تازہ خبریں

یوم یکجہتی کشمیر

پس منظر …اور تقاضے


عبدالرشید ترابی

This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

logo-turabi-sb

1990 ء میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ستائے ہوئے ہزاروں کشمیری نوجوان بھارتی مظالم کی داستانوں کے ساتھ آزاد کشمیر وارد ہوئے تو ان کی بڑی امیدیں اور توقعات تھیں کہ دراصل پاکستان انہیں ان مظالم سے نجات دلانے کے لئے بھر پور کردار ادا کرے گا ، لیکن بدقسمتی سے یہاں شدید سیاسی تناؤ تھا ۔حزب اقتدار اور حزب اختلا ف باہم بر سر پیکار تھے ۔ ان حالات میں جناب قاضی حسین احمد مرحوم امیر جماعت اسلامی پاکستان آگے بڑھے آزاد کشمیر کے تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز کے دورے کئے اور5 جنوری حق خود ارادیت کے موقع پر قوم سے اپیل کی کہ5فروری کو پوری قوم مجاہدین کشمیر کے ساتھ مکمل یکجہتی کر تے ہوئے انہیں یہ پیغام دے کہ وہ اس جدو جہد میں تنہا نہیں ہیں ،بلکہ پوری پاکستانی قوم ان کی پشت پر ہے ۔ ان کی اس اپیل پر جناب میاں محمد نواز شریف جو پنجاب کے وزیر اعلی تھے اور آئی ۔جے ۔آئی کے ایک مرکزی رہنماء کی حیثیت سے حزب اختلاف کی نمائندگی کر رہے تھے نے فوری حمایت کی ۔اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے بطور وزیر اعظم اور اپنی پارٹی وحکومت کی طرف سے بھر پور حمایت کا اعلان کیا ۔ یوں پہلی مرتبہ قومی سطح پر مجاہدین کشمیر کے ساتھ بھرپور یکجہتی کر تے ہوئے انہیں پیغام دیا کہ وہ اس جدو جہد میں تنہا نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم ان کی پشت پر ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ پیغام پہنچایا گیا کہ کشمیر اورپاکستان ایک ملت ہیں انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ یوں 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ایک قومی دن کی حیثیت اختیار کر گیاجو ہر سال بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔

آج یوم یکجہتی کشمیر ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کے 5اگست 2019ء کے اقدامات کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی حیثیت کو تبدیل کر دیا گیا ہے ، گزشتہ چھ ماہ سے مسلسل کر فیو اور پابندیاں ہیں، ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر کے بھارت کی دور دراز جیلوں میں بدترین مظالم اور ہتھکنڈوں کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ قائدین حریت جیلوں میں بند ہیں اور وہ وکلاء ، عزیز و اقارب اور ڈاکٹرز کی رسائی سے محروم ہیں ۔نوے سالہ قائد حریت جناب سید علی گیلانی گزشتہ 10 برس سے گھر میں قید تنہائی کاٹ رہے ہیں ، تیمار داری کر نے والے عزیز و اقارب گرفتار کر لئے گئے ہیں ۔جناب یاسین ملک ، جناب شبیر احمد شاہ ، محترمہ آسیہ اندرابی شدید بیمار ہیں ، علاج معالجہ کی سہولیات سے مرحوم ہیں ، سنٹرل بار سری نگر کے صدر جناب میاں عبدالقیوم آگرہ جیل میں شدید عارضہ قلب کا شکار ہیں ، جناب ڈاکٹر عبدالحمید فیاض امیر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پانچ ہزار سے زائد کارکنان اور ذمہ داران کے ساتھ گرفتار ہیں ، جماعت کے گرفتار رہنماؤں کو بھی بھارت کی دور دراز جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے جہاں وہ تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ ان میں سے دو بزرگ رہنما نذیر احمد کرنائی ساکن بھدرواہ اور جناب غلام محمد بٹ کپواڑی بھارتی جیلوں میں بروقت علاج معالجہ کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے شہید ہو گئے یا کر دیئے گئے ، عزیز او قارب کی بڑی تگ و دو کے بعد ان کی میتیں حاصل کی گئیں، کرفیو توڑتے ہوئے ہزاروں نوجوانوں نے ان کی نماز جنازہ میں شریک ہو کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ معاشی میدان میں سیاحت ، تجارت اور فصلات بالخصوص سیب کی فصل تباہ ہو گئی ہے ۔ ماہرین کے جائزوں کے مطابق ڈیڑھ ارب ڈالر ز سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے، لیکن ان تمام بھارتی استعماری ہتھکنڈوں کے باوجودکشمیری سرنڈر کر نے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ کشمیر ی جو اب تک نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی سے وابستہ تھے اوربھارت نواز سمجھے جاتے تھے ، جن میں فاروق عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور ان کے خاندانوں اور پارٹیوں کا ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے نتیجے میں حریت کانفرنس کی صفوں میں کھڑے ہونے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ نریندر مودی کی اس بے تدبیری نے پوری کشمیری قوم کو ایک صف میں کھڑا کر دیا ہے جو کسی اور تدبیر سے ممکن نہ تھا۔ مودی کے ان اقدامات کو کشمیریوں اور غیر مسلم اقلیات نے بھی مسترد کر دیا گیا ۔ صوبہ جموں سے تعلق رکھنے والے وکلاء کی ہر سطح کی بار ایسوسی ایشنز نے ہزاروں کی تعداد میں ایک کانفرنس کے ذریعے ان اقدامات کو مسترد کر تے ہوئے دفعہ 370 اور 35-A کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ان دفعات کے خاتمے کے بعد مودی حکومت لاکھو ں غیر ریاستی ہندؤں کو جموں وکشمیر میں آباد کر نا چاہتی ہے، ان کا پڑاؤ یقینا جموں ہو گاکیونکہ اصل جموں کو خدشہ ہے کہ معاشی استحصال کا پہلا شکار وہ ہیں اس کے لئے وہ مزاحمت کر رہے ہیں۔اسی طرح لداخ اور کارگل میں کرفیو توڑ کر ہزاروں لوگوں نے مظاہرہ کیا اور مودی کے ان اقدامات کو مسترد کر تے ہوئے ریاست کی بحالی کا مطالبہ کیا ۔جرائم چھپانے کے لئے بھارت نے نہ صرف بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے اداروں کی رسائی پر پابندی عائد کر رکھی ہے بلکہ بھارتی سیاسی رہنماؤں اور اقلیتوں کو بھی وادی میں رسائی حاصل نہیں ۔ پابندیوں کے باوجود زنذہ ضمیر صحافیوں نے کسی طور محدود سطح کے دورے کر کے اپنی رپورٹس میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کر نے میں اہم کر دار ادا کیا ۔یشونت سنہا سابق بھارتی وزیر خارجہ جو بی جے پی کے مرکزی رہنما ہیں وہ شہری حقوق گروپ کی قیادت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اپنی کئی رپورٹس پیش کر چکے ہیں ، حال ہی میں وہ وادی کا محدود سطح پر دورہ کرنے میں کامیاب ہوئے ۔اپنے دورے کے تاثرات بیان کر تے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کے ان اقدامات نے کشمیریوں کو شدید مشکلات کا شکار کر دیاہے ۔ بالخصوص ہزاروں نوجوانوں کو فدائی بمبار بننے پر مجبور کر دیا گیا ہے، وہ بھارتی افواج سے انتقام کے لئے اسلحہ اور مواقع کی تلاش میں ہیں۔اس غم و غصے کو ٹھنڈا کر نے کے لئے حال ہی میں چونتیس بھارتی مرکزی وزرا نے کشمیر کا دورہ کر تے ہوئے لوگوں کو مطمئن کر نے کی کوشش کی ،لیکن وہ نامراد لوٹے ۔ بہر حال خلاصہ یہ ہے کہ پورے مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر سراپا بغاوت ہے ۔ اس موقع پر بہت سے مجاہدین بھارتی فوج سے جھڑپوں میں شہید ہوئے ، جن کے جنازوں میں ہزاروں مردو زن نے شریک ہو کر پاکستانی پرچموں کی بہار کے ساتھ شہداء کو رخصت کرتے ہوئے اپنے عزم آزادی کا اظہار کیا ۔بین الاقوامی سطح پر بھی ان بھارتی اقدامات کو مسترد کیا گیا ۔ بھارتی لابی کی تمام تر کوششوں کے باوجود دو مرتبہ سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل نے بھارتی موقف کو مسترد کر تے ہوئے کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیا، برطانوی پارلیمان میں درجنوں کانفرنسیں ہوئیں ، یورپی پارلیمنٹ میں سینکڑوں ممبران کی طرف سے قراردادیں زیر بحث ہیں ، برطانیہ یورپ کے دیگر دارالحکومتوں ، امریکہ اور مسلم دنیا کے دارالحکومتوں میں مسلسل سرگرمیاں جاری ہیں ۔ اس عرصے میں راقم کو کوالالمپور ، استنبول ، انقرہ ، کویت اور تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر فہیم کیانی کی دعوت پر برطانیہ کی پارلیمنٹ میں اور 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کے موقع پر اور اس کے بعد کئی کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا جو تارکین وطن کے جوش و جذبے کا مظہر تھیں۔ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے بھی اقوام متحد کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایک جامع خطاب کے ذریعے کشمیر کی صورت حال اور نریندمودی کے اقدامات کو بے نقاب کیا ۔ حال ہی میں ڈیوس میں بھی انہوں نے وارننگ دی کہ دنیا کے امن کو تباہی سے بچانے کے لئے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے ۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں اگرچہ پارلیمنٹ میں متفقہ قراردادیں پیش ہوئی لیکن عوامی سطح پر بھر پور احتجاجی پروگرام صرف جماعت اسلامی نے ہی منعقد کئے۔5 اگست کے بعد امیر جماعت اسلامی سنیٹر سراج الحق صاحب نے پاکستان اور آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان کے تمام اہم مقامات پر خطابات کئے ، اسلام آباد میں ایک بڑے مارچ کا انعقاد یکجہتی کی علامت تھا۔

نریندر مودی نے کشمیر پر دہشت گردی کے بعد بھارت کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے متنازعہ شہرت بل پاس کر کے پورے بھارت کو کشمیر بنا دیا۔ آج آزادی کے وہ نعرے جووادی کے ہر در و دیوار کو ہلا گئے تھے ،پورے بھارت میں گونج رہے ہیں ۔ بھارت کے تمام اہل دانش آر ۔ایس۔ایس کے اس فاشسٹ اقدام کو بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں اور ان اقدامات کے تسلسل میں نریندمودی اور اس کے جرنیلوں کے آزاد کشمیر پر حملے اور پاک فوج کو شکست دینے کے اعلانات نے پوری دنیا میں تشویش کی ایک لہر پیدا کر دی ہے کہ ان اعلانات کو محض گیدڑ بھبکی نہ سمجھاجائے بلکہ ایک حقیقی خطرہ سمجھتے ہوئے ہر سطح پر تیاری کا اہتمام کیا جائے۔ یقینا عسکری سطح پر افواج پاکستان کی صلاحیت میں کوئی شبہ نہیں لیکن جنگیں محض فوجیں نہیں لڑتیں بلکہ قوم ان کی پشت پرہوتی ہے ۔ ہمارا سب سے بڑا اسلحہ جذبہ جہاد اور شوق شہادت ہے جسے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ، بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو شہری دفاع اور عسکری تربیت کا اہتمام کر نے کے لئے تعلیمی اداروں میں NCC اور عوامی سطح پر جانباز فورس کو بحال کیا جائے ۔سیاسی اختلافات ایک طرف رکھے ہوئے قومی یکجہتی پیدا کی جائے ۔ اس حوالے سے اہم ذمہ داری حکومت وقت کی ہے جسے فراخدلی کا مظاہرہ کر نا چاہئے ۔ سفارتی سطح پر ایک موافق فضا سے استفادہ کر نے کے لئے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا اہتمام کیا جائے اور او آئی سی کا سربراہی اجلاس منعقد کر نے کے ساتھ ساتھ ہوم ورک کے ساتھ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے اور وزیر اعظم پاکستان اور دیگر ممبران پارلیمنٹ دنیا کے اہم دارالحکومتوں کا دورہ کریں ۔