بھارت کے روز اول سے جارہانہ اور توسیع پسند عزائم کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ اس کے اپنے ہمسایوں چین، سری لنکا، بنگلا دیش، نیپال اور پاکستان کے ساتھ تنازعات چلے آرہے ہیں۔تاہم وہ سب سے زیادہ خائف پاکستان سے ہے اور اس کو ہی ٹارگٹ بنا رہا ہے۔ خطے میں بھارت نے یکطرفہ دوڑ شروع کر رکھی ہے اور اسے امریکہ کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔ بھارت نے 1974 میں پوکھران میں پہلے ایٹمی تجربات کے ذریعے غیر روایتی ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز کیا اس کے جواب میں پاکستان کو بھی اپنی سلامتی کے اقدامات کرنے پڑے۔ آج کل بھارتی میڈیاکی طرف سے جنگی تیاریوں کے حوالے سے جاری ہونے والی رپورٹ دراصل مکار اور عیار بنیئے کا خبث باطن ظاہر ہوا ہے۔
پاکستان بھارت کی جارحیت کا تین بار نشانہ بن چکا ہے۔ اب چوتھی مرتبہ پاکستان کے ساتھ چین کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بھارتی فوج نے پاکستان اور چین کے ساتھ بیک وقت جنگ کی تیاری شروع کر دی ہے۔ نئی ڈاکٹرائن جارحانہ ہو گی۔ بھارتی فوجی کمان کا کہنا ہے کہ 2001 میں پارلیمنٹ پر حملہ کے بعد نئی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ بھارتی فوج کو جنگ کی پوزیشن میں آنے میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کو اپنا دفاع مضبوط بنانے اور عالمی برادری کو مداخلت کا موقع مل گیا۔ بھارتی آرمی چیف جنرل دیپک کپور نے نئی دہلی میں آرمی کمانڈ کنٹرول کے بندکمرے کے سیمینار میں کہا کہ بھارت ملکی ساختہ ڈاکٹرائن میں موجود خامیاں دور کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے اب فوج جنگ کے لیے تیار ہے بھارت نے چاروں سرحدوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ جنرل دیپک کپورنے دعویٰ کیا کہ" پاکستان اور چین کے ساتھ جنگ لڑنے کے لیے فوج کو تربیت دی جا چکی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان پر حملے کے 96 گھنٹے کے اند ر ہم پاکستان پر قبضہ کر لیں گے۔ اور جنگ کی صورت میں انھیں امریکہ اور سے مدد بھی ملے گی" امریکی امداد کے حوالے سے ہمیں نظر آرہا ہے کہ کیری لوگر بل کی پاکستان دشمن اور ایٹمی بالادستی اور فوجی برتری دلانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ این۔ پی۔ٹی(N.P.T ) پر دستخط نہ کرنے کے باوجود امریکہ نے بھارت کو نئے ایٹمی پلانٹ لگانے کے لیے منصوبہ بندی اور اس کے لیے مقامات کا تعین بھی کر لیا ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکہ نے دفاعی معاہدے کے تحت اس کی فوجی استیعداد کو بڑھانے کے لیے ا قدامات شروع کر رکھے ہیں۔ تاہم بھارتی جنگی جنون اور بھارتی آرمی چیف کی محدود ایٹمی جنگ کی دھمکی کے باوجود پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان کی سلامتی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا مجاہدانہ اعلان کر دیا۔ جس کے بعد کسی کو بھی شک نہیں رہنا چاہیے کہ بھارت سمیت کسی بھی طرف سے کسی بھی قسم کے جارہانہ عزائم یا اقدامات پر دشمن کو حیران کر دینے والے ہتھیار کے استعمال سے جواب دیا جائے گا۔ تاہم بھارت کے جارحانہ عزائم اور جنگی تیاریوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ روایتی اسلحہ کے ساتھ ساتھ غیر روایتی اسلحہ کے ڈھیر بھی لگا رہا ہے۔ اس نے ہائیڈروجن بم کی تیاری بھی شروع کر دی ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ کے ہر اول دستے میں شامل ہے لیکن امریکہ کی تمام نوازشات بھارت کے ساتھ ہیں۔ امریکہ نے سول نیوکلئیر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کر کے بھارت کو نیوکلیئر کلب کا رکن تسلیم کر لیا ہے۔ بھارت کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی نہ صرف امریکہ ، روس ،فرانس ، آسٹریلیاا ور دیگر ممالک بھی فراہم کرنے کے معاہدے کر چکے ہیں ۔ ان پر عمل در آمد بھی جاری ہے۔ روس کے کئی ایٹمی ری ایکٹر ز نے بھارت میں کام شروع کر دیا ہے۔ امریکہ نے جدید ترین F-18 طیارے اور روس سخوئی اور دیگر جنگی طیارے فراہم کر رہا ہے ۔ بھارت کو پوری دنیا میں جہاں اور جتنا بھی اسلحہ ملتا ہے وہ خریدے چلا جا رہا ہے۔ آج بھارت دنیا میں اسرائیل سے اسلحہ کی خریداری کا سب سے بڑا گاہک ہے۔ UNO اور دیگر عالمی ادارے بھی بھارت کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کو نہ صرف نظرانداز کر رہے ہیں بلکہ ان کے اقدامات سے بھارت کی حوصلہ افزائی بھی ہو رہی ہے۔ جس کی بڑی مثال مسئلہ کشمیر کی ہے۔ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کے لیے استصواب قرار دیا تھا لیکن اس پر 62 سال گزرنے کے باوجود عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ (I.A.E.A ) نے بھارت کے 6نیوکلیئر ری ایکٹرز کو اپنی نگرانی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ جنرل دیپک کپورنے امریکہ اور روس کی طر ف سے جنگ کی صورت میں مدد کی بات کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا مسلمانوں کے خلاف اتحاد ثلاثہ تھا اب روس کے شامل ہونے سے اتحاد اربعہ کا روپ دھار چکے ہیں ۔ بھارت کے پاس پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہتھیار موجود ہیں اس کی تیاری اس کے جدید ترین بحری بیڑوں اور ایٹمی آبدوزوں کی بھارتی بحریہ میں شمولیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے عزائم کیا ہیں ۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئیندہ آٹھ دس ماہ سلامتی کے حوالے سے بڑے اہم ہیں۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں سے پاکستان پر موجودہ غیر اعلانیہ جنگ میں شدید ترین اضافہ ہو سکتا ہے۔ مشرقی سرحد سے مراد بھارتی حملہ ، شبخون اور یلغار ہے۔ بھارت کو 1971 میں صرف سویت یونین آف ریشیاکی حمایت حاصل تھی اب بھارت کو امریکہ ، کینیڈا، اسرائیل اور روس کی بھی حمایت حاصل ہے۔ ان ممالک کی طر ف سے ایٹمی سول معاہدے اور عسکری معاہدے وافر مقدار میں ہو چکے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں امریکہ اور برطانیہ کی واضع منصوبہ بندی سے بھارت ہی کو فیصلہ ساز حثیت حاصل ہے۔ گویا جیسا کہ ہم مغربی سرحد سے جنگ کے مزید مسلط ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس میں امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت بھی شریک ہے۔ گزشتہ انتخابات سے پہلے بھارت کی کانگرس حکومت نے ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچایا تھا۔ پاکستان کے ساتھ دشمنی کی سیاست کا نگرس کا وطیرہ ہے۔ اور بھارت میں مسلمان دشمنی کی سیاست B.J.P کی ملکیت ہے۔ ممبئی حملوں کی سازش کے ذریعے کانگرس حکومت نے انتخابات جیتنے کے لیے دنیا کے دل و دماغ جیتنے کی کوشش کی اور پاکستان کو بلیک میل کر کے امریکہ کو اپنے احداف اور مقاصد میں استعمال کر نے کے لیے ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچایا تھا۔ ایسا ہی ایک ڈرامہ 13 دسمبر 2001 کو بھارت پارلیمنٹ پر حملے کے ذریعے رچایا تھا۔ جس کا الزام I.S.I اور لشکرطیّبہ پر لگایا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد مشرقی سرحد پر بھارتی فوجیں آ گئی تھیں ۔ ممبئی حملوں کے ڈرامے کا بھارت سیاسی اور سفارتی سطح پر مکمل فائدہ اٹھا چکا ہے۔ پاکستان کو مکمل طور پر بلیک میل کر چکا ہے۔ ہمارے وزیراعظم تو اتنے بوکھلا گئے کہ I.S.I کے ڈی جی کو تفتیش کے لیے بھارت بھیجنے کا اعلان کرچکے تھے مگر آرمی چیف نے یہ سارا معاملہ ٹالا۔ بالآخر یہ ثابت ہوا جب 18 دسمبر کو اجمل قصاب کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ اجمل قصاب کا کردار ادا کرنے والے فرد نے عدالت میں انکار کر دیا کہ میں اجمل قصاب نہیں ہو ں۔ اجمل قصاب اگر کوئی فرد تھا تو وہ ممبئی حملوں میں مارا گیا ہو گا۔ اس کردار نے عدالت کو بتایا کہ وہ تو فلموں میں کام کرنے کے لیے ممبئی آیا تھا۔ جبکہ بھارتی پولیس نے چوپائی سے پاکستانی سم کے ساتھ اسے گرفتار کیا تھا۔ اور تشدد کر کے یہ اعترافی بیان لکھوایا کہ میں اجمل قصاب ہوں ۔ اس کردار نے یہ بھی بتایا کہ جیل میں ملاقات کیلئے اس کے پاس چار گورے بھی آئے تھے۔ ان میں ایک کا نام ہیڈلے تھا۔ اس کردار نے یہ بھی کہا کہ مجھے ممبئی حملوں سے کئی دن پہلے گرفتار کیا گیا تھا۔ اجمل قصاب کے نام پر سامنے لائے گئے کردار کے تازہ بیان نے بھارت کے جھوٹ کا لبادہ اتار دیا ہے اور ثابت ہو گیا ہے کہ بھارتی جھوٹ نے بھارتی اخلاقی دیوالیہ پن کو واضع کر دیا ہے۔ بھارت نے امریکہ کی نقالی کرتے ہوئے I.S.I کو بلیک میل کیا مگر اللہ تعالیٰ نے بھارت کی اخلاقی تباہی کو سامنے لاکر پاکستان اور I.S.I کو عزت دے دی۔ اب اگلے آٹھ دس ماہ بہت خطرناک ہیں ۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی طرف سے نئے کھیل اور ڈرامے ہونگے بالکل اسی طرح جس طرح 13 دسمبر 2001 کو پارلیمنٹ پر حملے کی سازش کر کے پاکستان کی سرحد پر فوج لگائی تھی۔ اب مستقبل میں نئے جھوٹ اور نئی شازشی کہانیاں بنائی جائیں گی۔
تازہ منظر میں بھارت کی قومی سلامتی کے سابق مشیر برجیش مشرہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں بھارت کی پاکستان اور چین کے ساتھ بیک وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ان کے بقول چین کشمیر کے حوالے سے پالیسی تبدیل کر چکا ہے ۔ چینی میڈیا اور تھنک ٹینک بھارت کو کمزور اور تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت میں تو پہلے ہی ہر صوبے اور ریاست میں عدم مساوات اور غیر انسانی پالیسیوں کی وجہ س درجن بھر سے زائد علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ یہ لوگ I.S.I کے لوگ نہیں ہیں بلکہ فطری سوچ کی بدولت اپنے لیے بھارت سے علیحدگی کے لیے کوشاں ہیں ۔ مہاتما گاندہی کا قتل ، اندرا گاندہی کا سکھوں کے ہاتھوں قتل، راجیو گاندہی کا تاملوں کے ہاتھوں قتل اس کا غماز ہے کہ گویا اصل مجرم تو بھارت کے اندر کا ظالمانہ نظام، ماحول، مذہب اور سیاست B.J.P کی سیاست تو ہے ہی مسلمان دشمنی پر۔ حال ہی میں ورلڈ بینک اور ایشائی بینکوں نے مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کر کے بھارت کے موقف کو مسترد کر دیا ہے۔ ارونا چل پردیش پر چین کا دعویٰ تاریخی بات ہے۔ اسی طرح کشمیر کی ریاست کے عوام کا بھارت سے الگ ہونا اور پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا اقوام متحدہ اور ساری دنیا کا تسلیم شدہ موقف ہے۔ دراصل چین کے ساتھ جنگ کا راگ الاپ کر بھارت امریکہ اور مغربی ممالک سے زیادہ سے زیادہ امداد حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔ ورنہ اصل جنگ تو بھارت پاکستان پر مسلط کیے ہوئے ہے۔ پاکستان کے اند ر کا عدم استحکام ، بلوچی سرداروں کی بغاوتوں میں نئی زندگی کا نمودار ہونا بھارتی اسلحہ قبائیلی علاقوں میں ، یہ سب کچھ وہ جنگ ہے جو بھارت کی طرف سے امریکی گود میں بیٹھ کر شروع ہوئی ہے۔ چین کا محاسرہ چونکہ امریکہ کا حسین خواب ہے لہٰذا بھارت اس کا تزکرہ کر کے امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ سے مزید امداد اور حمایت کا راستہ اپنائے ہوئے ہے۔ نئی جنگ دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق مارچ ، اپریل، مئی2010 یا اکتوبر، نومبر ،دسمبر2010 بتایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
بھارت کے بھابھا ایٹمی پلانٹ میں دھماکے کے بعد آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں دو ایٹمی سائینسدان جل کر ہلاک ہو گئے۔ بھارت کے ایٹمی پلانٹوں سے تابکاری کا اخراج اور یورینیم کی چوری کے واقعات کا تسلسل جاری ہے۔ تاہم حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ ذرا سا ایٹمی معاملے میں کسی بھی جگہ تھوڑی سی گڑ بڑ ہو جائے تو امریکہ اور یورپ کی حکومتیں اور میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ پاکستان کے محفوظ ترین ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کا غیر حقیقی پروپیگنڈہ زوروشور سے جاری رہتا ہے مگر بھارت کے "ہندوبم" انتہا پسند ہندو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کی کبھی کسی نے نہ بات کی اور نہ ہی غیر محفوظ بھارتی ایٹمی پلانٹ سے تابکاری، یورینیم کی چوری اور پینے والے پانی میں بھاری پانی ملا دینے کے واقعات کا عالمی سطح پر نوٹس لیا گیا ۔ جس سے امریکہ اور یورپ کا بھارت کے مجرمانہ خاموشی اور پاکستان کے ضمن میں دوہرا معیار کھل کر سامنے آتا ہے۔ بھابھا ایٹمی پلانٹ میں دھماکے اور دو بھارتی سائینسدانوں کی ہلاکت سے قبل بھی بھارتی ایٹمی پلانٹوں کے غیر محفوظ اقدامات اور غیر معیاری انتظامات کی وجہ سے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل انڈین نیوی کی کرائم برانچ نے یانویل سے تین افراد کو گرفتار کیا تھا جن کے قبضے سے 5 کلوگرام یورینیم برآمد ہوا تھا جسے قبضے میں لے کر بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر میں بھیجا گیا تھا۔ یہ واقعات تاراپورا اٹامک پاورا سٹیشن سے کمپیوٹر کے مختلف حصے چوری کر نے والے دو افراد کی گرفتاری کے دو دن بعد پیش آیا تھا ۔ قبل ازیں کائیگا پاور پلانٹ میں تابکاری کے اخراج یا بقول متعلقہ انتظامیہ کے بعض ناراض ملازمین کی طرف سے واٹر کولر میں بھاری پانی ملانے سے پچاس ملازمین تابکاری کا شکار ہو گئے تھے ۔ جنہیں ہسپتال پہنچایا گیا تھا۔ مگر امریکہ اور یورپ کی حکومتوں نے اس پر آنکھیں بند کر لیں ۔ اگر اس سے کوئی بہت چھوٹا سا واقع بھی پاکستان میں پیش آجاتا تو دنیا میں کہرام مچ جاتا ۔ بھارت بار بار اعلان کر رہا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام غیر محفوظ ہے اور انتہا پسندوں کے ہاتھ چڑھ سکتا ہے۔ جبکہ بھارت کے ایٹمی اثاثے تو ملازمین کے ہاتھوں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ بھارت کے دفاعی تحقیق اور ترقیاتی ادارے DRDO کے سابق اعلیٰ سائینسدان "کے ۔سنتھانم" کے اس بیان پر بہت تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا کہ 1988 میں پوکھران دوئم جوہری تجربہ ناکام رہا تھا ۔ سائینسدان کے بقول یہ تجربہ ہماری توقعات کے مطابق کامیابی سے نہیں گزرا تھا۔ اور ہمیں مزید تجربے کر نے چاہیئے ۔ اس بیان پر بھارتی مرکزی وزیر داخلہ پی چدم برم نے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا جبکہ اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرانے "سنتھانم" کے بیان کی تردید کی تھی۔ اور کہا کہ تجربہ کامیاب ہوا تھا۔ گویا جو لوگ تجربہ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ناکام ہوا اور سیاسی لوگ دنیا کو دکھانے کے لیے اس کی تردید کرتے ہیں ۔ "سنتھانم"نے پھر ایک نجی ٹیلی وژن چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت تھرمونیوکلیر تجربے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوا تھا۔ "سنتھانم" جوہری تجربہ کرنے والے مقام پر تیاریوں کے ڈائیریکٹر تھے۔ انھوں نے کہاکہ CT.BT پر دستخط کرنے سے قبل بھارت کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے مزید تجربوں کی ضرورت ہے۔ ان واقعات کو پیش نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ جتنا غیر محفوظ بھارت کا ایٹمی پروگرام ہے اتنا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ کمزور حفاظتی صورت حال، سیکورٹی کے ناقابل اعتماد نظام، ڈیزائن میں نقائص اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی اجنسی کے تجویز کردہ حفاظتی اقدامات کی عدم موجودگی نے بھارت کے نہ صرف بھارت بلکہ جنوبی ایشیاءاور پوری دنیا کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا رہتا ہے۔ 1993 میں اقوامتحدہ نے ایک رپوٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت میں ایٹمی شعبہ میں کام کرنے کے دوران خطرات کا تناسب دنیا بھر میں اوسط سے چھ سے آٹھ گنّا زیادہ ہے۔ ایک بھارتی پارلیمانی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1995 سے 1998 تک ایٹمی شعبہ میں 147 حادثات ہوئے ہیں ۔ جن میں سے اٹھایئس انتہائی خطرناک نوعیت کے تھے۔ "ڈاکٹر کوبالا کرشن "سابق چیر مین ایٹمی انرجی ریگولرٹی بورڈ انڈیا نے 1996 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کو جو رپورٹ بھیجی تھی اس میں انھوں نے مندرجہ ذیل خامیوں کی نشاندہی کی۔
1 بھارت کی نیوکلیائی تنصیبات کو 130 قسم کی مشکلات کا سامنہ ہے۔ جن میں 95 ایسی ہیں جن پر فوری قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ مستقبل میں بھارت کو کسی بڑے ایٹمی حادثے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
2 پرانے ایٹمی پاور پلانٹس میں حفاظتی اقدامات کی صورت حال اس قدر ابتر ہے کہ کسی بھی حادثے کے نتیجے میں بھارت کو جاپان جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
3 ناقص ایٹمی ٹیکنالوجی کے علاوہ ایٹمی مواد کی چوری بھی عام ہے۔ ایسے معاملات بھی شرم ناک حد تک خوفناک ہیں۔
یاد رہے 30 ستمبر2004 کو امریکی حکومت نے دو بھارتی سائنسدان © ©"ڈاکٹر سی سلیندر" اور "ڈاکٹر رائے ایس آر پرساد" پر پابندی عائد کی تھی ۔ ان دونوں پر الزام تھا کہ وہ غیر روایتی ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کسی اور ملک کو منتقل کر رہے تھے۔ 23 مارچ2007 کو امریکہ کے شہر ساﺅتھ کیرولینا میں FBI نے دو بھارتی شہری گرفتار کیے تھے ان میں سے ایک کا نام پارتھا مرتھی سودرش اور دوسرے کا نام میتھلی گوپال ہیں ۔ جو ان الیکٹرانک آلات کی غیر قانونی خرید میں ملوث تھے جو گائیڈڈ میزائل سسٹم میں استعمال ہوتے ہیں ۔ بھارتی ایمبسی کے کچھ لوگ بھی اس کام میں ان کے ساتھ شامل تھے۔ یہ تمام واقعات بھارتی حکومت دنیا سے تو چھپار ہی ہے لیکن بین الاقوامی پریس میں سب کچھ شائع ہو چکا ہے۔ بھارت کے ایٹمی ہتھیار بھارت میں دہشت گر عناصر ملازمین کو رشوت دے کر حاصل کر سکتے ہیں ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت میں ممنوعہ بلیو پرنٹس، نیوکلیائی مٹیریل اور تکنیکی صلاحتیں بھی دیگر ممالک کو فروخت ہو رہی ہیں۔ اور یہ کام بھارتی حکومت کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں ۔خدشہ یہ ہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ کئی ایٹمی معاہدے کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی پاور ، ری ایکٹر، آلات اور نیم افسودہ یورینیم جو بھارت کو فراہم کر رہا ہے اور دیگر ممالک بھی بھارت کو ایٹمی ایندھن فراہم کر رہے ہیں جس سے بھارت اندھا دھند ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے ۔ ایسے ماحول خطے میں طاقت کا توازن خراب ہو گا مگر عالمی ادارے اس کا ذرہ بھی نوٹس نہیں لے رہے۔ عالمی برادری صرف پاکستان پر دباﺅ بڑھا رہی ہے جس کا ایٹمی پروگرام انتہائی محفوظ، پر امن اورفول پروف انتظامات پر مبنی ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ہر معاملے میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے بھارت کے یہ پول کھول کر دنیا کو یہ آشکار کرے ورنہ بھارت تو پاکستان کے خلاف ہر وقت جھوٹا پروپیگنڈہ کرتا ہی رہتا ہے