تازہ خبریں

اصلاحِ ملت کے لیےجماعت اسلامی کا قیام

1935سے 1947ء کے درمیانی دور میں ہندوستان کے حالات بہت نازک تھے۔ خصوصاً مسلمان بہت پریشان تھے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں ہندؤں کی تعداد زیادہ تھی اور ان کی طاقت اوراثرورسوخ بھی مسلمانوں سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا تھا، دوسری طرف ہندوستان کی آزادی کے لیے بھی کوشش ہورہی تھی،اگر انگریز ہندوستان کو اکثریت کے حوالے کر کے جاتے اوروہاں ہندوؤں کی حکومت بن جاتی تو پھر مسلمانوں کی قابلِ رحم حالت کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہ تھا،اگر انگریز مسلم لیگ کے مطالبے کو مان لیتے اور پاکستان بن جاتا، تو سوال یہ تھا کہ ہندوؤں کے ماتحت ہندوستان میں رہ جانے والے تقریباً ایک تہائی مسلمانوں کی حالت کیا ہوگی اور وہ کس طرح زندگی بسر کریں گے اور ان کا سیاسی سہارا کون ہوگا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ایک اسلامی حکومت کے قائم ہونے کی کیا امید تھی کیونکہ جولوگ پاکستان کی تحریک چلا رہے تھے ان میں چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب وہ تھے جو اپنی عملی زندگی میں اسلام کے بنیادی فرائض بھی پورے نہیں کرتے تھے۔ اس لیے ایسی کسی ٹیم کے ذریعے پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام ممکن نظر نہ آتا تھا۔ چنانچہ سید مودودیؒ کے اس اندیشے کوبعد کے زمانے نے سو فیصدی سچا بھی ثابت کردیا۔ ان حالات کی روشنی میں مسلمانوں کو ایک ایسی جماعت کی اشد ضرورت تھی جو انہیں آنے والے خطرات اور مشکلات کا مقابلہ کرنےکےلیے تیار کرے۔ جو تقسیم کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کو سنبھالے اور جو پاکستان بن جانے کے بعد وہاں اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے اور اگر ملک تقسیم نہ ہوتومسلم لیگ کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی دوسری دفاعی لائن ثابت ہوسکے۔ چنانچہ سید مودودی نے ترجمان القرآن کے ذریعے ایک پابندِ اسلام جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اور اس سلسلے میں ترجمان القرآن میں مضامین بھی شائع کیے۔ جو لوگ اس تجویز سے اتفاق رکھتے تھے وہ 26 اگست 1941 ء کولاہور میں جمع ہوئے اور"جماعت اسلامی" قائم کی گئی، جس کامقصد قرآن پاک کے الفاظ میں یہ تھا۔

ان اقیمو الدین ولَاتتفرّقُوا فیہ

"یعنی آپس میں اکٹھے ہوکراللہ کے دین کو قائم کرو"

جس وقت جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس میں پورے ہندوستان میں سے صرف 75 آدمی شامل ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں سید مودودی کو جماعت کا سربراہ منتخب کیاگیا۔

حمایت پاکستان

سید مودودی نے جماعت اسلامی قائم کرنے کے باوجود کانگرسی مسلمانوں کی طرح پاکستان کی مخالفت نہیں کی بلکہ اپنا سارا زور مسلمانوں کواصلی مسلمان بنانے پر صرف کیا۔ ایک طرف پاکستان کےقیام کی کوششیں ہورہی تھیں۔ دوسری طرف سید مودودی اور جماعت اسلامی کے لوگ ایک تبلیغی جماعت کی طرح اسلام کی تعلیمات عام کرنے کے لیے کام کر رہے تھے اور مسلمانوں کو خلافتِ راشدہ کے نظام کو بحال کرنے کے لیے ابھار رہے تھے۔ سب جانتے ہیں کہ مسلمان قوم پاکستان بھی اسی لیے حاصل کرنا چاہتی تھی کہ یہاں اسلام کی حکومت قائم کی جائے۔ اس طرح جماعتِ اسلامی اور سید مودودی پاکستان کو اسلام کی بنیادپرمضبوط کرنے کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس سے پہلےوہ نظریہ پاکستان کی حمایت میں بھی پُرجوش مضامین اور کتابیں لکھ چکےتھےاورکانگرس کے ایک قومی نظریہ کے پر خچےاڑا چکے تھے۔ سید مودودی نے کانگرس کے اس نظریہ کہ "اقوام اوطان سے بنتی ہیں" کی دھجیاں بکھیر دیں اور بڑے بڑے کانگریسی علماء ان دلا ئل کے سامنے گنگ ہوگئے۔

سید مودودی پاکستان میں

مسلمانان پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ تقسیمِ ملک کے وقت سید مودودی ہندوستان سے منتقل ہوکر پاکستان میں تشریف لے آئے،لیکن یہاں آکر بھی انہوں نے کمانے، جائیدادیں بنانے یا عہدے حاصل کرنے کی فکر نہیں کی۔ان کو فکر پاکستان کی تھی اور پاکستان کے لیے اسلام کی تھی۔

پاکستان میں پہنچتے ہی سید مودودی نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ انہوں نے پنجاب کے اس وقت کے وزیر اعلٰی سے رابطہ قائم کیااور انہیں مشورہ دیا کہ وہ پٹھان کوٹ سے کشمیر کو جانے والی سڑک پر فوراً قبضہ کرنے کا بندوبست کریں، کیونکہ اگر اس سڑک پر پاکستان نے قبضہ کرلیا تو پھر ہندوستان کےلیے کشمیر کاراستہ بند ہوجائےگا اور کشمیر پر اس کے حملے اور قبضہ کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا لیکن افسوس کہ حکومت نے اس مفید تجویز کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور دور اندیشی سے کام نہ لیا جس کانتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر حاصل کرنے کا ایک مفید اور بہترین موقع پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس وقت نئی حکومت مہاجرین کے مسئلے میں زیادہ مصروف تھی یا شاید اسے صحیح اندازہ نہیں تھا کہ سید مودودی کا مشورہ کتنا قیمتی اوربروقت تھا. اس پر عمل درآمد سے پاکستان کا دردِ سرختم ہوجاتا اور45لاکھ کشمیری مسلمانوں کوآزادی مل جاتی۔ اگر ان کی بات کو بروقت مان لیا جاتا توآج کشمیر پاکستان کے قبضے میں ہوتا۔