حلقہ وسطی باغ پھر توجہ کا مرکز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

raja zakir

راجہ ذاکرخان


سیاسی عمل ہی سیاسی جماعتوں کی زندگی ہے نظریاتی سیاست کی جگہ مفاداتی سیات نے ڈھیرے ڈال دیے ہیں ،جس کی وجہ سے سیاسی کارکن کا استحصال ہورہاہے ،پیسے کی چمک نے غریب نظریاتی کارکن کو بہت پیچھے دھکیل دیاہے مگر کچھ جماعتوں میں ابھی بھی نظریاتی سیاست باقی ہے وہاں سیاسی کارکنوں کی قدرموجود ہے۔بات حلقہ وسطی باغ کی ہورہی تھی،جب سے جماعت اسلامی نے سیاسی میدان میں قدم رکھا تب سے یہ حلقہ پورے آزاد کشمیرمیں توجہ کا مرکز بنا ہواہے،جماعت اسلامی نے 1996میں انتخابی عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور وسطی باغ سے سیٹ جیت کر اسمبلی میں نمائندگی حاصل کی،جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی کا تعلق اسی حلقے سے ہے اور وہ اسمبلی میں نمائندگی کرچکے ہیں،اس حلقے میں کاٹنے دار مقابلہ ہوتا ہے عبدالرشید ترابی کی وجہ سے یہ حلقہ توجہ کا مرکز بن جاتا ہے چونکہ عبدالرشید ترابی تحریک آزادی کشمیر کے حقیقی پشتیبان ہیں اور مقبوضہ کشمیرکے عوام اور قیادت سید علی گیلانی سمیت دیگر قائدین ا س حلقے کے عوام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی حقیقی آواز عبدالرشید ترابی کو اسمبلی میں پہنچائیں اور جب کہ ہندوستان کے وزیر اعظم اس حلقے کے عوام کو دھائی دیتے ہیں کہ وہ ان کو کامیاب نہ ہونے دیں،اس کشمکش کی وجہ سے بھی یہ حلقہ توجہ کا مرکزبن جاتاہے،1996میں یہ حلقہ عبدالرشید ترابی نے جیتا،2001کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی،مسلم کانفرنس سے راجہ سبیل مرحوم اور پیپلزپارٹی سے سردار قمرالزمان کے بیٹے راشد قمر میدا ن میں تھے تینوں کے درمیان کاٹنے کا مقابلہ ہوا عبدالرشیدترابی جیت سے محض 114ووٹ سے پیچھے رہ گئے ،اس پیچھے رہنے کی گئی وجوہات تھیں جس میں راویتی دھاندلی اور شناختی کارڈ کی ضبطی اور حکومتی وسائل شامل تھے،اس کے باوجود بھی جماعت اسلامی نے سخت مقابلہ کیا،2006ء میں ایک پھر میدان سجا اور اس حلقے سے جماعت اسلامی سے عبدالرشید ترابی، پیپلزپارٹی سے قمرالزمان،مسلم کانفرنس سے کرنل نسیم کے درمیان پھر کانٹے کامقابلہ ہوا اور رات کو ریٹرنگ آفیسر نے 21سو ووٹوں کی لیڈ سے عبدالرشید ترابی کی جیت کاعلان کیا اور صحافیوں کی موجودگی میں کیا،لیکن رات کو اس نتیجے کو بدل دیاگیا،یہ انتخاب زلزلہ کے بعد ہوا تھا اور متاترین کے لیے 6.5بلین ڈالر کی آمداد آئی تھی،عبدالرشید ترابی جیسا لیڈر اگر اسمبلی میں ہوتا تو اس میں کرپشن نہیں ہونی تھی عبدالرشید ترابی نے نہ خود کھانا تھا اور نہ ہی کھانے دینا تھا اس لیے فیصلہ ہواکہ ان کو اسمبلی سے باہر رکھنا ہے،اس لیے ان کااسمبلی سے باہر کیاگیا اور ایک دور میں چار وزراء اعظم تبدیل ہوئے اور متاثرین کے پیسے کو شیر مادر سمجھ کرہڑپ کیا گیا،متاثرین آج بھی در بدر ہیں،عبدالرشید ترابی کا اسمبلی میں جو کردار تھا اور ان کے حلقے میں انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ محکمہ لوکل گورنمنٹ نے مثالی قراردیا،پورے حلقے میں انصاف کے ساتھ فنڈز تقسیم کیے گئے اور پورے کے پورے پیسے منصوبوں پر لگائے گئے،میرٹ کی بات کی ہے خلاف میرٹ تقرریوں کو ایوان کے اندر بھی چیلنج کیا گیاا ورعدالتوں کے اندر بھی چیلنج کیا گیا۔عوامی حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کشمیرکو بھی تقویت دی ،نہ کھاؤ گا نہ کھانے دو گا کی پالیسی حکمران کے لیے پسند نہ تھی ۔۔
2011ء کے انتخابات میں مسلم کانفرنس ٹوٹ گئی مسلم لیگ ن باوجود میں آئی تو آزاد کشمیرمیں دو پارٹی سسٹم بھی ٹوٹ گیا ،ان انتخابات میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی سے قمرالزمان ،جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن سے عبدالرشید ترابی اور مسلم کانفرنس سے راجہ یاسین میدان میں آگئے یہاں بھی مقابلہ سخت ہونا تھا مگر مسلم لیگ ن کے سابق وزیر کرنل نسیم نے پارٹی سے بغاوت کردی اور وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں آگئے،جس کی وجہ سے سیاست کا رخ ہی بدل گیا،حالانکہ مسلم لیگ ن کی خواہش پر سیٹ ایڈجسٹ منٹ ہوئی تھی ،نومولود مسلم لیگ ن کو پھروپور فائدہ ہوا مسلم لیگ ن کے صدر راجہ فاروق حیدر نے دوٹوک اندا ز میں کہاکہ مسلم لیگ کی جیت میں جماعت اسلامی کا بنیادی کردار ہے ،وسطی حلقے میں اس بغاوت کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے لیے راستہ صاف ہوگیاا وروہ ون وے طورپر انتخابات جیت گئی قمرالزمان بڑے مارجن سے جیت گئے۔
پیچھے پانچ برس میں ایک طرف سردار قمرالزمان حکومتی وزیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور اس کی حقیقی اپوزیشن جماعت اسلامی اور عبدالرشید ترابی کرتے رہے ،سردار قمرلزمان نے پورے پانچ سال عوام کے ساتھ رابطہ نہ رکھا اور اپنے چند جیالوں کو نوازا اور باقی کارکن دیکھتے رہے ،تعمیروترقی اور دیگر کام نہ ہونے کے برابر ہوئے سردار قمرالزمان نے کہاکہ میں اپوزیشن بھی ہوں اور حکومت میں بھی ہوں اس سے ظاہر وہوتا ہے کہ وہ حکومت سے ناخوش تھے،حکومت بھی ان سے ناخوش تھی،نیلم کے قیمتی پتھروں کی فروخت نے نہ صرف حکومت بلکہ وزیر کو بھی سیاسی نقصان دیا،ممکن ہے اس سے چند پیسے تو آگئے ہوں مگر سیاسی اعتبارسے سردار قمرالزمان کو بہت نقصان ہوا۔
2016ء کے انتخابات پھر سر پر ہیں اور یہ حلقہ پھر توجہ کا مرکز بن گیا،ابھی تک اس حلقہ میں سردار قمرالزمان اور جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی متحرک ہیں اور باقی امیدوار بھی میدان میں اترنے کی تیاری کررہے ہیں،اس سال ایک نیا چہرا مشتاق منہاس بھی اتراہے ابھی تک حلقے میں اس طرح تو نہیں آئے مگر انتخابات میں حصہ لینے کی باتیں کررہے ہیں،صحافی برداری سے ان کا تعلق ہے اور سیاسی زندگی کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ سے کیاہے ۔پاکستان میں صف اول کے صحافی ہیں اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں،جب کہ 12سال بعد سردار طاہر اقبال بھی میدان میں آچکے ہیں اور وہ باغ میں اپنا شو آف پاور بھی کرچکے ہیں۔
آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے سردار قمرالزمان ،جماعت اسلامی کے عبدالرشید ترابی ،مسلم کانفرنس کے راجہ یاسین مسلم لیگ ن کے مشتاق منہاس ،جے کے پی پی کے سردار طاہر اقبال،پی ٹی آئی کے سردار گلفزار،جمعیت علماء اسلام کے،سردار مولانا عطاء الرحمان میدان میں آتے ہیں تو پھر کاٹنے کا مقابلہ ہوگا۔اگر مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کی سیٹ ایڈجسٹ منٹ ہوجاتی ہے اور عبدالرشید ترابی کو اس حلقے سے ٹکٹ مل جاتا ہے تو پھر ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکے گا،اگر سیٹ ایڈجسٹ منٹ نہیں ہوتی اور متذکراہ بالا سارے امیدوا ر میدا ن میں ہوتے ہیں تو عبدالرشید ترابی ،قمرالزمان ،سردار طاہر اقبال،مشتاق مہناس اور راجہ یاسین کے درمیان کاٹنے دار مقابلہ ہوگا تو عبدالرشید ترابی کا پلہ بھاری ہوتا ہوا نظر آرہاہے چونکہ آزاد کشمیرکی ساری قیادت اور پاکستان کی قیادت اس بار عبدالرشید ترابی کو اسمبلی میں دیکھنا چاہتے ہیں تحریک آزاد کشمیرکے لیے بھی ضروری ہے اور آزاد کشمیر کی اسمبلی کو بھی باوقار اور بااختیار بنا ناہے۔آخری فیصلہ عوام کے ہاتھ ہیں وہ کیا کرتے ہیں ؟