تازہ خبریں

نریندر مودی کی حکمت عملی اور یکجہتی کشمیر کے تقاضے

عبدالرشید ترابی

This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

abdul rasheed turabi

ریاست جموں وکشمیر پر جب برطانیہ کی آشیر باد سے کانگریسی قیادت نے مہاراجہ سے ساز باز کر کے 1947ء میں فوجی قبضہ کیا اور بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کا ڈرامہ رچایا گیا ۔ابتدائی دستاویز الحاق کے مطابق مہاراجہ کی موروثی حکمران کی حیثیت ختم کی گئی اور داخلی سطح پر صدر ریاست ' وزیر اعظم ایک دو ا یوانی پارلیمان کے ساتھ ایسی بااختیار حکومت کا جھانسا دیاگیا جو قانون سازی اور ریاست کے معاملات میں مکمل طور پر با اختیار قرار دی گئی'البتہ دفاع 'مواصلات 'کرنسی اور امور خارجہ کے محکمے مرکز کے سپرد کیے گئے ۔اس فارمولے کے مطابق شیخ عبداﷲ کو بھی شیشے میں اتارا گیا اور بالآخر ریاست کی وزارت عظمیٰ ان کے سپرد کی گئی ' لیکن آہستہ آہستہ 1949ء کے سیز فائر اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں پاس ہونے کے بعد بھارت کی مرکزی سرکار نے ریاست کے اختیارات چھیننے کا عمل شروع کر دیا ۔نہرو اور شیخ عبداﷲ کے گہرے دوستانہ مراسم کے پس منظر میں شیخ صاحب کے لیے نہرو کی حکومت کا رویہ ان کی آرزوؤں اور تمناؤں کے برعکس ثابت ہوا جس پر شیخ صاحب نے احتجاج کیا اور 1953ء میں انہیں حکومت سے فارغ کر کے جیل میں ڈال دیا گیا جبکہ ان کے ایک قریبی ساتھی بخشی غلام محمد کو کٹھ پتلی وزیر اعظم بنا دیا۔اس کے ذریعے ریاست کے اختیارات سلب کر نے کی حکمت عملی جاری رکھی اور آہستہ آہستہ گورنر اور وزیر اعظم کی جگہ وزیر اعلیٰ کی اصطلاحات میں تبدیل ہو گئیں اور ریاست کی جو داخلی خودمختاری تھی وہ بھی تحلیل ہوتی چلی گئی۔بھارتی حکمران ریاست کے عارضی الحاق کو مستقل ادغام میں بدلنے کی کوشش کرتے رہے۔
بھارتی آئین کی دفعہ 370کی روسے بھارتی یونین میں ریاست جموں وکشمیر کی ایک خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی ہے ۔ایک طرف سے تو اس دفعہ کی رو سے بھارتی صدر کو ریاست میں ایگزیکٹو آرڈر کے تحت احکامات اور قوانین نافذ کرنے کا جواز بخشا گیا ہے جبکہ دوسری طرف دفعہ 370اور دفعہ 35-Aکی رو شنی میں مہاراجہ کے سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو تحفظ دیا گیا ہے جس کی رو سے غیر ریاستی شہریوں کو قانونی طور پر نہ ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے اور نہ وہ جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹر بن سکتے ہیں ۔1947ء میں صوبہ جموں میں ایک منظم سازش کے تحت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا ۔صرف 6نومبر1947ء کے دن ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور باقی لاکھوں کو حراساں کر کے ہجرت پر مجبور کیاگیا ۔ان کی جائیدادیں اگرچہ عارضی طور پر وہاں کسٹوڈین کے سپرد کی گئیں اور پنجاب اور مغربی پاکستان میں سے غیر ریاستی سکھوں اور ہندوؤں کو جموں میں بسایا گیا جن کی تعداد اب آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔ایک طویل عرصے سے بھارتی حکومتیں سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو ختم کر کے انہیں ریاست کا مستقل شہری بنانا چاہتی ہیں تاکہ ریاست کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کر کے اس کا مسلم تشخص ختم کیا جائے ۔
قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور نے 5 فروری 1990ء کو پاکستانی قوم کی طرف سے یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا جس پر پوری پاکستانی قوم نے لبیک کہا اور بھارت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا اور پھر بعد ازاں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو مرحومہ نے بھی اس کو آن کیا جو آج تک جاری ہے اور یہ قاضی حسین احمد کا صدقہ جاریہ ہے۔اس بار یوم یکجہتی کشمیر ان حالات میں آ رہا ہے کہ نریندر مودی کشمیر کے تشخص کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور اس نے انتخابی منشور میں کشمیر کے حوالے سے دفعہ 370کو ختم کرکے اس کے بھارتی یونین میں مکمل ادغام کا اظہار کیااور ان مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے مقبوضہ ریاست کے حالیہ انتخابات میں نریندر مودی نے جارحانہ انتخابی مہم لانچ کی ۔ایک ایک علاقے میں خود دورہ کیا اور صوبہ جموں کے غیر مسلم ووٹرز کو بالخصوص اپنی اس انتہا پسندانہ سوچ سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور یہ ہدف دیا کہ ریاستی اسمبلی کی کل 87نشستوں میں سے 44سے زائد نشستوں پر بہر صورت کامیابی حاصل کرنی ہے ۔
گزشتہ ستمبر میں سیلاب سے وادی کشمیر اور جموں میں پچپن لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ان کے ریلیف اور بحالی کے عمل کو بھی اپنے انتخابی کامیابی کے لیے مشروط کیا ۔ارب ہا روپے کے وسائل جھونکنے کے باوجود نریندر مودی ایک بھی مسلم نشست پر کامیابی حاصل نہ کر سکا'البتہ صوبہ جموں کی 37میں سے 25نشستیں لینے میں کامیاب ہو گیا۔جنہیں اس وقت وہ ریاست میں اپنے بارگیننگ پوزیشن مستحکم کرنے اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔دوسری طرف مسلمان ووٹرز (بالخصوص وادی کشمیر )کے مسلمان ووٹرز نے نریندر مودی کے ایجنڈے کو ناکام کرنے کے لیے وادی میں مفتی سعید کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی(PDP)کو بڑے پیمانے پر ووٹ دیے اور بعض حلقوں میں بی جے پی کے امیدوار کو ہرانے کے لیے عمر عبداﷲ کی نیشنل کانفرنس اورکانگریس کے امیدواران کو کامیاب کیا ۔مساقبت کی اس فضا میں ایک طرف تو غیر مسلم ووٹرز کے ٹرن آؤٹ میں اضافہ ہو ااور دوسری طرف مسلم انتخابی حلقوں میں مسلمانوں نے بی جے پی کے ایجنڈے کو ناکام کرنے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے ۔حالانکہ قائدین حریت اور متحدہ جہاد کونسل نے الیکشن کے بائیکاٹ کی اپیل بھی کر رکھی تھی لیکن ووٹرز نے ووٹ ڈالتے وقت میڈیا پر برملا اپنے اس موقف کا اظہار کیا کہ ان کی تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ کمٹمنٹ اپنی جگہ برقرار ہے 'ان کے مطابق روز مرہ مسائل سے نبٹنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہماری مجبوری ہے اور اس لیے بھی کہ بی جے پی کے عزائم کو ناکام کرنا چاہتے ہیں ۔بہرحال چالاک ووٹرز نے اس مرحلے پر نریندر مودی کے 44+نشستوں کے نظریے کو ناکامی سے دوچار کر دیااور اب ایک ملحق اسمبلی قائم ہو چکی ہے جس میں 28نشستوں کے ساتھ پی ڈی پی پہلی پوزیشن پر ہے ۔25نشستیں بی جے پی کے حصے میں آئیں جبکہ 15نشستیں کانگریس اور 12نیشنل کانفرنس جبکہ چند سیٹیں آزاد اورچھوٹی پارٹیوں نے بھی حاصل کیں۔اس کیفیت میں کوئی ایک پارٹی بھی اپنے بل پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور گورنر راج نافذ کر دیا گیا ہے ۔نتیجتاً ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے۔اگرچہ مسلمان ووٹرز کی خواہش ہے کہ بی جے پی کے علاوہ باقی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں۔لیکن بھارت کی مرکزی حکومت اور بھارتی ایجنسیاں پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے اصولی اتفاق کے باوجود اختلاف وزارت اعلیٰ کی معیاد پر ہے ۔ پی ڈی پی یہ چاہتی ہے کہ آئندہ چھ سال کے لیے مخلوط حکومت کی سربراہی مفتی سعید کریں اور نائب وزیر اعظم بی جے پی کا کوئی غیر مسلم نمائندہ بن جائے ۔جبکہ بی جے پی کا اصرار ہے کہ مخلوط حکومت میں تین تین سال کی باری لگائی جائے ۔اگر بی جے پی کی شرائط پر حکومت بنی تو 1947ء کے بعد پہلی مرتبہ ریاست جموں وکشمیر میں ایک غیر مسلم وزیر اعلیٰ مستند اقتدار پر فائز ہو سکتا ہے ۔اس موقعے پر پی ڈی پی عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ اگر وہ بی جے پی کی شرائط پر مخلوط حکومت بناتی ہے تو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت سے محروم ہو سکتی ہے۔اس لیے کہ وادی کشمیر میں بالخصوص اور ریاست کے دوسرے حصوں میں بالعموم کسی بھی طور بی جے پی کے امیدوار کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان نہیں دیکھنا چاہتی۔
بی جے پی کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس وقت مرحوم کشمیری رہنما عبدالغنی لون کے صاحبزادے سجاد غنی لون جن کی پارٹی پیپلز کانفرنس کی دو نشستیں ہیں اور وہ بی جے پی کی اتحادی بھی ہیں وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے سرگرم ہیں ۔حکومت جو بھی بنائے گا بہر حال یہ طے ہے کہ مقبوضہ ریاست کی پاور پالیٹکس میں کشیدگی اور عدم استحکام کا سلسلہ جاری رہے گااور جوں جوں بی جے پی ریاست میں اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی اسی رفتار سے اس کے خلاف عوامی مزاحمت بھی مزید منظم ہوتی چلی جائے گی۔
صورت حال کے اس دباؤ کی وجہ سے حریت کانفرنس کے مختلف دھڑے بھی مشترکہ لائحہ عمل پر صلاح مشورہ کر رہے ہیں ۔اس وقت تحریک آزادی کشمیر کی اور تحریک مزاحمت کی سخت ضرورت ہے کہ حریت قائدین اپنے اس بنیادی تاسیسی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں جس سے بعض رہنماؤں کے انحراف کی وجہ سے حریت کانفرنس تقسیم ہو گئی ۔یہ اتحاد بی جے پی کی حکمت عملی کا توڑ کرنے کے لیے ایک اہم ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کے پالیسی سا زجب انتخابی عمل کے ذریعے اپنے عزائم میں نامراد ہوئے تو انہوں نے ریاست کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنے کی متوازی تدابیر اختیا رکرنا شروع کر دیں ۔مغربی پاکستان سے 1947ء میں منتقل ہونے والے آٹھ لاکھ غیر مسلم کمیونٹی کے ساتھ ساتھ 90ء کی دہائی میں جگموہن کی تحریک پر تین لاکھ بے گھر پنڈت کمیونٹی جو جموں اور دہلی کی مختلف کالونیوں میں مقیم ہیں 'کی باز آبادکاری کے لیے ہندوستان کی وزارت داخلہ نے سفارشات مرتب کیں جنہیں حکومت قانون کی شکل میں نافذ کرنا چاہتی ہے۔جن کی رو سے ایک طرف تو وادی میں پنڈتوں کی محفوظ بستیاں (جس طرح فلسطین میں یہودیوں کی محفوظ بستیاں تعمیر کی گئی ہیں )بڑے وسائل مختص کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ انہیں شہری حقوق دیے جائیں خاص طو رپر جموں میں آٹھ لاکھ ہندوؤں اور سکھوں کو سٹیٹ سبجیکٹ تسلیم کیا جائے نیز ان کے لیے اسمبلی کی آٹھ نشستیں بھی وقف کرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے ۔اگر نریندر کی حکومت خدا نخواستہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوئی تو ریاستی اسمبلی میں مسلم اور غیر مسلم ممبران میں فرق بھی ختم ہو سکتا ہے اور یہی ان کاہدف ہے ۔ان خطرات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بلا شبہ حریت کانفرنس غور و فکر کر رہی ہے لیکن بھارت کے یہ عزائم بنیادی طور پر کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی سپرٹ پر بھی سنگین وار ہے اس لیے کہ ریاست جموں وکشمیر سے جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان و آزاد کشمیر میں منتقل ہوئے ان کی جائیدادوں کو غیر ریاستی ہندوؤں اور سکھوں کے سپرد کر نا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی رو سے قطعاً ناجائز اور ناقابل برداشت امر ہے ۔
ان خطرات کے پیش نظر حکومت پاکستان کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھائے اور ہندوستان کو مجبور کرے کہ وہ ریاست کی ڈیمو گرافی کی تبدیلی کی سازشوں سے باز آ ئے۔اس لیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رو سے ناظم رائے شماری کا تقرر اس کو اختیارات اور وسائل کی فراہمی سری نگر حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہاں کسی ایسی حکومت کا مسلط ہونا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پوری سپرٹ کے خلاف ہو یقینی طو رپر تشویشناک امر ہے اور اس پر اقوام متحدہ کو خود بھی نوٹس لینا چاہیے اور حکومت پاکستان کو بھی فی الفور کردار اداکرنا چاہیے اور اس بات پر زور دینا چاہیے کہ کشمیری مسلمانوں کی جائیدادیں ہندوؤں کو سپردکرنے کے بجائے جو مہاجرین جموں وکشمیر میں بے گھر ہو کر اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں انہیں باز آباد کاری کا موقع ملنا چاہیے 'اس لیے کہ جو رائے شماری کی شرائط کا ایک بنیادی تقاضا ہے ۔
ان حالات میں قائدین حریت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کریں اور ان خطرات سے عہدہ برآ ہونے کی کوششیں کریں ۔بھارت نواز پارٹیوں اور لیڈر شپ کو بھی اب یہ باور ہوجانا چاہیے کہ حکومت کی حکمت عملی بھارتی قبضے کو دعوام بخشنے کا ذریعہ ہے ۔لہٰذا قوم پر رحم کریں اور حریت کی صفوں میں کھڑے ہو جائیں ۔حکومت پاکستان فی الفور بھارت کی حکمت عملی کو بے نقاب کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کرے ۔بالخصوص اوباما کے حالیہ دورہ بھارت سے پیدا ہونے والی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی تشکیل دے اور مسلم دنیا جیسے فطری حلیفوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائے اور فی الفور اسلام آباد میں او آئی سی کا سربراہ اجلاس منعقد کر کے جس میں چین اور روس کو بھی بطور مبصر مدعو کیا جائے ۔ یوں اپنی نئی سٹریٹیجک صف بندی کی جائے جس طرح پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے بھارتی تخریب کاری کے شواہد پیش کیے جاتے ہیں یہ ساری صورت حال قوم کے سامنے رکھی جائے اور قوم کو آنے والے ایک بڑے خطرے سے باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ کسی بڑی جارحیت سے بچنے کے لیے جذبہ جہاد سے سرشار کیا جائے ۔بھارت کا حقیقی چہرہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کیا جائے ۔برسرپیکار کشمیری حریت پسندوں کو پیغام پہنچانے کے لیے پہلے سے زیادہ یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے ۔پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا اہتمام کیا جائے ۔ریاست کے آزاد حصوں اور آزاد جموں وکشمیر گلگت بلتستان کو تحریک آزادی کشمیر کی تقویت کے لیے حقیقی بیس کیمپ بنایا جائے اور آئینی اصلاحات کے ذریعے کشمیر کاز میں ان کے کردار کا تعین کیا جائے ۔