گزشتہ دنوں فرانس میں 11افراد کی ہلاکت پر پورا مغرب متحد ہو گیا مغربی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس واقعہ کے بعد 30لاکھ لوگوں نے یکجہتی مارچ کیا اس مارچ میں مغربی ممالک کے سربراہان نے بھی شرکت کی اور پوری دنیا کو پیغام دیا کہ اس ایک نکتے پر ہم سارے متحد ہیں دوسری جانب پشاور آرمی پبلک سکول میں رونما ہونے والے تاریخ کے بدترین دہشت گردی کے واقعہ جس نے پوری پاکستانی ملت کو ہلا کررکھ دیا اگر چہ اس دلخراش اور دلدوذواقعہ کے بعد پاکستان بھر میں پشاور سانحہ کے شہداء سے یکجہتی کے پروگرامات منعقد ہوئے حکومت اپوزیشن نے ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کل جماعتی کانفرنس منعقد کر کے دہشت گردی کے ان واقعات کے خلاف اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا لیکن فرانس کے واقعہ پر مغربی ممالک کے مارچ کے مقابلے میں ہم بہت پیچھے رہے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے اندر صدر وزیر اعظم ،گورنرز وزراء اعلیٰ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کی قیادت میں اسلام آباد میں ایک تاریخی مارچ کیا جاتا جس میں لاکھوں لوگ شریک کرتے اور دہشت گردوں کو واضح پیغام دیتے کہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکا،حکومت نے دو مرتبہ کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس کانفرنس کے بعد یکجہتی کا وہ عملی مظاہرہ جس کی ملک و قوم کو ضرورت تھی وہ دیکھنے میں نہ آسکا پشاور آرمی پبلک سکول کا سانحہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا معصوم بچوں کو اتنی بڑی تعداد میں سفاکانہ انداز میں شہید کیا جانا دہشت گردی و بربریت کی بدترین مثا ل ہے اس مرحلے پر مسلم دنیا کے سربراہان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی روایتی بے حسی ختم کر کے پاکستان سے اظہار یکجہتی کے لیے اسلام آباد کا رخ کرتے کوئی امن مارچ ،یکجہتی مارچ کیا جاتا یا کسی سیمینار، کانفرنس کا اہتما م ہوتا لیکن مقام افسوس ہے کہ امت مسلمہ جو اب امت مرحومہ کا روپ دھار چکی ہے مسلم ممالک کے بے حس حکمران خواب خرگوش میں محو ہیں کسی مسلم حکمران کے کان پر اس دلخراش واقعہ پر جون تک نہیں رینگی ایسے لگا کہ مسلم دنیا یتیم اور بے سہارا ہے اس کا کوئی وارث نہیں ہے،عملاً ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے یہ کس قدر دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ 11افراد کی ہلاکت نے پورے مغرب کو متحدکر دیا ان کے سربراہان نے خودا یک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مارچ کی قیادت کی اور اس واقعہ کی پر زور مذمت کی،بد قسمتی سے پشاور میں رونما ہونے والے واقعہ پر کسی اسلامی ملک کے سربراہ کو یہ توفیق نہیں ہوسکی کہ وہ اپنے ہی ملک میں اس واقعہ کے خلاف کوئی ریلی کوئی سیمینار منعقد کر کے پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کرتا اور نہ ہی کسی مسلم حکمران نے یکجہتی کے لیے پاکستان آنے کی زحمت کی ہے اس روئیے اور طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مسلم حکمران عملاً امریکی اور مغربی غلامی اختیار کر چکے ہیں ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے نہ ہی انہیں مسلمانوں کو درپیش مسائل و مشکلات سے کوئی دلچسپی اور غرض ہے اور نہ ہی مسلم حکمران مسلمانوں کے مسائل حل کرنے ان کی مشکلات کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پشاور واقعہ میں امریکہ اور بھارت دونوں کا کردار ہے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افغانستان امریکہ بھارت اور اسرائیل کا اڈا بن گیا جہاں سے ہو کر پاکستان کے خلاف بھی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے جال بچھائے جانے لگے بھارت نے پاک افغان سرحد پر بڑی تعداد میں اپنے قونصل خانے قائم کیے جو دراصل پس پردہ را کے اڈے ہیں جو پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں بھارت کو اس حوالے سے امریکہ کی پوری سپورٹ حاصل ہے آرمی پبلک سکول کے دلدوز سانحہ کے بعد نہ صرف مسلم ممالک بلکہ امریکہ برطانیہ سمیت مغربی ممالک کے سربراہان ان کے نمائندوں کو پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے تھا اور اپنے اپنے ممالک سے وفود پاکستان بھیج کر پاکستان کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا جاتا لیکن ایسا نہ ہونا امریکہ اور مغرب کے دوہرے معیار کا واضح ثبوت ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی صدر اس مرحلے پر پاکستان کے دورے کے بجائے بھارت کا تین روزہ دورہ کر کے بھارت سے دوستی کے رشتے مزید مضبوط کر نے کا اعلان کر تے ہیں سول ٹیکنالوجی معاہدہ کے ساتھ ساتھ بھارت کو اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت دئیے جانے کی حمایت کااعلان ہوتا ہے دراصل امریکی صدر کے دورے سے امریکہ کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے امریکی صدر اوباما کے بھارتی دورے کے بعد پاکستان کو بطور خاص اور پوری مسلم دنیا کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ یہود وہنود کی پالیساں تضادات اور دوعملی پر مبنی ہیں اور یہ کہ یہود وہنود کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے پاکستانی حکمرانوں کوامریکی غلامی سے نکل کر جراتمندی اور دلیری کے ساتھ فیصلے کرنا ہوں گے اور ایسی ملکی پالیساں ترتیب دینا ہوں گی جس سے پاکستان کا دفاع نا قابل تسخیر ہو جائے یہ بات انتہائی خو ش آئند اور مثبت پیش رفت ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے چین کا کامیاب ترین دورہ کیا ہے اور چینی قیادت سے پاکستان کے دفاعی امور اور اندرون ملک دہشت گردی کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی ہے چیف آف سٹاف کے دورہ چین سے پاک چین دوستی مزید مستحکم بنیادوں پر قائم ہوئی ہے چین پاکستان کا انتہائی قریبی اور با اعتماد دوست ملک ہے جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاک چین دوستی میں کبھی بھی سردمہری پیدا نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ یہ دوستی سچے جذبوں کے ساتھ استوار رہی ہے لیکن اس وقت جب امریکی صدر اوباما بھارت جیسے دہشت گرد ملک کو تھپکی دے رہے تھے آرمی چیف کے دورہ چین نے امریکہ اور بھارت کو واضح پیغام دیا ہے کہ امریکہ چاہیے جو مرضی کرے اب دنیا اس کی تھانیداری کو کسی طور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور پاکستان کے لیے صرف امریکہ پر انخصار کرنا ہی ضروری نہیں ہے دیگر آپشن بھی موجود ہیں چیف آف آرمی سٹاف کے دورہ چین سے پاک چین دوستی کے نئے دور کاآغاز ہوا ہے پاکستان دشمن قوتوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے نئے عزم کے ساتھ از سرنو پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے امریکی غلامی سے نکل کر چین کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط و مستحکم کیا جائے یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔