بنگلہ دیشی حکومت نے بھارتی ایما پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی کو پیرانہ سالی میں پھانسی دے کر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ۔ مطیع الرحمن نظامی کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے پاکستان کو دو لخت کرنے کی مخالفت اور متحدہ پاکستان کی حمایت کی تھی ۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیوں کی سزائیں بھارتی حکمرانوں کی ایما پر دی جا رہی ہیں ، اب تک درجن سے زیادہ سے زائد رہنماؤں کو پھانسی دی چکی ہے اور متعدد جیلوں میں بند پھانسی پر لٹکائے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی طرف سے ان تمام معاہدوں کی سراسر خلا ف ورزی ہو رہی ہے جن میں یہ طے پایا تھا کہ پرانے مردہ گڑھے نہیں کھوتے جائیں گے ۔9اپریل 1974ء ایگریمنٹ کے حوالے میں پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے کہ اس بحث کو دوبارہ کبھی نہیں چھیڑا جائے گا اور نہ ہی کسی پر مقدمات چلائے جائیں گے لیکن بنگلہ دیش نے کسی عہد و پیمان کا خیال نہیں رکھا اور چن چن کر قائدین جماعت اسلامی کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ اس مرحلے پر حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ عالمی سطح پر جرات مندانہ قدم اٹھاتی ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اس حوالے سے جاندار موقف اختیار کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کو بنگلہ دیش میں ہونے والے عدالتی قتل رکوانے کے لیے کردار ادا کرتے لیکن بد قسمتی سے وزیر اعظم نواز شریف نے اس حوالے سے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا ۔ اگر بر وقت حکومت پاکستان مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی کی سزا دیے جانے پر اقدامات اٹھاتی تو ان کی جان بچائی جا سکتی تھی ۔
حکومت پاکستان کے اس رویے سے بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے لواحقین اور ان کے ہمدردوں کے دل زخمی ہوئے ہیں اور ان کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچی ہے ۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے بنگلہ دیش میں ہونے والی اس سفاکیت سے صرف نظر کیے رکھا ۔ اپوزیشن کو رگڑنا ہو تو وزیر اعظم ایک ماہ میں تین خطابات کرتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش کے حوالے سے جو کردار پاکستان کو ادا کرنا چاہیے تھا وہ ادا نہیں کیاگیا ۔ مطیع الرحمن نظامی پھانسی کے پھندے پر جھول گئے اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی ۔ ان کی پھانسی کے بعد حکومت پاکستان کا روایتی سا رد عمل آنا افسوس ناک ہے ۔ بنگلہ دیش میں رونما ہونے والے واقعات پر حکومت پاکستان کی بے حسی پر جس طرح بنگلہ دیش میں پاکستان کے ہمدردوں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں اسی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری تحریک آزادی جو کہ تحریک تکمیل پاکستان کی جدوجہد میں برسرپیکار کشمیریوں کو بھی مایوسی کا پیغام مل رہا ہے ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیش کے دورے پر اپنے خطاب میں برملا اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ہم نے پاکستان توڑنے میں کردار ادا کیا اور مکتی باہنی کی مدد کی تھی۔ بھارتی وزیر اعظم کے اس اعتراف جرم پر پاکستان کو عالمی عدالت انصاف میں لانا چاہیے تھا لیکن پاکستانی حکمرانوں کو بھارت سے آلو پیاز کی تجارت زیادہ عزیز تھی وزیر اعظم نواز شریف بھارت کا دورہ کرتے ہیں ت و اپنے دورے میں بھی انہیں کشمیر یاد نہیں رہتا بلکہ اپنی ذاتی تجارت اور کاروبار کو اولیت دیتے ہوئے اپنے بیٹے حسن نواز کو ساتھ رکھتے ہیں ۔ دورے کے دوران کشیری قیادت سے ملاقات تو دور کی بات کشمیر کا ذکر تک نہ کرنا ان کے ایجنڈے میں شامل ہوتا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پھر اچانک مودی نواز دوستی کے نئے دورکا آغاز ہو جاتا ہے اور انتہا پسند مودی جب عالمی سطح پر نفرت کی علامت بنتا جا رہا تھا اس لیے کہ مودی سرکار نے بھارت میں انتہا پسندانہ اقدامات کے ذریعے بھارت میں آباد قلیتوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا کبھی گرجا گھر جلائے جاتے تھے کبھی مساجد نذر آتش کی جارہی تھیں ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کا جنازہ نکالا جا رہا تھا ایسے ماحول میں بھارتی وزیر اعظم کی اچانک لاہور یاترا اور رائے ونڈ میں نواز شریف کی سالگرہ اور نواسی کی رخصتی کی تقریب میں شرکت اور دوستی کے تحائف کے تبادلے دراصل مودی کے چہرے پر انتہا پسندی کے لگے داغ دھونے کی کوشش تھی ۔ پاکستانی حکمران بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت میں پھانسی پانے والوں کے لیے اقدامات اٹھانے کی امید لگانا اپنے آپ کو اندھیر ے میں رکھنے والی بات ہے ۔ دوسری جانب بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں پر پاکستان کی اپوزیشن کا وہ کردار جس کی توقع کی جا رہی تھی وہ بھی دیکھنے کو نہیں ملا ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ صرف جماعت اسلامی کا مسئلہ ہے ۔ دنیا میں رونما ہونے والے چھوٹے چھوٹے معاملے پر آسمان سر پر اٹھایا جاتا ہے کئی کئی دن اسے موضوع بحث بنایا جاتا ہے ۔ کاش اس ظلم و بربریت پر بھی جماعتی سیاسی تعصبات سے بالا تر ہو کر آواز اٹھائی جاتی ۔ اولین ذمہ داری حکومت کی تھی جو کہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومتی سطح پر پورے ملک میں احتجاج کی کال دی جاتی ۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل کر بنگلہ دیش حکومت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے لیکن ایسا نہ ہونا حکمرانوں کی نا اہلی کا واضح ثبوت ہے ۔ حکمرانوں کو اپنی اصلاح احوال پر توجہ دیتے ہوئے بنگلہ دیش میں ہونے والی ان پھانسیوں کے خلاف جرات مندانہ پالیسی اختیار کرنا ہوگی ۔ ورنہ تاریخ حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔