ڈاکٹر مقصود ابدالی نہ تو رسمی ” ابدالین “ ہیں نہ ہی احمد شاہ ابدالی کے خاندان سے ہیں ‘ لیکن ضلع کوٹلی کھوئی رٹہ کے گاﺅں ابدالی میں ایک غریب خاندان میں جنم لینے والی اس عالمی شخصیت نے ابدالی گاﺅں کو ترقی یافتہ دنیا میں بھی متعارف کرا دیا ہے ۔
کہانی طویل ‘ دلچسپ ہے کہ آپ نے ابتدائی تعلیم کہاں کہاں اور کن مشکل حالات میں حاصل کی ‘ لیکن میرے کالم کا جہاںتنگ دستی کا شکار ہے ۔ آپ پی ایچ ڈی پروفیسر نہیں ‘ بلکہ ایف آر سی ایس لنڈن ہیں ‘ لیکن اس سے قبل ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد سے پانچ گولڈ میڈلز ایم بی بی ایس پر حاصل کر کے پاکستان میں ریکارڈ قائم کیا ۔ ان کے کلاس فیلوز کو بھی حیرت ہوگی کہ چھ فٹ سے اوپر بلند قد بھر پور جسم کے اس نوجوان ڈاکٹر نے ایم بی بی ایس کو لوٹ لیا ہے ۔ ہمارے لیے کیا چھوڑا ہے؟ بنیادی طور پر آپ ایم آر سی پی کرنے برطانیہ پہنچے ۔ چار گولڈ میڈلز ایم بی بی ایس میں حاصل کرنے والے اس نوجوان کو پشاور یونیورسٹی بھی وظیفہ پر باہر بجھوانے کے لیے تیار تھی ۔ لیکن 1985ءمیں سردار سکندر حیات خان آزاد کشمیر میں وزیرا عظم تھے ‘ وہ پشاور یونیورسٹی ‘ ایوب میڈیکل کالج کی الوداعی تقریب میں مہمان خصوصی تھے ‘ پرنسپل نے جب بتایا کہ چار گولڈ میڈلز حاصل کرنے والا یہ ڈاکٹر آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والا ہے ۔ آپ نے فرط جذبات میں اعلان کیا کہ وہ اس ڈاکٹر کی بیرون ملک اعلیٰ تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں گے لیکن بعد کے حکومتی معاملات میں سکت مشکلات پیش آئیں ۔ مشکل سے مسئلہ حل ہو ا۔ ڈاکٹر ابدالی بہر حال یو کے پہنچ گئے ۔ ایم آر سی پی سے ایف آر سی ایس کی طرف شفٹ ہو گئے ۔ یہ ان کی اپنی پسند تھی ۔ یو کے پہنچنے کے لیے ادھارا ہوائی ٹکٹ لیااور ایڈنبرا ان کی پہلی منزل ٹھہری ۔
” سردیوں “ کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
یو کے میں اپنی صلاحیت ‘ محنت اپنے مقصد سے لگن اور دیانت دارانہ طرز عمل نے آپ کے لیے علمی اور فنی کامیابیوں کے راستے تیزی سے وا گئے ۔ آپ کی مین سپیشلیٹی ٹروما اینڈ آر تھو پیڈکس ہے ۔ یہ ایک وسیع شعبہ ہے ۔ جس میں ڈاکٹرز کم تعداد میں پائے جاتے ہیں۔یہ سرجری بہت نازک اور بقول ڈاکٹر ابدالی ‘ اس کام کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ ڈاکٹر کا دماغ‘ آنکھ اور ہاتھ یعنی چھری اور قینچی میں ہم آہنگی ہو ۔ اس شعبہ کی میڈیکل ٹرمز کا بیان میری صلاحیت سے باہر ہے ‘ لیکن اسے ” جوڑوں “ کی سر جری کہہ سکتے ہیں ۔ کسی کا گھٹنا یا کہنی میں درد ہو خراب ہو جائے ‘ انسان معذور ہو جاتا ہے ۔ڈاکٹر ابدالی اسے ٹھیک کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے شعبہ میں کتنے اعلیٰ کورسز کیے کس کس سطح کی تعلیم و تربیت حاصل کی ‘ کن کن سیمنارز‘ سپموزیاز‘ ورکشاپوں ‘ کانفرنسوں میں کہاں اور کب شرکت کی اور ان کے کتنے ریسرچ پیپرز دنیا کے سائنٹیفک جرنلز Scientific Journalsمیں شائع ہوئے ؟ یہ ہم عام لوگوں کی پہنچ سے باہر کی بات ہے ۔ یہ اعلیٰ پایہ کے ڈاکٹروں کا مسئلہ ہے ۔
لیکن ڈاکٹر صاحب نے 29مارچ کی پریس کانفرنس جس کا اہتمام ہمارے عزیز دوست محترم پروفیسر محمد صغیر قمر الرحمہ اسلامک ریلیف پاکستان نے کیا ‘ میں بہت سی باتیں ہماری سرکاری اداروں ‘ حکام ‘ سیاست دانوں ‘ معاشرتی رحجان بارے کیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ ملک کے خیر خواہ نہیں ‘ محض اپنے لیے زندہ ہیں ۔ صغیر قمر نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر ابدالی صاحب سے انہوں نے کیمسٹری پڑھی ہے ‘ یہ ایک ہی علاقے کے رہنے والے ہیں ‘ مجھے اس پر ساتویں عیسویں صدی کے دو فلسفیوں اور نابغہ شخصیات میں سے ایک نظام الملک وزیر اعظم کا یہ شعر یاد آ گیا۔
ماو مجنون ہم سفر بودیم در میدان عشق
او بہ صحرا رفت و من در کوچہ ہا رسوا شدیم !
لیکن مجھے ہنسی اس وقت آئی جب صغیر قمر کے دو گولڈ مٹول بچوں میں سے ایک نے فی البدیہہ اپنے والد سے پوچھا ” آپ کے استاد ابھی زندہ ہیں۔“
پروفیسر ڈاکٹر محمد مقصود سے اخبار نویسوں نے سوال کیا ۔ آپ اپنی ان کامیابیوں اور صلاحیتوں سے اپنے ملک کو کیا دیں گے ؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ۔میں نے دو تین بار اپنے ملک واپس آ کر اپنے فن کو تقسیم کرنا چاہتا کچھ لوٹانے کا ذریعہ تلاش کیا لیکن آزاد کشمیر کے ‘ حکمرانوں سیاست دانوں ‘ مقتدار شخصیات خصوصاً شعبہ طب کے ” خداﺅں “ کو میری واپسی پسند نہ آئی ۔ بڑا تلخ تجربہ ہوا ۔ Humiliationتوہین تک کرائی ۔
یہ 1998ءکی بات ہے تب ایک وزیر اعظم آزاد کشمیر کے پاس پہنچا ‘ ان دنوں حکومت پاکستان کی طرف سے ایک سیکریٹری ہیلتھ ہوا کرتے تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ ایک ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ‘آزاد کشمیر ، ڈی جی نے مجھے سیکرٹری ہیلتھ کے سپرد کیا ۔ سیکرٹری ہیلتھ نے اپنے پاس بیٹھے ڈی جی ہیلتھ سروسز سے کہا ۔ ” آپ ان ڈاکٹرصاحب کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟ “ ڈی جی صاحب نے جواب میں کہا ” ہمیں اس ڈاکٹر کی ضرورت ہے نہ شعبہ کی ۔“ ظاہر ہے میری اعلیٰ ڈگریوں اور سطح سے ان کو فون آیا ہوگا کہ ہمیں فارغ کر دے گا ۔ صحافیوں نے ڈاکٹر صاحب سے اس وزیر اعظم ‘ سیکرٹری ڈی جی کا نام پوچھا ” ہم ان کو جوتے لگانا چاہیں گے“ ڈاکٹر صاحب نے کہا‘ میں کچھ نہیں کہتا ‘ انہوں نے ملک اور عوام کا نقصان کیا ۔اس کے علاوہ اسی سطح کا ایک اور ” تجربہ “ ڈاکٹر صاحب نے سنایا ۔
یو کے میں ایک عالمی سطح کا ڈاکٹر کیا ماہانہ یا سالانہ کماتا ہے ‘ اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پھر بھی ڈاکٹر صاحب ان کی اہلیہ جو خود بھی ڈاکٹر ہیں ‘ ہر سال اپنے گھر ‘ گاﺅں میں آتے ہیں ضرورت مندوں کا علاج کرتے ‘ ان کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ا یسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہوں یہ بڑے حوصلے اور اطمینان کی بات ہے ۔پریس کانفرنس کے دوران میں شعبہ طب کے حوالے سے ڈاکٹر ابدالی نے بڑے کام کی باتیں کیں جو ہمیں دعوت فکر و عمل دیتی ہیں۔
آپ نے کہا پاکستان میں جتنی دوائیاںکیمسٹ کے پاس موجود ہوتی ہین ‘ انڈیا میں کیمسٹ کے پاس اس کا نصف اور برطانیہ میں اس کا چوتھا حصہ ۔ ایسا کیوں ہے ؟ پاکستان میں ادویہ ساز کمپنیاں ‘ ایک ہی دوا کا نام Spellingملتے جلتے ادویہ کے نام کا فائدہ اٹھا کر متعلقہ اتھارٹی ڈاکٹروں کو دو کروڑ روپیہ رشوت دے کر ملک میں رائج کر دیتے ہیں اور پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز بھی دہری بے ایمانی کرتے ہیں ۔ وہ اس طرح کہ کوئی مریض ان کے پاس آتا ہے ‘ اس سے پوچھتے ہیں ‘ پہلے کس کا علاج کرایا ہے نسخہ کہاں ہے ؟ اس مریض کو متبادل دوا لکھ دیتے ہیں ‘ مریض سے فیس وصول کر لیتے ہیں ۔ ایک ہی مرض پر چار چار متبادل دوائیں ‘ مرض کو اور بڑھا دیتی ہیں ڈاکٹروں سے مایوس مریض پھر پیروں ‘ فقیروں کا شکار بنتے ہیں یا عطائی ” ان کی کھال اتارتے ہیں‘ ہر صورت میں غریب مریض ہی لٹ رہا ہے ۔
ڈاکٹر محمد مقصود ابدالی جہاں اپنے قد کاٹھ ‘ مضبوط جسم پر وجاہت چہرہ خوش لباسی کے حوالے سے توجہ کا مرکز تھے وہاں ان کی ذہانت ان کی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی گفتگو کا انداز ‘ واضح بیان ‘ مقصد کی بات اور اعتماد سچ کی جھلک نے پریس کانفرنس میں موجود ذہین ‘ فطین نمائندوں کو ” ہمہ تن گوش“ کیے رکھا ۔ سوالوں کے سیشن میں بھر پور تسلی بخش جوابات دیے ۔ ڈاکٹر صاحب نے بعض امراض کی تحقیق کے سلسلے میں سافٹ ویئر بھی خود تیار کیا جس کو ترقی یافتہ ممالک میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ انسان کے اپنے خون سے بعض امراض کے علاج کا ایک منصوبہ بھی آپ چلا رہے ہیں ۔ گھٹنے کے علاج ‘ جوڑوں کے درد اور اس نوع کے امراض پر تحقیقی کام ہو رہا ہے ۔ دو سو ریسرچ پیپرز آپ کے شآئع ہو چکے ہیں ۔ اتھرائٹس کو Delayکرنے کا ذریعہ آپ نے معلوم کیا ۔ ڈیفکٹ پلک جو آپ کا کام تھا اس پر یو کے میںا خبارات نے ان کو اس طرح خراج عقیدت پیش کیا۔
”A Lincons Wonder Surgeon“ آپ فی الوقت ڈاکٹر ابدالی لنکنز Lincon کے ایک ہسپتال میں کلینیکل ڈائریکٹر آف سرجری (آرتھو پیڈک کنسلٹنٹ) اور لنکن یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر ہیں ۔ یہ حکایت لذیذ ختم کرنے کو جی نہیں چاہتا .... مگر شائع کرنے والوں کے ہاں Spaceکم ....!