پاکستان میں سینیٹ انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے گزشتہ چند روز سے سیاسی گہما گہمی اور جوڑ توڑ کی سیاست اور سیاسی ٹمپریچر میں کسی حد تک ٹھہراؤ آ چکا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ پوری شدت سے جاری رہا ۔ سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار پر بھی طویل بحث ہوتی رہی ہے کہ سینیٹ کے لیے ووٹنگ کا طریقہ کار کیساہونا چاہیے ۔ خفیہ بلٹ کے ذریعے یا شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹ کا استعمال کیا جائے ۔ ہارس ٹریڈنگ اور ممبران اسمبلی کے بکنے اور بھاری رقمیں وصول کرنے کی باتیں بھی سنی جاتی رہی ہیں ۔ انتخابات سے ایک روز قبل فاٹا کے انتخابات کو ملتوی کر دیاگیا ۔ جس پر ممبران اسمبلی فاٹا نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے فاٹا کے عوام سے زیادتی قرار دیاہے ۔ فاٹا کے علاوہ سینیٹ انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے ۔ فاٹا کے انتخابات بھی جلد منعقد ہونے کا امکان ہے ۔ اس کے بعد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کیا جائے گا ۔ اس وقت تک کے نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو سینیٹ میں ایک نشست سے برتری حاصل ہے جبکہ مسلم لیگ ( ن) اتحادی جماعتوں کے تعاون سے چیئرمین سینیٹ کا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ سینیٹ انتخابات کے دوران پاکستان کی سیاسی قیادت نے جس انداز سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے ممبران کو بکاؤ مال کہا اور بھاری بھاری رقوم لے کر وفاداریاں تبدیل کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ۔ اس سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے ۔ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ پورا پاکستان کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے اور ہر چار سو مایوسی اور نا امیدی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ ایسے میں مرد درویش سراج الحق امیر جماعت اسلامی کا سینیٹ کا ممبر منتخب ہو کر یہ کہنا کہ وہ سینیٹ میں غریب عوام کی نمائندگی کر یں گے اور غریبوں کی عوام کی آواز بن کر ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کریں گے۔
سراج الحق کے اس اظہار خیال سے امید کی کرن نظر آ ئی ہے جس روز سینیٹ انتخابات کے نتائج سامنے آئے اس کے دوسرے روز جناب سراج الحق کا خصوصی انٹرویو ایک نجی ٹی وی چینل پر دیکھنے کا موقع ملا ۔ یوں تو راقم پہلے ہی سے سراج الحق صاحب کے حوالے سے کافی حد تک باخبر ہے کہ وہ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے انٹرویو سے بہت ساری نئی باتیں بھی سننے کو ملی ہیں جن سے پہلے خبر نہ تھی ۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے کسی بات کو چھپانے کی کوشش نہیں کی نہ ہی کسی بات پر شرمندگی محسوس کی جو بھی اصل حقائق ہیں وہ عوام کے سامنے رکھ دیے اور اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ ''انہیں اس بات پر فخر ہے ہے کہ وہ ایک چرواہے کے بیٹے ہیں اور خود بھی بچپن میں بکریاں چرایا کرتے تھے ۔ '' سراج الحق صاحب کے ممبر ابھی سینئر وزیر وزیر خزانہ اور امیر جماعت اسلامی پاکستان بننے کے بعد بھی ان کی زندگی کے روز و شب میں سادگی اور عوامی رنگ اسی طرح نظر آ رہا ہے جس طرح اس سے پہلے ان کی زندگی گزر رہی ہے ۔ ایک ایسا مرد درویش جسے دو مرتبہ سینئر وزارت اور وزیر خزانہ کا عہدہ ملاہو اور وہ تمام مواقع میسر آئے ہوں کہ وہ اپنی ذات کے لیے بہت کچھ بنا سکتے تھے ۔ مکانات ' مارکیٹیں ' فیکٹریاں ' پلاٹس وغیرہ لیکن سراج الحق نے ایسا نہیں کیا ۔ وہ آج بھی پشاور میں کرائے کے گھر میں مقیم ہیں اور اس پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ ان کی وزارت کے دوران بھی راقم کو دوستوں کے ہمراہ بذات خود پشاور ان سے ملاقات کے لیے جانے کا موقع ملا ۔ سینئر وزیر کی رہائش گاہ ایسی لگی جیسے یہ کسی فقیر کا گھر ہے ۔ کوئی شان و شوکت نہیں کوئی بڑی کوٹھی نہیں نہ پروٹو کول خود بھی فرش پر صوفے کی گدھی سر کے نیچے رکھ کر سو گئے اور ہمیں بھی فرش پر سلا دیا ۔ صبح ایسا ناشتہ جو عام غریب لوگ کرتے ہیں ہمیں پیش کیا اور خود بھی ہمارے ساتھ ناشتہ کیا ۔ اب سراج الحق صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے امیر ہیں ان کے رہن سہن ان کی سادگی میں ذرا بھر فرق نہیں آیا ان کا ظاہر باطن ایک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جو بات کرتے ہیں وہ دلوں پر اثر کرتی ہے اور اپنے اور غیر سارے ہی ان کا دلی احترام کرتے ہیں ۔ یہ جماعت اسلامی کا خاصا ہے کہ وہ اپنے امیر کے انتخاب میں دولت کو دیکھتی ہے نہ ہی ظاہری شان و شوکت کو پاکستان کے دو ر افتادہ علاقے دیر سے ایک غریب مرد درویش کو اراکین جماعت اسلامی نے امیر جماعت سلامی کے منصب پر بٹھادیا اور دوسری تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو پیغام دیا کہ جماعت اسلامی ہی دراصل حقیقی جمہوری جماعت ہے ۔ جہاں تک بحیثیت وزیر سراج الحق کے کردار کی بات ہے تو بحیثیت وزیر خزانہ ان کی مثالی کارکردگی کو ورلڈ بنگ اور دوسرے اداروں نے سراہا ہے ۔
اگر ہم اپنے دیگر وزراء کرام کے پروٹوکول کی بات کریں اور قومی خزانے سے لوٹی گئی رقم پر نظر ڈالیں تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے وزراء کے پروٹوکول پر درجنوں گاڑیاں رہتی ہیں وزراء کی کوٹھیاں اور بنگلے مارکیٹیں پلاٹس اور پراپرٹی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صاحب بہادر عوام کی خدمت کے لیے وزیر نہیں بنے تھے۔ یہ تو اپنی خدمت کے لیے اس عہدے پر پہنچے تھے ۔ اب تو سیاسی جماعتیں بھی ٹکٹ اسی فرد کو جاری کرتی ہیں جس کے پاس دولت ہو جو مارد ھاڑ کر سکے ۔ امیدواروں سے پیسے لے کر ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں اور جو امیدوار کروڑوں اور لاکھوں روپے دے کرممبر اسمبلی یا سینیٹ کا ممبر بنے گا وہ ممبر منتخب ہونے کے بعد اپنی دی گئی رقم پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ یوں قومی دولت عوام پر خرچ ہونے کے بجائے وزارء و مشیروں کے پیٹ بھرنے پر خرچ ہوگی۔ یہ کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ وہ قومی وسائل جنہیں عوام کی فلاح و ترقی پر خرچ ہونا چاہیے تھا وہ حکمرانوں کی ذاتی عیاشیوں پر خرچ ہو رہے ہیں ۔ پاکستان میں اب آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کرپٹ اور فرسودہ نظام کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔ اس ملک کو سراج الحق جیسی حقیقی قیادت کی ضرورت ہے جو دو مرتبہ سینئر وزیر وزیر خزانہ کی حیثیت سے عملی نمونہ پیش کر چکے ہیں ۔
پاکستان میں اکثر سیاسی جماعتوں پر کرپشن کے الزامات ہیں جو صرف الزامات ہی نہیں بلکہ اکثر سیاسی جماعتوں کے ممبران اسمبلی وزراء پر کرپشن ثابت ہو چکی ہے ۔ مختلف عالمی اداروں نے اپنی تحقیقاتی رپورٹس میں سیاسی جماعتوں کے ممبران وزراء کو کرپٹ قرار دیاہے ۔ صرف جماعت اسلامی ہی ایک ایسی جماعت ہے جس کے کسی وزیر یا ممبر اسمبلی پر اب تک انگلی نہیں اٹھی ۔ مخالفین نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح کرپشن کا کوئی الزام لگایا جائے لیکن کسی وزیر یا ممبر پر کرپشن کا کوئی کیس ثابت نہیں ہو سکا۔ اب یہ پاکستانی عوام کا امتحان ہے کہ وہ ہمیشہ کرپٹ لوگوں کو اپنا حکمران بناتے رہیں گے یا سراج الحق جیسے دیانت دار امانت دار ہر قسم کی کرپشن سے پاک فرد کا انتخاب کر کے خوش حال پاکستان اور اسلامی پاکستان کی بنیاد رکھیں گے ۔مستقبل عوام کے ہاتھ میں ہے ۔ عوام نے ہی اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنا ہے کہ کون لوگ ہیں جو ان کے حقوق کے حقیقی محافظ ہو سکتے ہیں ۔