تازہ خبریں

library

Islamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic Library
 
spinner

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب

تحریر : گلزاراختر کاشمیری

This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

دسمبرکا مہینہ آ گیا، میرے وطن کو دو لخت ہوئے 38 سال ہو چکے مگر مشرقی پاکستان  کی علیحدگی کو نہیں بھول سکا۔ یہ کوئی معمولی حادثہ نہ تھا۔ پاکستان اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا مگر اب تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ مگر مجموعی طور پرہماری پوری قوم کو اس نقصان کاکوئی زیادہ احساس نہیں۔ اور نہ ہی اس نقصان کا کوئی زیادہ افسوس ہے۔ جیسے یہ ایک بوجھ تھا جو اتر گیا۔ زندہ قومیں اپنے نقصانات کا جائزہ بھی لیتی ہیں، نقصان ہونے کی وجویات کا جائزہ بھی لیتی ہیں۔ اور آئندہ کیلیے اس کا تدارک بھی کرتی ہیں۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ دشمن نے بلوچستان کو پھر ڈھاکہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح مکتی با ہنی بنائی جارہی ہے۔وہی سارا منظر ہے جو 1971 میں مشرقی پاکستان میں تھا۔ ذیل میں ہم ان عوامل کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب کیا تھے۔یہ مملکت جو وجود میں آ رہی تھی اس وقت کے لوگوں کا نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ اللہ اس خدادِ مملکت کو توڑنے والے کرداروں کا کیا خشر ہوا۔

پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قربانیوں کے بعد حاصل ہواتھا۔ ان علاقوں کے لوگوں نے بھی حصولِ پاکستان کے لئے قربانیاں دی جو پاکستان کے نقشے میں آئے اور ان علاقوں کے لوگوں نے بھی بہت قربانیاں دی جن کو معلوم تھا کہ ان کا علاقہ پاکستان میں سامل نہیں ہو گا۔ اسی طرح مشرقی بنگال کے لوگوں نے بھی بے پناہ قربانیاں دیں۔ مشرقی بنگال تو ہمیشہ سے مسلم اکثریت کا علاقہ رہا ہے۔ 1881 کی مردم شماری پورے ہندوستان میں چار کروڑ دس لاکھ مسلمان تھے۔ جب کہ ان میں سے ایک کروڑ اٹھتہر لاکھ تریسٹھ ہزار (1,78,63000 ) مسلمان صرف بنگال میں تھے۔ 1905 میں جب انگریز نے بنگال کو دو حصون میں تقسیم کیاتو اس میں مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو فائدہ پہنچنے کا مکان پیدا ہوا تو ہندﺅوں نے ہنگامہ شروع کر دیا۔ 7 اگست 1905 کو مہاراجہ منند چندر نندی نے ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا نئے صوبہ مشرقی بنگال میں مسمانوں کی اکثریت ہے۔ اور ہندو محدود تعداد میں ہیں۔ اگر یہ صوبہ برقرار رہا تو ہم اپنی ہی سر زمین میں اجنبی بن جائیں گے۔ کانگرس نے تقسیم بنگال کی سخت مخالفت کی اسی وجہ سے 30 دسمبر 1906 کو ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس ہوئی ۔ جس میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس اجلاس میں برصغیر کے کونے کونے سے مسلمان سرکردہ شخصیات نے شرکت کی جن میں نواب سلیم اللہ خان ڈھاکہ نواب علی چوہدری بوگرہ بنگال جسٹس شاہ دین لاہور مولانا مظفر علی خان لاہور اور مولانا محمد علی جوہر نے بھی شرکت کی تھی۔ تو گویا مسلم لیگ جو برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تھی اس کا آغاز ڈھاکہ سے ہوا 23 مارچ 1946 کو لاہور مینار پاکستان کے مقام پر جلسہ عام میں قرارداد پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل حق کا تعلق بھی مشرقی بنگال سے تھا 1946 کے انتخابات جو قاکستان پر ریفرنڈم کی حثیت رکھتے تھے96% بنگالوں نے قیام پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ مسلم لیگ کو ان انتخابات میں جو شاندار کامیابی حاصل ہوئی وہ بنگال کے مسلمانوں کے صیح جذبات کا مظہر تھی۔ مسلمانوں نے آسام کی چونتیس(34 ) نشستوں میں سے اکتیس(31 ) نشستیں جیت لیں ۔ اس وقت سہلٹ آسام کا حصہ تھا اور بنگال کی ایک سو اکیس (121) نشستوں میں سے ایک سو اُنیس (119) پر شاندار کامیابی حاصل کر لی تھی۔ بنگال کی اسلام اور پاکستان کے لیے یہ والہانہ محبت کسی جذباتی یا وقتی وابستگی کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلم بنگال کے عوام نے انگریز اور ہندﺅوں کے ظلم و ستم کا بھرپور مقابلہ کیااور جب منزل متعین ہو گئی اور رہنمائی میسر آ گئی تو پھر وہ دیوانہ وار منزل کی جانب دوڑ پڑے۔ راستے کی مشکلات ان کا راستہ نہ روک سکیں اور پاکستان بن گیا۔ مشرقی بنگال اور سہلٹ باہم ملا دئیے گئے۔ انگریزوں نے وہاں بھی ڈنڈی ماری اور کلکتہ کو مغربی بنگال میں شامل کر لیا۔

اب سوچنے کا مقام یہ ہے کہ جو بنگال حصول باکستان کے لئے پیش پیش رہا ۔ تئیس (23 ) سال میں وہ کیا وجوہات پیش آئیں کہ یہاں کے بنگالی مسلمان مغربی پاکستان کے بھائیوں کے خلاف ہو گئے۔ اور اسلامی رشتہ ختم کر کے بنگالی ازم پر متفق ہو گئے۔ میں تقریباً نو ماہ مشرقی پاکستان میں رہ کر آیا ہوں۔ مختلف مکتب فکر کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ ان میں سے پڑھے لکھے لوگ بھی تھے اور ان پڑھ بھی، سرکاری آفیسران تھے اور بیوروکریٹ بھی۔ سیاسی جماعتوںکے لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اور سماجی شخصیات سے بھی اساتذہ بھی ملے اور ہر سطح کے طالب علم بھی۔اس موضوع پر مختلف مضامین بھی پڑھے اور کتابیں بھی مگر ان مضامین اور کتب میں کافی تشنگی محسوس کی۔میرا دعویٰ تو نہں کہ میں نے اس کا حق ادا کر دیا نہ ہی کسی چھوٹے سے مضمون میں اس ساری حقیقت کو واضع کیا جا سکتا ہے اس کے لئے تو ایک کتاب کی ضرورت ہے۔ میں نے جو کچھ اخذ کیا وہصرف اشارے میں تفصیل نہیں۔

بیورو کریسی کا ناروہ رویہ

نفرت کا سب سے پہلا بیج ہمارے ان سرکاری آفیسران نے بویا جو قیام پاکستان کے بعد سرکاری آفیسران مشرقی پاکستان میں گئے۔ ان کی ایک اچھی خاصی تعداد نے وہاں کچھ اچھا رویہ اختیار نہ کیا۔ وہ انگریز کے تربیت یافتہ تھے انہوں نے انگریزوں کے ان طرز عمل کی نقل اتاری جو وہ غیر قوم پر حکومت کرنے پر اختیار کرتا تھا۔ یہ آفیسران ان انگریزوں کے شاگرد تھے۔

یہ وہ سبب ہے جس نے چند سال کے اندر مشرقی پاکستان کے عام باشندوں میں یہ احساس پیدا کر دیا کہ ان کو ایک نو آبادی بنا کر رکھا گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ لوگ اردو بولنے والے تھے۔ چاہے وہ مغربی پاکستان سے گئے یا بھارت سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ مشرقی پاکستان کے عام لوگ اردو کو مغربی پاکستان کی زبان سمجھتے تھے۔ اس لئے وہاں کے عوام نے یہ سمجھا کہ اصل پاکستان تو مغربی پاکستان ہے۔ہم اس کی ایک کالونی بنا یئے گئے ہیں۔ آگ تیل کا کام ہمارے بعض مغرب زدہ آفیسروں کی فرنگی تہذیب نے کیا۔ مشرقی پاکستان میں جو لوگ انگریزی حکومت میں بڑے عہدوں پر پہنچے تھے مگر انہوں نے اپنے دین اور اپنی ثقافت کو نہ چھوڑا تھا۔ اس لئے بنگالی مسلمانوں کی آنکھیں ایسے مسلمانوں کو دیکھنے کی عادی نہ تھیں۔ جو بالکل انگریزیت میں غرق ہوں۔ مگر ہمارے صاحب لوگوں نے یہاں آ کر اسلامی تہذیب اور شائستگی کے سارے بندھبن توڑ دیئے ۔ اور ساری قدروں کو سر بازار رسوا کیا۔ جو وہاں کے مسلمانوں کو عزیز تھیں۔ یہ باتیں مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو مایوسی پیدا کرنے کا موجب بنیں۔ اور نفرت پیدا کرنے کا بھی۔لوگوں کا عام احساس یہ بن گیا کہ یہاں تو گورے انگریزوں کی جگہ کالے انگریزوں کی حکومت ہے۔ جو ان پر اچانک مسلط ہو گئی ہے۔ سول سروس بیوروکریسی کے کارندوں میں خصوصاً جو پرانے لوت تھے ان کے مزاج میں انگریزیت رچی بسی تھی۔

وہ نئے پاکستانی آفیسروں کو بھی برابر کا درجہ دینے کو تیار نہ تھے۔ عوام بے چارے تو کسی شمار میں نہ تھے۔ مشرقی پاکستان کے دیہاتی لوگ نئے پاکستانی آفیسروں کو ملنے آتے تو انھیں کہا جاتا صاحب میٹنگ میں ہیں اور وہ عوام کی بات سننے کے روادار نہ تھے۔جس قسم کا چیف سیکریٹری ہٹتا مشرقی پاکستان میں اسی طرح کا نظام چلنے لگتا۔ 1955 تک مشرقی پاکستان میں جو نظام کا ر فرما تھا وہ ہو بہو انگریزی نو آبادی نظام تھا۔ اس میں نہ کوئی اسلامی رنگ تھا نہ کوئی پاکستانی خصوصیت تھی۔ وہی سیکولر نظام تعلیم وہی حاکمیت اور محکومی کا سالہا سال پرانا سلسلہ وہی پوری لباس انگریزی زبان کا رعب داب نوکرعوں کے تگ ودو۔ پولیس کی دہشت اور مجسٹریٹوں کی حکومت جب سب کچھ وہی تھا تو لوگ کیسے سمجھ لیتے کہ یہ آفیسر جو ایک ہزار میل دور مغربی پاکستان سے آئے ہیں ان کے اپنے ہم وطن ہیں۔مرکزی حکومت میں اس پر کوئی سوچ بچار ہوا۔ نہ بڑھتی ہوئی خلیج کا کوئی احساس پیدا ہوا۔ مرکزی حکومت سوچتی تھی ان بیورکریٹوں کے ذریعے لا انڈ آرڈر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

مشرقی پاکستان کے بڑے لوگ اے- کے فضل حق، فضل قادر ڈھاکہ کے نواب کھلنا کے عبدا لصبورفرید پور کے وحید الزمان اور بوگرہ محمد علی ان کے ساتھ ہیں تو باقی لوگوں کی کیا حثیت ہے۔

قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والے 83 انڈین سول سروس کے آفیسران میں سے صرف ایک بنگالی آفیسر تھا ۔ باقی جو لوگ تھے وہ مغربی پاکستان سے تھے یا پھر انڈیا س ہجرت کر کے آئے تھے۔ مگر تھے وہ ارودو بولنے والے۔

1948 میں مشرقی پاکستان سے 11.01 فی صد سول آفیسر لیئے گئے جبکہ 1958 تک یہ تعداد 41.07 تک پہنچی۔ مغربی پاکستان کا تناسب 88.90 سے 58% تک آیا۔ پھر 1958 سے 1962 کے درمیان ایوب خان کے دور میں فیصلہ ہوا کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے آفیسران کو مشرقی پاکستان میں رکھا جائے۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان میں نکلنے والی پوسٹوں پر وہاں ہی کے آفیسر رکھے گئے۔

تعلیمی پالیسی کا فقدان

مشرقی پاکستان میں حکومت جن عقلمند لوگوں کے ہاتھوں میں رہی انہوں نے وہاں پیدا ہونے والے ہر ہفتے کا علاج یہ سوچاکہ موسیقی، رقص و سرور، ریس اور کھیل کود کا قوم کو رسیا بنایا جائے۔ ان کے دل اور کان فتنہ پردازوں کی باتیں سننے کے لئے فارغ نہ تھے۔ اور نت نئے مطالبات سامنے آنے پر آنکھیں بند بلکہ امر واقعہ یہ ہے اور معتبر ذرائع نے اس کی تصدیق کی ہے۔ فتنے کے علاج کا یہ حکیمانہ نسخہ ہمارے افلاطونوں نے خوب سوچ سمجھ کر مرتب کیا تھا۔ ان میں سے کسی نے بھی ان اسباب کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی فکر نہ کی جو مشرقی پاکستان میں بے چینی کے حقیقی موجب بنے۔ کسی نے یہ نہ دیکھا کہ ہم اپنے کالجوں میں نوجوانوں کو کیا تعلیم دے رہے ہیں۔ اور کسی اسم کے لوگوں کے ذریعے یہ تعلیم دے رہے ہیں۔ اور اس کے فطری نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ کسی نے اس لٹریچر پر نگاہ نہ ڈالی جو ملک کے اندر ہی سے نہیں بلکہ باہر مغربی بنگال سے آ کر یہاں پھیلاتا رہا۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ اردو سے یہاں کے لوگوں کی ناواقفیت اور بنگلہ زبان میں اسلامی لٹریچر کے فقدان اور ہندوکلچر اور ہنگامی نیشنل ازم کی ترجمانی کے والے لٹریچر کی کثرت مختصر حاضر ہے۔ یہاشاعت کا آخر کار کیا نتیجہ ہو گا۔ یہ ساری فکریں تو دماغ کو تکلیف دینے والی تھی۔ آسان تدابیر اس کے سوا کونسی تھی کہ بلبل اکیڈمیوں کی طرز پر کچھ ادارے قائم کر دئے جائیں جس سے عوام کا دل بھی پہلے اور حکمرانوں کا بھی۔

زبان کا مسئلہ

مشرقی پاکستان میں جب یہ اعلان ہوا کہ ملک کی قومی زبان اردو ہو گی تو بھارت نواز ہندﺅوں نے طلبہ میں یہ موقف اچھالا کہ اگر ملک کی قومی زبان اردو ہو گی تو بنگلہ بولنے والے لوگ کھبی ترقی نہیں کر سکیں گے۔

مشرقی پاکستان میں ان پر جوش طلبہ کے جذبات کو سب سے پہلے ہندﺅوں نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ چنانچہ ان میں بالخصوص اس تاثر کو گہرا کیا گیا کہ مرکزی حکومت میں جس میں پنجابیوں اور مہاجرین کا غلبہ ہے اکثریتی آبادی کے صوبے کو اس کی مادری زبان سے محروم کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ انہوں نے زبان کے مسئلے پر ذرا برابرنرمی دیکھائی تو اردو بولنے والے غیر ہنگامی ان کے حقوق غصب کر لیں گے۔ اور تمام کلیدی آسامیوں پر ان کا ہی قبضہ اور تصرف ہو گا۔ طلبہ کے جذبات اس حد تک بر انگیختہ کر دیے گئے کہ وہ قائد اعظم کی بات سننے کے روادار نہ رہے۔20 مارچ1948 کو جب قائد اعظم ڈھاکہ تشریف لے گئے اور انھوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کہ ڈرف اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہو گی۔ 24 مارچ1948 کو ڈھاکہ یونیورسٹی میںاساتذہ اور طلبہ کے خصوصی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جب قائد اعظم نے پھر دھرایا پاکستان کع واحد سرکاری زبان اردو ہو گی تو اس کے واد ہی ہال میں آواز ونجی نہیں ، نہیں ۔ طلبہ کے اس گروہ کی قیادت طالب علم رہنما شیخ مجیب الرّحمان کر رہا تھا۔ جسے مسٹر حسین سہروردی کی حمایت حاصل تھی۔ رفتہ رفتہ ڈھاکہ یونیورسٹی کیمپس بنگلہ زبان کی حمایت میں منعقد ہونے والے اجتماعی مظاہروں کا مرکز بن گیا۔ جس کے نتیجے میں 21 فروری 1952 کو ڈھاکہ پولیس فائرنگ کا المناک واقعہ رونما ہوا۔ پولیس فائرنگ سے تین طالب علم مارے گئے۔ یہ واقعہ جلتی پر تیل کا کام کر گیا۔ شر پسند عناصر کو یہی مطلوب تھا۔ اب نہ صرف اردو کے خلاف بلکہ اردو بولنے والوں کے خلاف بھی جذبات نشونما پانے لگے۔ آخر کار 196 کے دستور میں بنگلہ زبان کو اردو کے ساتھ دوسری سرکاری زبان تسلیم کر لیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے ہندﺅوں نے اور کیمونسٹوں نے اس کامیاب لسانی تحریک سے درج ذیل نتائج اخذ کیے وہ یہ تھے۔

1 عوام کو لسانی اور مسائل کے ذریعے آسانی سے ایکسپلائیٹ کیا جاسکتا ہے

2 کسی بھی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے تشدد ضروری ہے

3 کسی بھی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے پاکستان میں طلبہ سب سے زیادہ موثر گروہ ہیں۔

4 کسی بھی ایسی تحریک کو قوت کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا جس میں طلبہ سرگرمی سے حمایت میں کھڑے ہو جائیں۔ ہندو اور کیمونسٹ جس زبان کے لئے لڑ رہے تھے وہ مسلم بنگلہ نہ تھی، بلکہ یہ وہ زبان تھی جس کی تخلیق کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں ہندو براہمنوں کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ چنانچہ اس کر ترقی وترویح کے لئے ہنگامی اکادمی قائم ہوئی۔ اس اکادمی سے کتابوں کا ایک سیلاب مشرقی پاکستان کع مارکیٹوں میں آیا اس لیٹریچر مشرقی پاکستان میں فکتی انتیشار کو بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا۔

اسلامی لٹریچر کا فقدان

ڈھاکہ مسجدوں کا شہر کہلاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہاں کے علمائے کرام بحثیت مجوعی اثر انداز نہ ہو سکے۔ پھر ان کے دین اور سیاست علیحدگی کے تصور نے عوام کو طالع ازما سیاسی کھلاڑیوں کے سپرد کر دیا۔ جو چند لوگ دین کا صیح تصور اور حالات کا مقابلہ کرنے کا شعور رکھتے تھے ایک دوسرے کے خلاف فتوﺅں نے پاکستان کے دشمنوں اور ہندﺅوں کے راستے آسان بنا دئیے ۔ دراصل علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد ملک کے حالات سے بے تعلق ہو کر اپنے مدار میں فتوﺅں میں مخصوص مذہبی و فقہی مباحث میں مشغول رہے۔ بنگلہ زبان میں اقبال کا لٹریچر تھا نہ سید ابولاعلٰی ؒ دارالمصنفین کی کتابیں تھیں اور نہ ادارہ تعلیمات اسلام کی۔ نہ تو ندوة الصنفین کی کتب ترجمعہ ہو سکیں نہ مدرسہ اداصلاح کی۔ ستم یہ ہے کہ اس وقت تک کسی مستند تفسیرِ قرآن کا ترجمعہ نہ ہو سکا نہ ترجمعہ قرآن پاک کا۔ نہ کوئی سیرت حضرت محمدﷺ کا ترجمعہ ہو سکا نہ صحابہ کرام کی سیرت کی کتابوں کا۔ نہ ہی اسلام کے انقلابی داعیوں کے حالات زندگی میسر تھے ۔ مشرقی پاکستان میں اس وقت جو سرمایہ ادت بنگلہ زبان میں موجود تھا وہ تمام تر بنکم چند مکر جی، رابند ناتھ ٹیگور یا ان کے زیر اثر ادیبوں کا پیدا کردہ تھا۔ ایک صاحب قاضی نذر اسلام کا نام ان کتابوں میں مسلمانوں والا نظر آیا مگر ان کا حال یہ تھا کہ انہوں نے عمر بھر ہندو دیویوں اور دیوتاﺅں کی حمد و ثنا میں ایسے ایسے بلند پایہ بھجن اور کیرتن لکھے تھے کہ کوئی زبردست مشرک شاعر بھی اپنے گلدستہ عقیدت میں اس معیار کے بھول پرو کر اپنے دیوتاﺅں کے سامنے پیش کرنے سے قاصر تھا۔ ایسی صورت میں نوجوان نسل بنگلہ کلچر اور بنگلہ قومیت کی طرف اگر جاتی ہے تو اس سے گلہ اور شکوہ کسی بات کا وہ اشتراک کی طرف جائے یا بنگلہ قومی تعصب کا شکار ہو جائے تو اس کاذمہ دار کون ہو گا۔

تعلیم کا المیہ

قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان میں 1290 ہائی سکول تھے اور 47 کالجوں میں 95% فی صد ادارے ہندﺅوں کے پرائیویٹ انتظام میں تھے۔ جبکہ سرکاری سکولوں میں بھی ہندو اساتذہ تناسب زیادہ تھا۔ یہ اساتذہ بڑی کاوش کے ساتھ مسلان بچوں اور نوجوانوں کے معصوم ذہنوں میں تشکیک کا زہر گھولتے رہے۔ انہوں نے اسلام اور اسلامی ثقافت کے طارے میں مسلمان طلبہ میں انتیشار پیدا کیا اور اس انتیشار نے بالاخر صراط مستقیم سے ہٹا دیا۔یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ مشرقی پاکستان میں پرائمری اور مڈل سطح کے سکول سرکاری سطح پر بنائے ہی نہیں گئے بلکہ پرائیویٹ سطح پر قائم پرائمری اور مڈل سکولوں کو حکومت سالانہ گرانٹ دیتی تھی۔ تعلیمی بجٹ کا بڑا حصہ ان سکولوں پر خرچ ہوتا تھا۔اس کے باوجود ان سکولوں کی ہندو انتظام میں حکومت کا کوئی عمل دخل حاصل نہ تھا۔ چنانچہ ان سکولوں کی انتظامیہاپنا سٹاف کود بھرتی کرتی تھی۔ زیادہ تر ہندﺅ اساتذہ پر مشتمل ہوتا تھا۔ غور وفکر کی بات یہ ہے 1947 میں تقسیم ہند کے بعد ہندو اساتذہ اور پرو فیسروں کی بڑی تعداد جو ہائی سکولوں کا بچوں اور یونیورسٹیوں میں موجود تھی۔ مشرقی پاکستان میں ہی رہی لیکن ان کی اکثریت نے اپنے خاندانوں کو مغربی بنگال بھارت میں منتقل کر دیاتھا۔یہ کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ یہ سب کچھ طے شدہ پلان تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں 90% فی صد سٹاف ہندو تھا۔انہوں نے نہایت ہوشیاری سے طلبہ سے طلبہ کو ذہن نشین کایا کہ

1 پاکستان کا معاشی طور پر قائم رہنا ممکن نہیں ہے۔

2 غیر ہنگاموں کا مقصد مشرقی پاکستان کو اپنی نو آبادی بنانا ہے۔ 

اساتذہ کی جانب سے مسلسل ان نظریات کی تشہیر آخر اپنا اثر دیکھایا اور بے اطمنانی نی طلبہ کے ذہنوں پر اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا۔ ایک شرمناک حقیقت تعلیم کے المیے میں یہ تھیکہ بیشتر درسی کتب کے مضامین اور درسی کتب کلکتہ سے چھپ کر آتی تھی۔ اور ان کے مصنفین بھی مغربی بنگال سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ کتابیں 1971 تک ہمارے سرکاری اداروں میں پڑھائی جای رہیں۔ گویا پاکستان کی نسل کو پاکستان کے دشمنوں کی تصنف کردہ نصابی کتب پڑھتی رہی۔ہائی کلاسز کی گرائمر اور کمپوزیشن کے معمولی جملے بھی اسی طرح لکھے جائے جن میں ہندو اور مسلمان فرق کو ختم کر نا مقصود تھا۔مثلاً "رام اچھا بچہ ہے، رحیم گندہ بچہ ہے ©" مطالعہ پاکستان اور تاریخ کی کسی کتاب میں بھی 1940 کی قرارداد پاکستان کا تذکرہ تک نہ تھا۔تاریخ کی ایک کتاب دیکھی جس میں سب سے بڑی تصویر اور سب سے بڑا مضمون شیوا جی مرہٹہ پر تھا۔ یا ہندو نواز بادشاہ اکبر اعضم کی تصویر تھی۔ اکبر کی پالیسیوں کو بہت سرایا گیا تھا ۔ تاریخ پاکستان کے نصاب کی یہ حالت تھی کہ جب 1970 میں کرنل بشارت سلطان جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملے تو وائس چانسلر نے انہیں بتایا کہ تاریخ پاکستان کے کے یونیورسٹی نصاب کے لئے ہم نے تاریخ پاکستان کا ایک جامع نصاب مرتب کرایا تو طلبہ نے اسے مقبول کرنے سے انکار کر دیا۔ہم نے کورس کم کر کہ محض چار ابواب رکھے مگر طلبہ اس پر بھی تیار نہ ہوئے۔ ناچار اس کتاب کا فقط ایک ہی باب طے کیا مگر طلبہ اس پر بھی انکاری ہیں کہ ہم تاریخ پاکستان پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیئے تھاکہ ہم اپنا نظام تعلیم مرتب کرتے ایجوکیشن کے نظام پر توجہ دیتے۔ سرکاری طور پر تو اسلامیات کا مضمون بھی رکھا گیا تھا۔ مگر سکولوں میں 90% فی صد ہندو اساتذہ اسلامیات پڑھانے والے تھے۔جہاں ہندو استاد اسلامیات پڑھانے پر مقرر ہو وہاں کے طالب علم سے ہم کسی حد تک مسلان ہونے اور اسلامی شعار اور اسلامی ثقافت اور اسلامی معاشرت کی توقع کر سکتے تھے۔ہماری حکومتوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔ محب وطن لوگوں کی طرف سے توجہ آتی رہی مگر ہماری کسی بھی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ لازمی طور پر اس ماحول میں مشرقی پاکستان سے جو نسل اٹھی ان کے اندر بنگالیت کا احساس پیدا ہوا کہ ہندو اور مسلمان پہلے بنگالی اور پھر ہندو اور مسلمان ہیں ۔

بنگالی ایک قوم کا نام جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔نئی تہذیب اپنانے والی ہندو اور مسلمان خواتین میں کوئی امتیا ز نہ رہا۔ مسلمان عورتیں ماتھے پر تلک لگاتی تھیں۔ مسلمان مر نوجوان اور ہندو مرد نوجوان میں کوئی فرق نہ رہا ۔ ڈھاکہ یونیورسٹی سمیت تمام کالجوں میں شعوری طور پر نوجوانوں کو ہنگامی قومیت پر ابھارا گیا۔اس طرح وہاں کے مسلمان نوجوانوں میں ہندو کلچر ہندو تہذیب اور ہندو اقدار کو بنگالی کلچر بنگالی تہذیب اور بنگالی اقدار بنا کر پیش کیا گیا۔ جو ان نوجوانوں میں سرائیت کر گیا۔ جس کی واضع مثال 1951 میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں آل پاکستان ہسٹاریکل کانفرنس ہوئی جس کے ایک اجلاس کی صدارت برصغیر کے عظیم مفکر اور مسلمان مورخ مولانا سید سلمان ندوی نے کی۔شرکاءکی اکثریت ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ تھے۔ جنہوں نے نہ جلسے کو درہم پرہم کر دیا بلکہ معزز مہمانوں پر حملہ آور بھی ہوئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنی ایک کتاب میں بنگال میں ہندو تعصب اور مسلم دشمنی کی تاریخ اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی نشاہندی کی تھی ۔ یہ مظاہر ارباب حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھا۔جس سے ظاہر ہوگیا تھا کہ مشرقی پاکستان کی نوجوان نسل کس سمت میں جا رہی ہے۔س1953 تک ہندو اساتذہ اور ہندو پروفیسروں نے وہ کام کر لیا تھا، جس کے لئے بھارتی حکومت نے مغربی بنگال سے انہیں واپس اپنے اپنے اداروں میں حاضر ہونے کا حکم دیاتھا۔ وہ ایک مشن لے کر آئے تھے اور اسی مشن کے مطابق کام کرتے رہے ان کا مشن 6 دسمبر 1971 کو پورا ہو گیا تھا۔

پاکستان توڑنے والے کرداروں کا حشر

مملکت پاکستان اللہ کا عطیہ ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اللہ سے وعدہ کیاتھا کہ پاکستان بن گیا تو اس میں اللہ کا نظام نافذ کریں گے۔ اسلام کا عادلانا نظام تو قائم نہ ہو سکا مگر پاکستان کو توڑنے کی سازش کرنے والوں اور ان کے خاندان کی تباہی کا منظر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ پاکستان کو توڑنے والے تین کردار ڈائریکٹ تھے ان میں بھارتی وزیرِ اعظم مسز اندا گاندھی ،سابق پاکستانی وزیرِاعظم ذولفقار علی بھٹو اور بنگلہ دیش کے سابق وزیراعظم شیخ مجیب الرّحمان تینوں کاحال یہ ہواکہ وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں انجام تک پہنچے۔ ان میں سر فہرست بھارتی وزیرِاعظم مسز اندرا گاندھی کا نام ہے۔مسز اندرا گاندھی نے جنوری 1966 میں اقتدار سنبھالا۔ وہ پاکستان کو خوفناک شکست سے دوچار کر نا چاہتی تھی۔ اس نے شیخ مجیب الرّحمان سے تعلقات استوار کیے۔پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بننا شروع کر دیا ۔ اس نے شیخ مجیب الرّحمان سے مکتی باہنی بنوائی اسے اسلحہ اور رقم دی اور 1971 میں بھارتی فوج سے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا۔جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ ڈھاکہ فال ہونے کے بعد اس نے بڑے فخر اور تکبر کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ" ہم نے نظریہ پاکستان کو آج خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے" دوسری جگہ اس نے اعلان کیا ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیاہے۔ پاکستان ٹوٹ گیا، مگر اندرا گاندھی 31 اکتوبر1984 کو اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہو گئی۔اس کے دو بیٹے سنجے گاندھی ایک حوائی حادثے میں مارا گیا۔اور دوسرا بیٹہ راجیو گاندھی ماں کی جگہ گدی پر بیٹھا۔ لیکن 21 مئی 1991 کو ایک تامل جانباز خاتون نے اس کے گلے میں بموں کا ہار ڈال دیا۔ اور اس کا جسم قیمہ بنا دیا۔ آج اس خاندان کا ایک ہی بیٹہ راہول گاندھی بچا ہے جس کو اس کی ماں اقتدار سے دور ہی رکھنے کی کوشش میں ہے۔ دوسرا کردار شیخ مجیب الرّحمان تھا جس نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے اپنی سیاست کاآغاز کیاتھا۔سب سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح کے ڈھاکہ یونیورسٹی کے دورے کے دوران مورخہ 24 مارچ 1948 کو قائد اعظم کے خلاف نعرے لگوائے تھے۔ایوب خان کے دورے حکومت میں بنگال میں اسے مقبولیت ملی ۔ 20 جنوری 1968 کو شیخ مجیب اپنے 22 ساتھیوں کے ہمراہ اگر تلہ سازش میں گرفتار ہوا۔جس میں ہندوستان کی ملی بھگت سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ایک آزاد بنگال کے قیام کی کوشش کر رہے تھے۔ جولائی 1968 کو اس کے خلاف مقدمہ شروع ہوا۔ 10 تا15 مارچ 1969 کو ذولفقار علی بھٹو اور دیگر مغربی پاکستان کے لیڈروں نے حکومت پر دباﺅ ڈال کر شیخ مجیب الرّحمٰن کو آزاد کرایا۔مجیب الرّحمٰن نے 1971 میں علیحدگی کی تحریک کے دوران کئی بار پاکستانی جھنڈا جلایاتھا۔ ٹیکس دینے سے انکار کیا۔ پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد 2 جنوری 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسے رہا کر دیا۔ وہ سیدھا ڈھاکہ پہنچا اور بنگلا دیش میںاپنی حکومت قائم کی۔ 15 اگست1975 صرف تین سال بعد ہی میجر جنرل ضیاءالرّحمٰن کے حکم سے کچھ لوگ دھان منڈی ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرّحمٰن کو پورے خاندان سمیت گولیوں سے اڑا دیا۔شیخ مجیب کے خاندان سے صرف ایک خاتون حسینہ واجد بچی جو اس وقت ملک سے باہر تھی۔

شیخ حسینہ واجد نے باپ کی لاش اٹھائی اور اس لاش پر اپنی سیاست کی بنیاد رکھی۔

پاکستان توڑنے والے تیسرے کردار کا نام ذوالفقار علی بھٹو ہے۔ بھٹو سکندر مرزا کے کندھوں پر بیٹھ کر سیاست میں آئے۔ ایوب خان کے دور میں وزارت تک پہنچے تاشقند معاہدے کے بعد ایوب خان کی کابینہ سے نکالے گئے۔پھر انھوں نے پیپلز پارٹی کے نام پر اپنی پارٹی بنائی۔ 1971 کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی۔ نوا ز حکومت بن جاتی تو اقتدار شیخ مجیب الرّحمٰن کے پاس چلا جانا تھا جو بھٹو کو منظور نہیں تھا۔مستقبل میں بھی اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان سے ووٹ ملنے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ پاکتان کے اکھٹارہنے کی صورت میں صورت میں بھٹو کو حذب اختلاف میں بیٹھنا پڑتا جو بھٹو کو منظور نہ تھا۔انہوں نے صدر یحیٰ خان کو جھانسہ دیا کہ وزیرِاعظم مجھے بنوا دو میں آپ کو صدر بنواﺅں گا۔مگر مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہو گئے۔حالات خراب ہوتے ہی "ادھر ہم اُدھر تم"کا نعرہ لگایا۔ پاک بھارت جنگ شروع ہوگئی۔ دو مرتبہ سیز فائیر کی کوشش کی گئی جو بھٹو نے ناکام بنا دی۔ 14 دسمبر کوقرارداد اقوام متحدہ میں پھاڑ کر پھینک دی اور سیز فائر نہیں ہونے دیا۔بالآخر پاکستان ٹوٹ گیا۔ اور بھٹو کو اقتدار مل گیا۔ بھٹو جالائی 1977 کو معزول ہوئے۔ انھیں احمد رضا قصوری کے قتل کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔اپریل 1979 کو بھٹو کو قتل کے الزام میں پھانسی ہو گئی۔ اندرا گاندھی اور شیخ مجیب الرّحمٰن کی طرح بھٹو کے بھی دو بیٹے تھے۔ شاہنواز کو فرانس میں کسی نے قتل کر دیا۔ مرتضیٰ بھٹو اپنی ہی بہن کے دور حکومت میں 1996 میں کراچی میں قتل ہوگئے۔ان کے راستے میں بے نظیر بھٹو بھی گذشتہ انتخابات میں قتل ہو گئیں۔ P.P.P کی حکومت بننے کے باوجود ان کا قاتل پکڑا نہیں گیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اب بھٹو خاندان سے حاکم علی زرداری کے خاندان میں منتقل ہو چکی ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ پاکستان کو توڑنے والے تینوں ڈائریکٹ کرداروں کا کیا حشر ہو گیا۔ تینوں قتل ہوئے تینوں کے بیٹے بھی قتل ہوئے اور تینوں کے خاندان بھی مدجزر کا شکار ہوئے۔پاکستان انشاءاللہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ اس کو توڑنے کی سازش کر والے تباہی سے بچ نہیں سکتے۔