ہاڑی گہل ضلع باغ کا وہ تاریخی مقام ہے جہاں سے مولانا عبداللہ کفل گڑھی کی قیادت میںڈوگرہ راج کے خلاف سب سے پہلے عوامی مزاحمت کا آغاز ہوا تھا،اس تاریخی حقیقت کو بانی صدرآزاد حکومت ریاست جموںوکشمیرغازی ملت سردار ابراہیم مرحوم اور سردار عبدالقیوم سمیت دیگر قائدین نے تسلیم کیا،یہ مقام حلقہ وسطی باغ میں ہے اور اس کے اردگرد 90ہزار سے زائد آبادی ہے جو اس مرکز کے ساتھ منسلک ہے،باغ کے سب حلقوں میں اپنے اپنے سب ڈویثرن ہیں سوائے وسطی باغ کے ،شرقی باغ کا سب ڈویثرن شرقی باغ میں ہے غربی باغ کی تحیصل دھیرکوٹ ہے،فارڈ کہوٹہ جو اب ضلع بن چکاہے اس کی بھی اپنی تحصیل تھی اگر کوئی حلقہ یتیم تھا تو وہ وسطی باغ تھا۔جس کا کوئی سب ڈویثرن اور تحصیل نہیں تھی۔اس حلقے کے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے شرقی باغ جاتے تھے۔
سابق حکومت نے ہاڑی گہل کو سب ڈویثرن دینے کا اعلان کیا،یہاں کے لوگوںکا بھی احساس محرومی ختم ہوا اور ان کو بھی احساس ہوا کہ ان کا بھی اپنا ایک سب ڈویثرن ہے جہاں ان کے مسائل حل ہوںگے،ان کو دوردرازسفر نہیں کرنا پڑے گا،تین ساڑھے تین سال یہ سب ڈویثرن موجود رہا،سب ڈویثرن کے حوالے سے حلقے کے کسی بھی لیڈر اور فرد کو احتراز نہیں تھا البتہ اس کی حدبندی کے حوالے سے کچھ افراد سوال اٹھارہے تھے،ان کا سوال جائز تھا،اگر اس وقت کی حلقہ وسطی باغ کی قیادت ان کو سماعت کرتی تو شاہد یہ مسئلہ اسی وقت حل ہوچکاہوتا،مگرا س وقت کی قیادت جس کے پاس مینڈیٹ تھا وہ جعلی تھا یہ اصلی یہ الگ بحث ہے اس کو یہ کام کرنا چاہیے تھا،مگر سب کو ایک ڈنڈے سے ہانگنے کی پالیسی نے اس مسئلے کو پیچیدہ بنا دیا،آج بھی پورے حلقے کا سروے کروالیں ایک فرد بھی ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہے گا کہ اس سب ڈویثرن کو ختم ہونا چاہیے ۔جو لوگ اس سب ڈویثرن سے منسلک ہیں وہ تو ہیں ہی اس کے ساتھ مگر حلقے کے باقی لوگ بھی اس کے خلاف نہیں ہیں۔
معلوم نہیں سردار قمرالزمان نے کس بنیاد پر چودھری مجید کو قائل کیا کہ وہ یہ سب ڈویثرن منسوخ کریں،حالانکہ پیپلزپارٹی کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی حکومت ہوتی ہے عوام سے بنتی ہے اور ان کی طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں،اب کون سے حکومت کے پاس سب ڈویثرن ختم ہوگئے تھے کہ ا س کو کاٹ کر لے جایا جاتا،حکومت کے پاس وسائل ہوتے ہیں وہ چاہے تو عوام کی سہولت کے لیے ہر حلقے میں ایک سب ڈویثرن اور کئی نیابتتیں دے سکتی ہے۔سردار قمرالزمان نے جس جلسے میںسب ڈویثرن کی منسوخی کے لیے ہاتھ کھڑے کروائے اس کے بارے میں بڑی دلچسپ معلومات ہیں،کہتے ہیں کہ جلسہ گاہ میں جو حاضری تھی میں اس میں 90فیصد لوگ شرقی باغ کے تھے جو دس فیصد باقی ہیں ان میں باغ سے باہر کے لوگ جو محنت مزدوری کرتے ہیں وہ بھی تھے جو جلسہ سننے کے لیے آئے ہوئے تھے اور ایک تعداد غربی باغ کے پیپلزپارٹی کے کارکنوںکی بھی اس میں شامل تھی اگر خورد بین بھی لگا کر چیک کیا جائے تو پورے حلقہ وسطی باغ سے سات سے آٹھ سو لوگ تھے،جب سردار قمرالزمان نے ہاتھ کھڑے کروائے تو سب لوگوں نے ہاٹھ کھڑے کیے جس میں سوات اوربنوں کے پٹھان بھی شامل تھے جو جلسہ گاہ میں موجود تھے یہ حلقہ وسطی باغ کے لوگوں کے ساتھ سنگین مذاق ہے وزیر اعظم کو اس کانوٹس لینا چاہیے تھا نہ کہ منسوخی کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔
وزیر اعظم کوحلقہ وسطی باغ کا حدود اربعہ معلوم ہوتا تو شاہد یہ معاملہ نہ ہوتا ، ہاڑی گہل سب ڈویثرن سے یونین کونسل جگلڑی ، یونین کونسل راولی ،یونین کونسل کوٹھیاں، یونین کونسل تھب کو تو براہ راست فائدہ ہے جب یونین کونسل پیرپانی اور یونین کونسل چترہ کو دور پڑتاہے ا ن کو بھی راستہ نکال کر شامل کیا جاسکتاہے باغ جو نیا ضلع بناہے جہاں نئے دفتر بنے ہیں وہ بھی ان کو اتنے نزدیک نہیں ہیں کہ کہاجائے کہ وہ تو گھر میں تھے اور اب ہاڑی گہل ان کو بہت دو ر ہوگیاہے، وہ بھی کافی دور تھے چترہ اور پیرپانی میں نیابت دی جاتی تو یہ مسئلہ حل ہوجاتا، تو یہ نوبت ہی نہ آتی جو لوگ آج سڑکوں پر ہیں۔
ہاڑی گہل سے منسلک عوام آزادکشمیرکی تاریخ کی سب سے لمبی ہڑتال پر ہیں حکومت اور سردار قمرالزمان کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں،معلوم نہیں عوامی حکومت عوام کے اتنے لمبے عرصے سے مظاہرے کرنے والوں کی بات کیوںنہیں سنتی،ان کے حق پر کیوں شب خون مارا؟وزیراعظم آزاد کشمیرچوھدری مجید باغ آنا چاہتے ہیں تو وہ اپنا اعلان واپس لیں وہ سب کے وزیر اعظم ہیں،اگر سردار قمرالزمان کوئی اور سب ڈویثرن مانگ رہے ہیں تو وہ بھی دیا جائے سب ڈویثرن ختم نہیں ہوجاتا،یہ دینے سے اور آتے ہیںپہلے چند ضلعے تھے آج درجن کے قریب پہنچنے والے ہیں مزید ہوںگے اس سے عوام کو سہولیات فراہم ہوتی ہیں،یہ حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ عوام کو سہولیات فراہم کرے،پیپلزپارٹی کی مرکز میں بھی حکومت ہے وہ اپنی مرکزی حکومت کو باور کروائے کہ آزاد کشمیرمیں علاقے دور دراز ہوتے ہیں ان کو سہولیات کے لیے خصوصی پیکیج دیں،جس میں ضلع سب ڈویثرن کالجز یونیورسٹیاں ہستپال سڑکیں تاکہ یہاں کے غریب لوگوںکو فائدہ ہو، یہ کیا کہ ایک سب ڈویثرن دیا اور وہ بھی واپس لیاجائے،یہ مناسب رویہ ہے نہ طرز عمل اس کو ختم کرکے یہ منسوخ کیا جائے تاکہ یہاں کے لوگ جو ایک عرصے سے ہڑتال اور مظاہرے کررہے ہیں وہ ختم کریں اور اپنی حکومت پر اعتماد کریں اس کو ڈوگرہ حکومت سے بری حکومت خیال نہ کریں۔حکومت کویہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ڈوگرہ حکومت کے خلاف علم یہاں سے ہی علم بغاوت بلند ہوا تھا ۔