تازہ خبریں

مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی میں مفاہمت

تحریر :راجہ بشیرعثمانی

logo-raja-bashir-usmani

 

 

آزاد کشمیر میں انتخابات کی آمد آم دہے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں ہر چار سو کامیابی کے دعوے کیے جا رہے ہیں جو کہ ہر امیدوار کا سیاسی حق ہے ۔ دوسری جانب مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد مفاہت اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا عمل جاری ہے ۔ انتخابات میں اچھے نتائج حاصل کرنے کے لیے ہر سیاسی جماعت کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں سے مدد حاصل کرے اور ایسا ماحول بنائے جس سے عوام کا رحجان اس کی طرف بڑھے ۔ دو رز قبل مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ ہوا ہے ۔ گزشتہ انتخابات میں بھی دونوں جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد ہوا تھا جس کا زیادہ فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا تھا ۔ اس مرتبہ انتخابی ایڈجسٹمنٹ قدرے تاخیر سے ہوئی ہے۔ اگر یہ عمل کچھ عرصہ پہلے ہو چکا ہوتا تو اس کے فوائد بھی زیادہ ہوتے۔ لیکن ابھی بھی مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے اعلان سے مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے کے لیے درپیش مشکلات ختم ہو چکی ہیں۔ مسلم لیگ ن جماعت اسلامی کے تعاون سے متعدد سیٹیں آسانی سے جیت جائے گی جو تنہا انتخابات لڑتے سے جیتنا مشکل تھا ۔ جماعت اسلامی بھی پارلیمانی نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ جماعت اسلامی کا ہر حلقہ میں ووٹ بنک موجود ہے کسی جگہ کم اور کسی جگہ اچھا ووٹ بنک ہے جس کا تجربہ گزشتہ انتخابات میں ہو چکا ہے ۔ جماعت اسلامی کا یہ ووٹ بنک کسی امیدوار کو کامیابی دلانے یا کسی کو ناکام کرنے کے لیے کافی ہے ۔ مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے اعلان کے بعد طے شدہ نکات کی ہر دو اطراف سے پابندی کی جانی چاہیے ۔ دونوں جماعتوں کی بہتری اسی میں ہے کہ جو بھی فارمولا طے کیا جائے اس پر عمل کیا جانا چاہیے ۔
انتخابی اتحاد ہو یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہر دو صورتوں میں کچھ افراد کو قربانی دینا پڑتی ہے ۔ سیاست میں بعض اوقات انتخابات لڑے بغیر آپ اپنے مطلوبہ اہدف حاصل کر لیتے ہیں سیاسی فیصلوں میں تحمل ، برداشت ، دور بینی ، دور اندیشی ، راواداری کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے ۔ محض خواہشات کے پل تعمیر کرنے کے بجائے زمینی حقائق پر باریک بینی سے نظر ہونی چاہیے سیاست میں اکثر اوقات ایسے فیصلے بھی قبول کرنے پڑتے ہیں جو وقتی طور پر آپ کے لیے قبول کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن آنے والے وقت میں ان فیصلوں کے نتائج آپ کے لیے سود مند ہوتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے فیصلے کی روشنی میں مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہونی ہے ۔ کارکنان جماعت قیادت کے فیصلوں کی پاسداری کرتے ہوئے ان فیصلوں پر عمل درآمد کریں ۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے اس فیصلے کے بعد کسی طرف سے منفی تبصرے اور تجزیے کسی طور درست قدم نہیں ہے ۔اس طرح کے منفی تبصروں اور تجزیوں سے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو بھی روکا جانا چاہیے ۔ جدید دور میں اگر آپ کے پاس سوشل میڈیا کی سہولت موجود ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ جس کی چاہیں پگڑی اچھالیں اور جس پر چاہیں بے جا تنقید ور تبصرہ کر ڈالیں بعض اوقات خاموش رہ جانا بولنے سے زیادہ اچھا ہوتا ہے ۔ بولیں تو اچھا بول لکھیں تو اچھی تحریر ورنہ خاموش رہنا اچھا ہے ۔ مختلف جماعتوں کی طرف سے پارٹی ٹکٹ جاری ہونے کے بعد رد عمل برپا ہے ۔ کل تک اپنی قیادت کے گیت گانے والے آج ٹکٹ نہ ملنے پر قیادت کے خلاف اخلاقیات سے گرے ہوئے بیانات داغ کر اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں ۔ یہ عمل بھی انتہائی نامناسب اور کارکنوں کی اخلاقی و سیاسی تربیت میں کمی کا نتیجہ ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سیٹ کے لیے بیس افراد درخواست دیں تو پارٹی سارے بیس افراد کو ٹکٹ جاری کرے دے ٹکٹ تو صرف ایک فرد کو جاری ہوتا ہے باقی امیدوار صبرو تحمل اور برداشت سے کام لیں جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔ انتخابات میں حصہ لینے والے تمام افراد کو چاہیے کہ وہ اخلاقیات کا دان ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔ اخلاقی دائرے کے اندر رہتے ہوئے ایک دوسرے پر تنقید کی جائے ۔ اپنا پروگرام منشور لوگوں کے سامنے رکھا جائے۔منشور پروگرام کے حوالے سے ہی لوگوں سے ووٹ مانگے جائیں آزاد کشمیر کا خطہ تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ ہے ۔ انتخابات کو بہرصورت پر امن ماحول میں منعقد کیا جائے سیاسی جماعتوں کی قیادت اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار ان غیر اخلاقی گفتگو اور خطابات سے گریز کریں ۔ آزاد کشمیر کی پر امن فضا کو برقرار رکھا جائے۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے اس ماہ مبارک کے تقدس کا خیال رکھا جانا چاہیے ۔ انتخابی مہم کے دوران اپنے اپنے پروگرام اور منشور عوام کے سامنے رکھ کر ان سے ووٹ مانگے جائیں اپنی انتخابی مہم میں ایسے اقدامات سے گریز کیا جانا چاہیے جس سے پر امن ماحول خراب ہونے کا خدشہ ہو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام امیدواران کو ضابطہ اخلاق کی پابند کروائیں۔