This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ حسب روایت اس مرتبہ بھی 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا قومی سطح پر فیصلہ ہو چکا ہے - یقینا ساری سرگرمیوں کے نتیجہ میں ایک مرتبہ پھر قومی سطح پر کشمیر کاز کے ساتھ تجدید عہد ہو گا اور مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک حریت سے وابستہ تمام حلقوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو گی-5 فروری کے یوم یکجہتی کشمیر کا پس منظر اور اہمیت کیا ہے اور اس کا اہتمام کیسے شروع ہوا ، اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور یکجہتی کے عملی تقاضے کیا ہیں ؟ زیر نظر مضمون میں ان سب سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے
سے بھی قبل ڈوگرہ استبداد کے خلاف اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی ہی کا تسلسل ہے ۔ 1947 ءمیں برصغیر کی تقسیم کے بنیادی اصولوں او رفارمولے کو نظر انداز کر کے بھارتی قیادت اور برطانوی واسرائے ماونٹ بیٹن نے مہاراجہ کشمیر سے ساز باز کر کے الحاق کی ایک نام نہاد دستاویز کے تحت کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیا تو ریاست میں علم بغاوت بلند ہو گیا ۔ تحریک جہاد کے نتیجے میں کشمیر کا ایک تہائی حصہ آزاد کرا لیا گیا ۔ مجاہدین کشمیر کے قدم تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ بھارت نے دام فریب بچھایا جس کے نتیجہ میں جہاد کشمیر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کے نیچے دب گیا ۔ سلامی کونسل کی ان قرار دادوں میں کشمیریوں سے یہ وعدہ کیا گیا کہ انہیں رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کافیصلہ کرنے کاموقع دیا جائے گا لیکن بھارت نے ایسی ہر کوشش کو سبو تاژ کیا او رمقبوضہ کشمیر کے مسلم تشخص او رعددی اکثریت کو ختم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا ۔خصوصا صوبہ جموں میں ساڑھے تین لاکھ مسلمان بے دری سے تہ تیغ کئے گئے،لاکھوں گھروں سے نکال دئےے گئے ۔ یہی عمل 1965ء میں پونچھ راجوری اور 1971 ءمیں کارگل میں دہرایا گیا- جو بچ گئے انہیں دین اور عقیدے سے کاٹ پھینکنے کی ہر ممکن کوشش کی جس کا کشمیریوں نے بھرپور مقابلہ کیا ۔ بالخصوص وہاں جماعت اسلامی سمیت دیگردینی اور حریت پسند تنظیموں نے سیاسی ، معاشی ، معاشرتی ، تعلیمی ہر محاذ پر بھارت کی تہذیبی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے عوام بالخصوص نوجوانوں کے دلوں میں جذبہ حریت و جہاد کو زندہ رکھا او رایک لمحہ کے لئے بھی بھارت کے قبضہ کو جائز تسلیم نہ کیا ۔ اس سارے عرصے میں کبھی محاذ رائے شماری کے نام سے ، کبھی موئے مبارک کے مقدس نام پر اور کبھی کسی دوسرے حوالے سے سیاسی محاذ پر دستیاب وسائل کے ساتھ تحریک آزادی جاری رکھی ۔ پاکستان نے بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے 1965ءمیں بین الاقوامی اداروں سے مایوس ہو کر گوریلہ جنگ کے ذریعے بھی کشمیر کی آزادی کی کوشش کی جو بعد میں تاشقند معاہدہ پر منتج ہوئی جس کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر بین الاقوامی کے بجائے ایک دو طرفہ مسئلہ بنا دیا گیا ۔1971 میں سقوط ڈھاکہ مشرقی پاکستان کے بعد شملہ معاہدہ میں رہی کسر بھی پوری کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لئے در گور کر دیا گیا ۔ شملہ معاہدہ کی رو سے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تمام سرگرمیاں اور پراپیگنڈہ بند کر دیا گیا تاکہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات خراب نہ ہوں ۔ مایوسی کے ان حالات میں بھی کشمیریوں نے خود اعتمادی کے ساتھ اپنی تحریک کو کسی نہ کسی طورپر جاری رکھا ۔ افعان جہاد کی کامیابی اور روس کی پسپائی کے بعد کشمیریوں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے ۔ا ورانہوں نے بغیر کسی بیرونی امداد کے مقبوضہ کشمیر کتمام حریت پسند تنظیمیں اور قائدین 1987 ءکے ریاستی انتخابات کے موقع پر مسلم شدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے منظم ہو گئیں ۔ اس اتحاد نے وادی کشمیر میں بالخصوص اور باقی مسلم اکثریتی علاقوں بالعموم انقلاب کی ایک لہر دوڑا دی MUF کے قائدین کا پروگرام تھا کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد اسمبلی کے پلیٹ فارم سے بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کی نفی کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا لیکن بھارت نے خوفزدہ ہو کر اندھا دھند دھاندلی کی اور من مانے نتائج کے حصول کے لئے ہر مذموم ہتھکنڈا استعمال کیا ۔ اس بھیانک دھاندلی کے بعد کشمیری نوجوان اس نتیجہ پر پہنچے کے بھارت سے آزادی کے حصول کے لئے سیاسی محاذ کے ساتھ ساتھ عسکری سطح پر بھی جدوجہد کرنا پڑے گی ۔ چنانچہ 1988 ءمیں اس حوالے سے تیاریاں شروع ہو گئیں ادھر روس کی پسپائی کے بعد دیوار برلن گر چکی تھی ۔ مشرقی یورپ کیمونزم کی گرفت سے آزاد ہو رہا تھا ۔ وسطی ایشیاء میں چھ سات مسلم ریاستیں دنیا کے نقشہ پر نمواد ہو رہی تھیں ان سارے حالات کا جذباتی اثر کشمیریوں پر بھی مرتب ہوا اور پوری قوم جذبہ آزادی سے سر شار ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اسی اثناءمیں (1989ئ) میں بھارتی پارلیمان کے لئے ریاست میں انتخابات ہوئے جس کا مکمل بائیکاٹ ہوا ۔1987ء میں مسلم متحدہ محاذ کے قیام سے لے کر 1989 ء کے بھارتی پارلیمانی انتخابات تک آزادی اور انقلاب کی لہر پوری مقبوضہ ریاست کو قبضہ میں لے چکی تھی بھارتی او ربین الاقوامی میڈیا نے شہ سرخیوں کے ساتھ اس تحریک کے اہم واقعات کو شائع اور نشر کیا لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت او رمیڈیا کے اداروں پر مہرسکو ت لگی رہی ۔
1989اسلام آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس کے موقع پر پاکستانی اور بھارتی وزراءاعظم کی مشترکہ ملاقات میں مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہ ہوا بلکہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کشمیر میں رائے شماری کے حوالے سے کئے گئے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں راجیو گاندھی یہاں تک کہہ گئے کہ
مقبوضہ کشمیر میں کوئی اضطراب نہیں ہے وہاں کے لوگ پانچ چھ مرتبہ ریاستی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اوریہ کہ وہ وہاں کے نظام سے مطمئن ہیں اور وہاں کوئی آزادی کی تحریک نہیں ہے ۔اس پر اس وقت کی پاکستانی وزیراعظم نے کہاکہ اس سلسلہ میں ہمارا اپنا موقف ہے- اس سے زائد انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت تک نہ کی اور وزار ت خارجہ سمیت پاکستان کے تمام ادارے اتنے بڑے انقلاب پرمہر بلب رہے -ان حالات میں 5 جنوری 1990 کوامیر جماعت اسلامی پاکستان جناب قاضی حسین احمد صاحب نے مقبوضہ کشمیر میں برپا ہونے والے اس عظیم انقلاب او رحکومتی اداروں اور پاکستانی میڈیا کے رویہ کے بارے میں لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے انکشاف کیا او ریہ اعلان کیا کہ اس تحریک کی پشتبانی کرنا پاکستانی حکومت او رقوم کی آئینی ، قانونی ، دینی اور سیاسی ذمہ داری ہے ۔ حکومت کی سطح پر سکوت اور اظہار لا تعلقی کے رویہ کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے اندر سخت مایوسی اور اضطراب تھا ۔ محترم قاضی صاحب اور پروفیسر خورشید احمد صاحب نے سینٹ کے اندر مقبوضہ کشمیر اور دیگر بین الاقوامی اخبارات لہرا کر ایوان اور حکومت کو متوجہ کیا کہ حکومت مقبوضہ کشمیر میں اس قدر اہم تبدیلیوں کو نظر انداز کر کے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔
جنوری ، فروری 90 19ءمیں بھارتی مظالم سے تنگ آ کر ہزاروں کی تعداد میں لوگ آزادکشمیر پہنچنا شروع ہو گئے جنہیں سنبھالنے کے لئے عوام کے تعاون سے جماعت اسلامی آزادکشمیر اور پاکستان آگے بڑھے جنہوںنے بروقت اور تاریخی کردار ادا کیا ۔ پانچ جنوری کی پریس کانفرنس ہی میں محترم قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ 5 فروری 1990ء بھرپور طورپر کشمیریو ںکے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے تاکہ کشمیریوں کو اعتماد دلایا جائے کہ پاکستان کی پوری قوم ان کی پشت پر ہے اس وقت صوبہ پنجا ب میں ا سلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تھی جبکہ مرکز میں پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی ۔ جماعت نے ان کی وساطت سے صوبہ پنجاب میں سرکاری سطح پر اس دن کو منانے کی توثیق حاصل کی ۔ میاں نواز شریف صاحب نے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے اس کی کامیابی کے لئے بھرپور کردار ادا کیا ۔ رائے عامہ کے دباﺅ کے نتیجے میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی قاضی صاحب کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے اس فیصلہ کی توثیق کی ۔یوں پہلی مرتبہ پانچ فروری 1990 کو پاکستان کی حکومت اپوزیشن ، تمام سیاسی جماعتوں اور ہر عوامی پلیٹ فارم پر یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا ۔ جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کے اندر بے پناہ مثبت پیغام پہنچا اور بھارتی استبداد کے خلاف جذبے مزید جواں ہوگئے ۔ اس کے بعد گزشتہ بیس بر س سے پانچ فروری کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا قومی دن بن چکا ہے ۔ سال بھر اندرونی او ربیرونی سازشو ںکے نتیجہ میں پاکستان کی حکومتیں کبھی ڈنوا ڈول بھی ہوئیں او ربعض اوقات تحریک آزادی سے جیسے تیسے جان چھڑانے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن ہر سال پانچ فروری کو پوری پاکستانی قوم گویا ریفرنڈم کردیتی اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایک پیغام پہنچتا ہے کہ نہ کشمیری اس جدوجہد میں تنہا ہیں او رنہ پاکستانی رائے عامہ کو نظر انداز کر کے پاکستان کی حکومتوں سے کسی فیصلے پر انگوٹھا لگایا جا سکتا ہے ۔ رائے عامہ کے اس دباﺅ کے نتیجہ میں پاکستان میں حکومت اور اداروں کی سطح پر تحریک آزادی کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے یکسوئی پیدا ہوئی ۔ چنانچہ جہاں گزشتہ بیس برس میں بھارت کے تمام مظالم کا مقابلہ کرتے ہوئے اس تحریک کا جاری رہنا معجزہ ہے وہیں پاکستان میںدرجن بھر سے زائد حکومتیں تبدیل ہونے کے باوجود تحریک آزادی کشمیر کو کامیاب بنانے کےلئے پاکستان کی قومی پالسیی جاری و ساری ہے حکومتوں کی کارکردگی کے حوالہ سے گلہ شکوہ ہونے کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی کوششوں ہی سے OIC میں حریت کانفرنس کو مبصر کا درجہ حاصل ہوا او ردیگر بین الاقوامی اور بین الاسلامی اداروں میں مسئلہ کشمیر ایک فلیش پوائنٹ کی حیثیت سے اجاگر ہوا ۔
بیس سال گزرنے کے بعد آج تحریک آزادی کشمیر فیصلہ کن اور نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکہ کی سر پرستی میں بین الاقوامی سطح پر کشمیر سمیت مسلمانوں کی تحاریک ہا ئے آزادی کو دہشت گردی کا پروانہ دے دیا گیا ہے ۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بھارت نے بین الاقوامی سطح پر سرحد پار دراندازی کی تحریک بنا کر پیش کیا اور امریکی آشیر باد کے نتیجہ میں ساری دنیا میں اس جائز تحریک کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی ۔ لائن آف کنٹرول کو تقدس دینے کی جو کوشش واشنگٹن ڈیکلریشن سے شروع ہوئی تھی- وہ باڑ لگانے کے عمل سے مکمل ہو چکی ہے -تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے بھارت کی شروع سے یہ پالیسی رہی ہے کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی تناظر سے علاقائی اور دوطرفہ سطح پر آجائے ---اور مقبوضہ کشمیر کے اندر جبر وتشدد اور لالچ و ترغیب سے ایسے حالات پیدا کر لئے جائیں تاکہ تحریک آزادی کی چنگاری تک نہ رہے - بھارت کے نزدیک یہ اس وقت ممکن ہے جب کشمیریوں کو پاکستان کے کردار سے مکمل طور پر مایوس کر دیا جائے- 9/11 کے بعد عالمی حالات سے
فائدہ اٹھاکر مسئلہ کشمیر کے کور ایشو کو کراس بارڈر ایشو بنا دیا اور امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک بھی ایک ہی قوالی کرتے پائے گئے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا ماحول پیدا ہونا چاہئے جس کے نتیجہ میں پاکستان نے یک طرفہ سیز فائر کا اعلان واہتمام کیا اور بھارت کو یہ موقع ملا کہ اس نے لائن آف کنٹرول کے تقدس کو مزید مستحکم کرنے کے لئے باڑ لگا کر ایک دیواری
برلن کھڑی کردی -
حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی بزدلانہ حکمت عملی نے کشمیر کاز کو بے پناہ نقصان پہنچایا جس کے نیتجہ میں حریت کانفرنس کی صفوں میں دراڑیں پڑیں اور مجاہدین کشمیر مبنی بر حق جدوجہد کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کردیا گیا- یہ سب کچھ اس خوش فہمی میں کیا گیا کہ بھارت نام نہاد CBMs اور Composite dialogue کے نتیجہ میں سنجیدگی سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرے گا لیکن چھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھارت کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی ہے کہ کشمیر اس کا داخلی مسئلہ ہے - اس حوالے سے نہ وہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کا مثبت جواب دیتا ہے اور نہ ہی دوطرفہ مذاکرات میں سنجیدہ ہے بلکہ مذاکرات کے عمل سے بھاگنے کے لئے سیزفائر لائن پر اس نے بلا اشتعال فائرنگ شروع کردی ہے - علاوہ ازیں آزاد کشمیر اور پاکستان میں تخریب کاری کے واقعات میں بھی " را" کی کارستانیوں کا ہر سطح پر اعتراف کیا جارہا ہے -
ان حالات میں یوم یکجہتی کشمیر بنانے کا تقاضا یہ ہے کہ ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی اختیار کردہ کشمیر پالیسی سے رجوع کیا جائے - مقام افسوس ہے کہ موجودہ حکومت کو دو برس مکمل ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی جامع پالیسی طے نہ پاسکی- بلا شبہ صدر زرداری نے حالیہ دورہ مظفرآباد کے موقع پر تحریک آزادیا کی بھرپور پشتیبانی کا وعدہ کیا لیکن محض اعلانات اور وعدے کافی نہیں ہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے - اس سلسلے میں قومی پالیسی کا احیا کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے :
٭ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی موقف کا اعادہ کرتے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھرپور تائید کی جائے
٭ بھارت سے مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو سر فہرست رکھا جائے اور مذاکرات کے عمل میں کشمیر ی قیادت کو بھی شامل کیا جائے
٭ بھارت کی ہٹ دھرمی ، انسانی حقوق کی سنگین پامالی بالخصوص دس ہزار شہداءکی گمنام قبروں کی دریافت ، وہاں مسلط شدہ کالے قوانیں اور بلااشتعال سیز فائر لائن پر فائرنگ ، آزادکشمیر اور پاکستان میں " را "کی تخریبی کاروائیوں جیسے مذموم اقدام کو بے نقاب کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں کو متحرک کیا جائے - اقوام متحدہ ، OIC اور دیگر بین الاقوامی سیاسی اور انسانی حقوق کے اداروں میں تیاری کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا جائے
٭ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو ایک سیاسی نظام میں وابستہ کرتے ہوئے اسے تحریک آزادی کا حقیقی بیس کیمپ بنایا جائے
٭ ایک مضبوط اسلامی اور جمہوری پاکستان ہی تحریک آزادی کا حقیقی پشتیبان بن سکتا ہے - اسی لئے داخلی انتشار سے نجات دلانے اور یہاں ایک صحیح اسلامی فلاحی جمہوری مملکت قائم کرنے کے لئے ٹھو س اقدامات کیے جائیں اور باہم نزاعی امور کو سلجھانے کے لئے بھی حکومت پہل قدمی کا اہتمام کرے