تازہ خبریں

آزادی کشمیرکی حسرت لیے الیف الدین ترابی بھی چل بسے

raja zakir

راجہ ذاکرخان


تحریک آزادی کشمیرکے نامور قائد پروفیسر الیف الدین ترابی آزادی کشمیرکی حسرت لیے دنیا فانی سے کوچ کرگئے،پروفیسر الدین ترابی کا شمار کشمیر کے ان قائدین میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی جہاد اور آزاد ی کے لیے لگائی اور کھپائی،پروفیسر الدین ترابی مقبوضہ پونچھ کی تحصیل سرن کوٹ کے گاؤں 1941ء میں پید اہوئے،یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک پاکستان پورے زور وشورسے جار ی تھی ،برصغیر کے مسلمان اپنے لیے ایک الگ وطن کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے تھے جہاں وہ اپنی زندگیاں قرآن وسنت کے نظام کے مطابق گزارسکیں،ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام جواسلام کی تجربہ گاہ بن سکے یہی مقاصد مسلمانوں کے پیش نظر تھے ،ایسی ریاست جو پوری انسانیت کے لیے ماڈل اور باعث رغبت ہو۔اس طرح کی ریاست اور مملکت کے حصول کے لیے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی اور قربانیوں کی ایک داستان رقم کی گئی۔ پروفسیر الیف ترابی نے جہاد اور جدوجہد کے ماحول میں پرورش پائی، اس ماحول کے ان پر گہرے اثرات تھے وہ مسلمانوں کو آزاد اور اسلامی دیکھنا چاہتے تھے،پروفیسر الیف الدین ترابی نے زمانہ طالب علمی سے ہی اسلام اور آزادی کے لیے جدوجہد کا آغاز کردیا،مقبوضہ کشمیرجماعت اسلامی میں شامل ہوگئے،پروفیسر الیف الدین ترابی نے 1965ء کے جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیا،قابض افواج کے خلاف جہاد کیااور پاکستان کی سلامتی ،مضبوطی اور تکمیل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا،انھوں نے جب دیکھا کہ اب کسی قیمت پر ان کا مقبوضہ پونچھ میں زندہ رہنا ممکن نہیں ہے تو انھوں نے اپنے بال بچوں سمیت پاکستان کی طرف ہجرت کی،وہ پاکستان اور سید مودودی سے دیوانگی کی حد تک محبت اور لگاؤ رکھتے تھے۔ پروفیسر الیف الدین ترابی کی نماز جنازہ کی ادائیگی تدفین کے بعد لواحقین سے اظہار تعزیت کے بعدتحریک آزادی کشمیرکے حقیقی پشتیبان اور قائد کشمیر امیرجماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر عبدالرشید ترابی نے راستے میں پروفیسر الیف الدین ترابی کے بارے میں آگاہ کیا کہ انھوں نے کن کن مراحل پرتحریک آزادی اور مہاجرین کے لیے کیا کیا خدمات انجام دیں،انھوں نے بتایاکہ 1965میں ہجرت کرکے کوٹلی جب پہنچے تو اپنے بچوں کو ادھر ہی چھوڑ کر بانی جماعت اسلامی سید مودودی سے ملنے اچھرا پہنچ گئے،الیف الدین ترابی نے کہاکہ مجھے اپنا گھر بار اور سب کچھ چھوڑ نے کا دکھ سید مودودی سے ملاقات کے بعد ختم ہوگیا،پاکستان کی سرزمین چھوم کر سب غم بھول گیا،الیف الدین ترابی نے آزاد خطے میں پہنچتے ہی یہاں سے جہاد اور خدمت کا آغاز کردیا،سید مودودی کو ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کے مسائل سے آگاہ کیا اور انھوں نے فوری طورپر ڈاکٹر نذیر شہید کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے کر مہاجرین کی آباد کاری اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے بھیج دیا،ڈاکٹر نذیر شہیداور ان کی پوری ٹیم نے اس وقت دن رات ایک کرکے مہاجرین کی خدمت کی اوران کے مسائل حل کیے۔ پروفیسرالیف الدین ترابی نے جہا د کے ساتھ ساتھ1968ء تدریس کا کام شروع کیا،1970میں ایم اے اسلامیات کیا،1972سے 1977تک وہ درس وتدریس کی خدمات انجام دیتے رہے ،1977میں وہ آزاد کشمیر میں لیکچر ر تعینات ہوئے پلندری آزاد کشمیرمیں مگر یہاں ان کے ساتھ اچھا سلوک روا نہ رکھا گیا،اس وقت کے حکمرانوں نے ان کو مزید آزمائش میں ڈال دیا،یہ وہ زمانہ تھا جب آزاد کشمیرمیں ابھی جماعت اسلامی کا وجود قائم نہیں ہوا تھا،پروفیسر الیف الدین ترابی کی صلاحیتوں اورجذبوں کو دیکھتے ہوئے مسلم کانفرنس اور سابق وزیر اعظم اور صدر سردار عبدلقیوم خان نے ان کو اپنے ساتھ رکھ لیا ،یہ آزاد کشمیر میں اسلام مائزیشن نظر آتی ہے یہ سب کام الیف الدین ترابی کا تیار کردہ ہے انھوں نے آزاد خطے میں اسلام مائزیشن کا نقشہ بنا کر دیا اورجو اس وقت ضرورت ہوسکتی تھی وہ سب بنا کر پیش کیا اور اس پر کچھ عمل بھی ہوا آج جو آزادکشمیرمیں اسلام کی رمق نظر آرہی ہے یہ کارنامہ الیف الدین ترابی کا ہے۔ پروفیسر الیف الدین ترابی 1977ء میں تعلیم کے لیے ام القرٰی یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں چلے گئے،پانچ سال تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر بھی عبور حاصل کرلیااس زمانے میں بھی انھوں نے اپنے اس مقصد کو نہیں بھولا جس کے لیے وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے تھے،انھوں نے آزاد کشمیرمیں جماعت اسلامی کے قیام کے لیے بھی بہت کوشش کیں جو رنگ لائیں اور آزاد کشمیرجماعت اسلامی 1974ء میں قائم کرلی گئی ۔پروفیسر الیف الدین ترابی کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی اب وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اسلامی انقلاب اور کشمیر کی آزاد ی کے لیے مصروف جہد ہوگئے۔ 1986ء میں وہ جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیرکے نائب امیر کے طور پر ذمہ داریاں اداکرنے لگے۔یہ وہ زمانہ تھا جب افغان جہاد بھی عروج پر تھا اور افغانوں نے نہتے ہونے کے باوجود دنیا کی بڑی سپر طاقت سے ٹکر لے لی تھی اور روسی قبضے کے خلاف برسرمیدان جہاد کررہے تھے فتح کے جھنڈے گاڑ رہے تھے،اس جہاد سے ممیز حاصل کرکے کشمیریوں نے بھی بھارت کے قبضے کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا۔ کشمیریوں نے جب آزادی کے لیے جہاد کا آغاز کیا تو الیف الدین ترابی نے آگے بڑھ کر جدوجہد کی،1990ء میں کشمیرانفارمیشن سنٹر کے ڈایکٹربنے اور میگزین کشمیرالمسلمہ جو عربی زبان میں ہے اس کے چیف ایڈیٹر بنے ،انھوں نے اس رسالے اور سنٹر کے ذریعے بھارت کو سفارتی اور ابلاغ کے محاذ پر خوب چرکے لگائے،الیف الدین ترابی نے عرب اور اسلامی ممالک میں مسئلہ کشمیرکو اجاگر کرنے کا حق اداکیا،اس دوران آزاد جموں وکشمیرکے جتنے بھی امراء رہے مولانا عبدالباری مرحوم کرنل رشید عباسی مرحوم ،عبدالرشید ترابی جو اس وقت بھی امیر ہیں اور سردار اعجاز افضل خان سب کے ساتھ انھوں نے مل کر وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو ناممکن تو نہ ہوں مگر مشکل ترین ضرور تھے۔ الیف الدین ترابی نے مسئلہ کشمیرکی فکری سفارتی محاذ پر تاریخ ساز خدمت کی،انھوں نے درجن بھر کتب لکھی ہیں جو مسئلہ کشمیرپر ہیں امت کے مسائل پر ان کا دل دھڑکتا تھا،وہ ایک اعلیٰ پائے کے مربی اور اعلیٰ پائے کے صحافی تھے پاکستان سمیت دیگرممالک کے قومی اخبارات میں ان کے مضامین تجزیے شائع ہوتے تھے جو پالیسی سازوں کے لیے بھی اور رائے عامہ کے لیے بھی یکساں مفید ہوتے تھے۔ پروفیسرا لیف الدین ترابی انٹرنشینل مسلم سکالرز یونین کے ممبرتھے،انٹرنیشنل القدس فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر تھے،جنرل کونسل عالمی قانون دفاع مقام نبوت کے ممبرتھے،اسی طرح وہ کئی اداروں کے ممبر اور فعال قائد تھے۔ان کی رحلت نے نہ صرف آزاد کشمیر کی جماعت اسلامی کو غم زدہ کیابلکہ پوری ملت کشمیراور عالمی اسلامی تحریکات بھی اس صدمے سے دوچار ہیں۔عالمی اسلامی تحریکوں کے قائدین نے امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیراور پروفیسر الیف الدین ترابی کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا۔اﷲ تعالیٰ پروفیسر الیف الدین ترابی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور تحریک آزاد ی کشمیرکوکامیابی کی منزل سے ہمکنار کرے۔