کالم پاکستان کے ایک قومی روزنامہ میں چھپتے رہتے ہیں ۔ پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے بہت فکر مند بھی ہیں اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش بھی کررہے ہیں ۔ ٹی۔آر۔ ٹی کے عربی سیکشن کے سربراہ ڈاکٹر محمود اوغلو بھی اسلامی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں ہمارے دیرینہ دوست ہیں ۔ ان سے بھی ان کے ہیڈ کوارٹر میں تفصیلی ملاقات ہوئی ۔ وہ اپنا ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں جس کشمیر کی صورت حال اور بھارتی عزائم بے نقاب کرتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے میڈیا کے اہم افراد سے ملاقاتوں میں بھر پور تعاون کیا ۔اس طرح الجزیرہ ٹی وی اور ترکی کے ایک معروف ٹی وی چینل 5پر بھی تفصیلی انٹرویوز ہوئے ۔ ترک نیوز ایجنسی اناطولہ کے علاوہ اہم بڑے اخبارات نے تفصیلی انٹرویوز شائع کیے۔ انقرہ میں عبدالحمید چوہدری بھی ٹی ۔آر ۔ٹی سے وابستہ ہیں ۔ وہ ایک طویل عرصہ امریکہ میں رہے۔ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے ۔ انقرہ کے صحافی حلقوں میں ایک قابل احترام نام ہے ۔انہوں نے بھی اہم ملاقاتوں کا اہتمام کیا ۔ ترکی میں یوں تو ہر ترکی کاردلش( بھائی) ہے ۔لیکن پروفیسر ڈاکٹر اویا خانم اور ڈاکٹر مغیث الدین کی جوڑی ہمارے لیے بے مثال سفیر ہیں ۔ امریکہ میں تعلیم کے دوران میں ڈاکٹر مغیث الدین اور ڈاکٹر اویا خانم رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور پھر امریکہ کے بعد ڈاکٹر مغیث ترکی ہی کے ہو کر رہ گئے اور خود ایسے ترک بنے کہ ڈاکٹر اویا خانم ترکی سے بڑھ کر پاکستانی نظر آنے لگیں۔ ڈاکٹر صاحب خوداب سلسلہ تعلم سے ریٹائر ہیں‘ لیکن ڈاکٹر اویا خانم اب بھی ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کی سربراہ ہیں اور وہ ڈاکٹر نجم الدین اربکان کے ساتھ ممبر پارلیمنٹ بھی رہیں اور سعادت پارٹی کے بین الاقوامی امور کے ماہرین شمار کی جاتی ہیں ۔ان سے کانفرنس کے دوران بھر پور ملاقات رہی ۔ ڈاکٹر اویا خانم کا کانفرنس میں خطاب بھی بڑا فکر انگیز تھا۔ انہوں نے ہمیں پابند کیا کہ واپس جانے سے پہلے ہمارے ساتھ کھانا ضرور کھائیں ۔ انہوں نے اپنے گھر پر تکلف عشائیہ کا اہتمام کیا ۔ ڈاکٹر اویا خانم کشمیر پر ترکی زبان میں ایک کتاب لکھنے کے لیے بھی تیار ہوئیں جس کے لیے انہوں نے حوالہ جات کے لیے کتب کا تقاضا کیا ۔ انشاء اﷲ جو انہیں ارسال کی جائیں گی ۔ دورہ کے آخر میں پاکستانی سفیر جناب ہارون شوکت سے سفارت خانے میں ملاقات ہوئی ۔ گزشتہ دورہ میں بھی ان سے بڑی مفید ملاقات رہی تھی ۔ پاکستان کے سفیر ترکی زبان پر بھر پور مہارت رکھتے ہیں ۔ وہاں کے حالات پر ان کی گہری نظر ہے ۔ دو طرفہ تعلقات ‘باہم تجارت اور تعلیم کے شعبے میں ترک جامعات سے استفادہ کے لیے انہوں نے اہم اقدامات کیے ہیں ۔ وہ بھی ذرائع ابلاغ میں ہمارے دورہ کا مشاہدہ کرتے رہے اور اسے بہت مفید قرار دیا اور تجویز دی کہ اس نوعیت کے دورے جس میں میڈیا اور عوامی سطح پر روابط قائم ہوں ‘سرکاری اداروں سے زیادہ مفید ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کشمیر رابطہ کونسل کے قیام کو اہم پیش رفت قرار دیا اور کہا اس پلیٹ فارم سے جس قدر کشمیری اپنا مقدمہ بین الاقوامی رائے عامہ کے سامنے پیش کر سکیں آج کے معروضی حالات اس کے بہت اثرات مرتب ہوں گے ۔ دورہ بالخصوص انقرہ اور استنبول میں اہم ملاقاتوں میں ڈاکٹر ندیم چوہدری جو گزشتہ تیس برس سے تعلیم کی تکمیل کے بعد ترکی میں مقیم ہیں اور پاکستان اور کشمیر کے ہمہ وقتی سفیر ہیں نے اہم کردار ادا کیا ۔ وہ انقرہ تک اپنی باقاعدہ مصروفیات کو موخر کر کے اپنی کار میں طویل ترین سفر کر کے ہمراہ لے گئے ۔ واپسی تک ساتھ رہے اﷲ تعالیٰ انہیں اور دیگر احباب کو اجر دے ۔ آمین۔