ایک تازہ سروے کے مطابق امریکہ کی کل آبادی 305ملین (تیس کروڑ پچاس لاکھ)جن میں مسلمانوں کی تعداد 2.5ملین (پچیس لاکھ )جب کہ امریکہ میں مساجد کی تعداد 1900ہے۔جرمنی کل آبادی82ملین (آٹھ کروڑ بیس لاکھ )جن میں مسلم آبادی 3.4ملین (چونتیس لاکھ )جب کہ جرمنی میں مساجد کی تعداد 2600ہے۔فرانس کی کل آبادی65ملین (چھ کروڑ پچاس لاکھ )جن میں مسلمانوں کی تعداد 5.5ملین (پچپن لاکھ )ہے جب کہ فرانس میں مساجد کی تعداد2100ہے۔برطانیہ کی کل آبادی 62ملین(چھ کروڑ بیس لاکھ )جن میں مسلمانوں کی تعداد 2.4 ملین(چوبیس لاکھ )ہے جبکہ برطانیہ میں مساجد کی تعداد1500ہے۔اسپین کی کل آبادی46 ملین (چار کروڑ ساٹھ لاکھ )ہے جن میں مسلمانوں کی تعداد1ملین( دس لاکھ) ہے۔جب کہ اسپین میں مساجد کی تعداد454ہے۔کینیڈا کی کل آبادی34ملین (تین کروڑ چالیس لاکھ )ہے جن میں مسلمانوں کی تعداد 1ملین یعنی( دس لاکھ) ہے جب کہ کینیڈا میں مساجد کی تعداد 198ہے۔
اس وقت مغربی تہذیب نے دنیائے مغرب کو جس بے حسی ‘ عدم اطمینان ‘ خود غرضی‘ اخلاقی اقدار کی پامالی سے دو چار کر رکھا ہے اس حوالے سے مغربی معاشرہ سکونِ قلب کے لیے انتہائی بے تاب اور مضطرب دکھائی دیتا ہے لیکن یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ انفرادی طور پر چند اداروں اور جماعتوں کے سوا امت مسلمہ نے عالمگیر سطح دین اسلام کی صحیح اور کامل طریقے سے تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داری پوری کرنے اور پوری نوع انسانی کو دعوت دینے کا کوئی با ضابطہ اہتمام نہیں کیا۔
اگرچہ عالم اسلام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔بالا دست اور طاغوتی قوتوں نے پوری ملت اسلامیہ کے مالی وسائل پر مختلف حیلوں سے قبضہ کرنے اور مسلمانوں کا مال شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنے کو شعار بنا رکھا ہے‘ اس لیے یہ وقت باہم سیاسی یا گروہی فوائد کے لیے معاملات کو بگاڑنے کا نہیں بلکہ درست کرنے کا ہے۔ عالم اسلام کے صاحبانِ بصیرت گروہوں ‘ جماعتوں اور افراد کوآگے آکر اپنا کردار ادا کر کے طاغوت کے خلاف سینہ سپر ہونا چاہیے۔ او آئی سی کو متحرک کر کے اس کے کپکپاتے گھٹنوں کو تقویت بخش دوا فراہم کر کے اسے مضبوط کر دینا چاہیے۔اسی پلیٹ فورم کو استعمال کرتے ہوئے عالم اسلام کی ایک مجلس شوریٰ قائم ہونی چاہیے اور اس مجلس شوریٰ میں عالم اسلام میں حریت فکر کے علمبردار دانشوروں کو شامل کرنا چاہیے جو مسلمان حکمرانوں کو اپنی عظمت رفتہ یاد دلاتے رہیں گے تا کہ ممکن ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو سکیںاور یہیں سے عالمی سطح کی ایک ایسی کثیر المقاصد دعوتی پروگرام لانچ ہونا چاہیے جو اسلام کے تمام گوشوں کا مکمل طور پر احاطہ کرتا ہو تا کہ اسلام میں داخل ہونے والے مغرب کے لوگ اسلام کے مکمل طرز حیات کو نہ صرف اختیار کر سکیں بلکہ وہ فکراور نظر کے اعتبار سے سچے مسلمان ثابت ہو سکیں۔
عالم اسلام اسی پلیٹ فارم کو ایک” مشترکہ پارلیمینٹ“ بناکر اپنے سیاسی‘ سماجی اور معاشی مسائل کا حل سوچے اور سلامتی سے متعلق امور پر لائحہ عمل مرتب کرے۔ مشترکہ منڈی‘ مشترکہ میڈیا پالیسی‘ مشترکہ کرنسی اور دوسرے اقدامات کے ذریعے عالم اسلام کی فلاح وبہبود پر توجہ دے۔ اس مقصد کے لیے ایک باضابطہ سیکرٹریٹ قائم کرکے مسلم ممالک میں رابطے کا ایک نیٹ ورک مضبوط نظام بنایا جا سکتا ہے لیکن اس عظیم اور بڑے کام کا آغاز کب اور کہاں سے ہوگا یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ ملت پارہ پارہ ہے۔اگر چہ اسلام نے ایک ایسا مثالی چارٹر کرہ ارض پربسنے والے انسانوں کو فراہم کیا جو نہ صرف امت مسلمہ بلکہ قیامت تک پوری نوع انسانی کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ایک نسخہ کیمیا کا درجہ رکھتا ہے۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ امت مسلمہ کی حیثیت سے ہم اس چارٹر کو اپنے لیے مشعل راہ بنانے پر آمادہ و تیار نہیں اس چارٹرمیں رنگ و نسل کا کوئی امتیاز نہیں اور نہ ہی کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔دراصل اسلام نے قبائل عرب کے قبائلی تکبر و غرور کو خاک میں ملا کر تقویٰ کو رفعت اور عظمت قرار دیااور ہر طرح کی اونچ نیچ کا خاتمہ کیا گیا۔
پوری امت مسلمہ کو در پیش مسائل کو زیر غورلا کر ان کا حل تلاش کرنا‘ ملت کی عظمت رفتہ بحال کرنا اور پوری نوع انسانی تک کامل طریقے سے اسلامی تعلیمات کا پہنچانااگر چہ مسلمان ممالک کے سربراہان کی منصبی ذمہ داری تھی لیکن افسوس وہ خود غیروں کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔دنیائے اسلام کی زبوں حالی کی تصویر یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمان زیر عتاب ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہیں ‘ ایسے دلدوز مناظر ہیں کہ بعض مقامات پر طاغوت کے ہاتھوں قتل ہونے والے مسلمانوں کی نماز جنازہ پڑھنے والا کوئی ہے نہ ان کی تدفین کرنے والے موجود ‘ مسلمانوں کی نعشیں بکھری پڑی ہیں معصوم بچے اور خواتین خون میں نہلائے جا رہے ہیں لیکن اس زبوں حالی اور مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے مظالم کا علاج کیا ہے؟امت مسلمہ کی زبوں حالی کا علاج اورامت مسلمہ کو موجودہ دگرگوں حالات سے نجات دلانے کی لیے قرآن و سنت کا بتایا ہوا نسخہ استعمال میں لایا جائے تو بات بنتی نظر آتی ہے وگرنہ محال ہے۔
موجودہ حالات میں امت مسلمہ کی شیرازہ بندی اہم ضرورت ہے۔ مسلمان دنیا بھر کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ یہ افرادی طاقت خود بھی ایک دولت ہے اور جب ہنر مند افرادی قوت بھی موجود ہو تو بلا شبہ یہ تو عظیم سرمایہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں جنہیں موثر طور پر بروئے کار لانے اور درست طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر مسلم ممالک میں اجتماعیت کے جذبے کے فقدان کے باعث عالم اسلام کے وسائل بھی مسلمانوں کے کام آنے کی بجائے یہود و نصاریٰ اور دیگر ظالموں کے تصرف میں آرہے ہیں۔ اس ضمن میں اگرچہ عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل جیسی علاقائی سطح پر اشتراک کی انجمنیںبنیں لیکن ان میں ہمیشہ فیصلہ سازی اور جرات مندی کا فقدان نظر آتا رہا۔ ان سب کا کردارنشتندو گفتندو برخاستند سے آگے کبھی نظر نہیں آیا۔ خوش نما اور دلفریب اعلانات اس وقت تک بے توقیر ثابت ہوتے رہیں گے جب تک ان پر عملدر آمد کے لیے کوئی موثر مشینری موجود نہ ہو۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں ‘مگر جب تک عالم اسلام پر مسلط تمام حکمران اپنی فکر چھوڑ اپنی ذات کا حصار اور کرسی کی فکر اپنے اوپر دامن گیر نہیں کرتے‘ اس کے بعد جب تک وہ پورے سیاسی عزم کے ساتھ عالم اسلام کو متحد و منظم کرنے پر کمر بستہ نہیں ہوتے اور دنیائے اسلام کے اہل دانش اپنی صلاحیتیں اتحاد بین المسلمین کے لیے وقف نہیں کرتے تب تک نتیجہ خیز اور موثر نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
بیشتر مسلم ممالک میں سماجی انصاف کے فقدان‘ معاشی بے انصافیوں اور سماجی ناہمواری کی بد ترین صورت حال ہے۔اگر مسلمان مملکتوں میں لوگوں کی فلاح و بہبود کے اقدامات پر توجہ دی جائے اور ایک ہی مشترکہ پلیٹ فارم(او آئی سی) پر متحد و منظم ہو کر عالم اسلام کی ترقی خوشحالی کے لیے کام کیا جائے تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کا توڑ کرنا مشکل نہیں رہے گا۔ اس سے مسلم ممالک کو جارحیت کا نشانہ بنانے اور ان کے وسائل پر غیر منصفانہ تصرف کے طریقوں کی روک تھام بھی ممکن ہو سکے گی۔ مسلم ممالک کی حکومتوں کو اب اپنی طویل بے حسی ختم کر کے تیزی سے حرکت میں آنا اور ایک منظم ادارے کی شکل میں اپنے مفادات کے تحفظ کے اقدامات کرنا ہوں گے ‘ کیونکہ زمانے کی چال بہت تیز ہے۔ اس کیفیت میں مسلم دنیا کو بھی اپنی رفتار لازماً تیز کرنا ہو گی۔اس وقت مسلم دنیا جس نازک صورتحال سے دو چار ہے اس میں بنیادی حصہ ان غلطیوں کا ہے جو پے د ر پے ہم سے سرزد ہو رہی ہیں لیکن” خود احتسابی“ سے پہلو بچانے کی ہماری افسوسناک روش اس معاملے میں اصلاح احوال کو یقینی بنانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
دنیا بھر کے57 کے لگ بھگ آزاد خود مختار مسلمان ممالک اور ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی ان مسلمان ممالک کی افرادی قوت‘ قدرتی وسائل ‘ ان کی جغرافیائی اہمیت‘ دین کی بنیاد پران کے مابین فطری‘ نظریاتی و فکری ہم آہنگی کوزیر استعمال لانے اور فروغ دینے کے لیے مدت طویل سے اس امر کا شدت سے احساس ابھرتا ہے کہ عالم اسلام کا ایک ایسا” قائد“ حاضر و موجود ہو جو امت مسلمہ کو بیدار کر سکے اور اسے زوال و انحطاط سے نجات دلا سکے۔آج جب ہم امت مسلمہ کی محرومیوں‘ مایوسیوں‘ مسائل و مشکلات کا تجزیہ کرتے ہیں تو بلا شبہ اس کے اسباب و علل میں اخوت اسلامی یا اسلامی مواخات کے فقدان اور آپس کی ظلم و نا انصافی سرفہرست دکھائی دیتی ہے۔ ظلم اور نا انصافی کا دائرہ زندگی کے کسی ایک شعبہ تک محدود نہیں ‘بلکہ وہ پوری ملی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ زوال اور پستی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ ہمارے دشمن نہ صرف ہمیں ختم کرنے اور ظالموں کو دنیا کی واحد سپر طاقت بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ‘بلکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں مسلمانوں کی صفوں میں بھی گھسے ہوئے ہیں۔ جب کوئی مسلم دشمن طاقتوں کے ظلم ‘ جبر ‘ بربریت اور سفاکی کے خلاف آوازبلند کرتاہے یا اپنے حقوق کی پامالی پر مزاحمت کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اسلام بیزار طاقتیں بیک زبان پوری امت مسلمہ پر دہشت گردی اور تخریب کاری کا الزام لگانا شروع کر دیتی ہیں اور اسی بنیاد پر انہوں نے عالم اسلام کے خلاف ایک محاذ قائم کر رکھا ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کیا جا رہا ہے لیکن مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کے فقدان اور فکری نظریاتی اختلافات ‘ ذاتی‘ نسلی اور گروہی مفادات کی وجہ سے انہیں اس بات پر قائل نہیں کر پائے۔آج طاغوت جسے مسلمانوں کی دہشت گردی ‘ انتہا پسندی اور تخریب کاری قرار دے رہا ہے وہ در اصل محکوم اور مظلوموں کے حقوق سلب کیے جانے کے خلاف رد عمل ہے‘اس رد عمل کے پس پردہ عوامل اور اسباب و علل کا تجزیہ کیوں نہیں کیا جا تا اور انہیں دور کرنے کی فکر کیوں نہیں کی جاتی ؟ کیا مسلمانوں کا یہ طرز عمل اور ان کا یہ کردار یکطرفہ ہے یا اس کے پس پردہ کوئی اور اسباب اور وجوہ کارفرما ہیں؟دراصل اس صورت حال کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ عالم اسلام اور مسلمان حکمرانوں نے دین پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہونے کا راستہ نہ صرف چھوڑ دیا ہے بلکہ غیر اسلامی تہذیبوں‘ عقاید‘ پالیسیوںاور طرز زندگی نے ان کے عقیدہ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے ۔ یہاں تک کہ خود مسلمان ممالک کے درمیان اور مسلمان مالک کے اندر بھی علاقائی و نسلی بنیادوں پر اختلافات کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے۔
امت مسلمہ کی زبوں حالی کا علاج یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر خود اور خدااعتمادی پیدا ہو اور یہ اصلاح احوال کے بغیر ممکن نہیں۔آج اگر ہم امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور مسائل و مشکلات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس کی بنیادی اور اہم وجہ خود ہماری بے عملی اور بد عملی ہے جس نے ہمیں صراط مستقیم سے بھٹکا کر کامیابی اور کامرانی سے محروم کر دیا۔اس وقت افغانستان‘ عراق‘ فلسطین‘ کشمیر‘ چیچنیا‘ صومالیہ جو خاک اور خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس کربناک صورتحال کے پیدا کرنے میں امت مسلمہ کی عدم توجہی ‘ بے حسی اور لا تعلقی کا عمل دخل بھی ہے۔
ہماری اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو گی کہ آج مسلمانوں کی سر زمین مسلمانوںکے خون سے رنگین ہو رہی ہے اورمسلمان وحشیانہ مظالم کا شکار ہیں۔ عالمی سطح پر کام کرنے والی دینی جماعتوں سے او آئی سی تک اس پر فکری و نظریاتی ہم آہنگی کہیں نظر نہیں آتی اور دشمن کے عزائم کو دن بدن تقویت مل رہی ہے کروسیڈی علم بردار اور سامراجی عزائم رکھنے والے ہر طرح کے تشدد کے پیچھے مسلمانوں کے ہاتھ کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے کر ان کے خلاف عالمی سطح پر نفرت و حقارت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔اگر پوری امت مسلمہ اپنے اقتصادی وسائل اور افرادی قوت کو امت واحدہ ہونے کی بنیاد پر یکجا کرلے تو مسلمانوں کی محرومیوں اور مایوسیوں کا خاتمہ بھی ایک حقیقت بن کر ابھر سکتا ہے۔