تازہ خبریں

library

Islamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic LibraryIslamic Library
 
spinner

پانچ  فروری اورہماری ذمہ داریاں

عبدالرشید ترابی

This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

abdul-rashid-turabi

فروری 2012 ءکے موقع پر ایک مرتبہ پھر اہل پاکستان ، حکومتی اور عوامی سطح پر یوم یکجہتی منا رہے ہیں۔امسال حسن اتفاق ہے کہ یوم یکجہتی کشمیراور عید میلا دالنبی ایک ہی دن یکجا ہو گئے ہیں ۔ عمومی طو ر پر تبصرہ بھی کیا جاتا ہے کہ سال میںمحض ایک دن اظہار یکجہتی کر نے سے کیا حاصل جبکہ حکومتی پالیسیوں کی گنگا بالکل الٹی سمت بہہ رہی ہے ، یقینا یہ تبصرہ بھی قابلِ توجہ ہے،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 5 فروری ہر سال یوم یکجہتی کے موقع پر پوری قوم ایک مرتبہ پھر نئے جذبے سے سرشار ہو کر سڑکوں پر نکل آتی ہے ۔یوں ایک طرف تو اس تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کر تے ہوئے آزادی کے لئے بر سر پیکار کشمیری بھائیوں تک یہ پیغام پہنچاتی ہے کہ آپ اس جدو جہد میں تنہا نہیں اور عالمی سطح پر بھی ببانگ دہل یہ آواز دی جاتی ہے کہ پاکستانی قوم اس مسئلہ سے لا تعلق نہیں رہ سکتی اور اہلِ پاکستان اور کشمیری یک جان دو قالب ہیں۔

5 فروری 1990 ءوہ مبارک گھڑی تھی جب امیرِ جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد صاحب کی اپیل پر اُس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ اور اسلامی جمہوری اتحاد کے قائد حزب اختلاف میاں نواز شریف سمیت پوری قوم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اعلان کیا کہ: ”کشمیریو !تم ہمارے ہو اور پاکستان تمہارا ہے “سیاسی لحاظ سے انتہائی کشیدہ حالات میں تحریکِ آزادی کشمیر کی یکجہتی کے لئے سیاسی حلقوں کا یکجہا ہو جا نا بہت بڑا معجزہ تھا یقینا شہداءکے مقدس خون کی برکت ہے کہ بائیس برس گزرنے کے بعد5 فروری ایک مرتبہ پھر سیاسی اور قومی یکجہتی کا ذریعہ بن رہا ہے۔مسئلہ کشمیر کی بدقسمتی کہ پاکستانی قوم کی غیر مشروط حمایت اور جذباتی وابستگی کے باو جود پاکستان کے حکمرانوں نے اس مسئلہ کے حوالے سے کوئی طویل المعیاد منصوبہ بندی نہیں کی اور ہمیشہ حالات کے دباﺅ کے مطابق اقدامات کر تے رہے ۔ ان دو دہائیوں میں سیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے یہ پہلو اور بھی سنگین ہو گیا ، لیکن اس کے باوجود تحریکِ آزادی کشمیر میں مقامی یا بین الاقوامی سطح پر حکومت نے جو کردار بھی ادا کیا وہ رائے عامہ کے دباﺅ ہی کا نتیجہ تھا جسے برقرار رکھنے میں ”یوم یکجہتی“ نے اہم کردار ادا کیا۔

آج یوم یکجہتی کشمیر ایسے عالم میں منایا جارہا ہے جب بھارتی مظالم اور ریاستی دہشت گردی کا بازار بدستورگرم ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے ی”و ٹرن “کے بعد تحریکِ آزادی کے لئے لا تعداد مسائل پیدا ہو ئے ۔اس وقت یہ لولی پاپ دیا گیاتھا کہ نام نہاد اعتماد سازی کے اقدامات کے بعد مسئلہ کشمیر پر بات ہوگی ، لیکن نو برس گزرنے کے باوجود نہ صر ف بھارت اس مسئلہ پر بات چیت کے لئے تیار ہوابلکہ وہ بدستور اٹوٹ انگ کی رٹ جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی حکومت کے مذاکرات کار جنہوں نے کشمیر کے متعدد دورے کرنے کے بعد سفارشات پیش کیں کہ کشمیر میں مظالم بند کرنے کے لئے فوج کے خصوصی اختیارات ختم کئے جائیں کٹھ پتلی وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھی اسی بات کوانتخابات کا سلوگن بنایا تھا لیکن بھارتی فوج نے ان تمام سفارشات کو یہ کہہ کر سبوتاز کر دیا کہ اگر ایسا کیا گیا تو مجاہدین فی الفور کشمیر پر قبضہ کر دیںگے ۔یوں گویا بھارتی ریاستی مشینری اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کشمیریوں کو کم از کم رعایت دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے ،جس پر مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں بھارتی نواز سیاسی جماعتوں کے ممبران نے بھی سخت احتجاج کیا اور بھارتی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا کہ وہ مسئلہ کا کوئی پر امن حل نہیں چاہتی اور بالجبر ریاست پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

اس عرصہ میںوہاں انسانی حقوق کی صورت حال مزید ابتر ہو گئی ہے۔گزشتہ برس کا بیشتر حصہ قائد حریت سید علی گیلانی سمیت دیگر حریت پسند قائدین جن میں جناب شبیرشاہ، جناب مسرت عالم، جناب محمد اشرف صراحی، جناب میاں قیوم ایڈووکیٹ، جناب مظفر الاسلام اوردختران اسلام کی رہنما محترمہ آسیہ اندرابی حریت کی خاتون رہنما فریدہ بہن جی نمایاںہیںکو مسلسل قید و بند رکھا گیا۔بالخصوص گیلانی صاحب کو عمر اور صحت کی موجودہ کیفیت کے باو جود عوام سے دور رکھنے کی سب سے زیادہ کوشش کی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں نوجوانوں کو جو انتفاضہ کو گزشتہ دو سال میںمذاحمت کا ایک نیا رنگ دینے میں کامیاب رہے ہیں پتھر پھینکنے کے جرم میں پابند سلاسل کیا گیا ،نیز ہزاروں گمنام شہداءکی قبروں کی دریافت پر ساری دنیا میں بھارتی مظالم کی سنگینی کو محسوس کیاگیا ۔

ایمنٹسٹی انٹر نیشنل ،ایشیاواچ جیسی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے لے کربھارت کے اندر انسانی حقوق کی تنظیموں نے جامع رپورٹ مرتب کی اور دنیا کو باور کرایا کہ بھارتی مظالم اور ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لیا جائے،یورپی یونین میں بھارتی مظالم کی سزائے باز گشت گونجی اور سفارش کی گئی کہ انسانی حقوق کا ریکارڈ بہتر کئے بغیر بھارت سے تجارتی تعلقات محدود رکھے جائیں ، اسی طرح برطانوی پارلیمنٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث رہا اور کشمیر یوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی گئی ،سیکر ٹری جنرل O.I.C نے بھی صدائے احتجاج بلند کی ۔ سب سے مؤ ثر آواز بھارت کی شہرت یافتہ دانشور ارون دتی رائے کی طرف سے بلند ہوئی ،جس نے بھارتی ایوانوں کومتزلزل کر دیا اور دنیا میں بھارت کی رسوائی ہوئی ۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ اس بین الاقوامی سازگار فضاسے حکومت پاکستان استفادہ کرتی اور بھارت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر نے کے لئے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی جاتی ، الٹا کشمیریوں کے قاتل اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا فیصلہ کر کے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی اور پاکستان کی سلامتی پر وار کیا گیا ۔ توقع تو یہ تھی کہ بھٹو مرحوم کی پیپلز پارٹی ”کشمیریوں کے لیے ہزار سالوں تک لڑنے “کے اپنے بانی کے اعلان کی لاج رکھتے ہو ئے مشرف کی اختیار کردہ کمزور کشمیر پالیسی سے رجوع کرے گی پاکستان اور کشمیر ی عوام کی خواہشات کی ترجمانی کر تے ہوئے ایک جاندار کشمیر پالیسی اختیار کرے گی اور اس سلسلہ میں کشمیری قیادت سے بھی مشاورت کا اہتمام کرے گی ، لیکن حکومت کی گزشتہ چار سالہ کار کر دگی سے یہ ثابت ہواکہ وہ کام جو مشرف جیسا ڈکٹیٹر بھی نہ کر سکا پیپلز پارٹی کی حکومت نے وہ بھی کردکھایا ۔ جنر ل مشرف سے سو اختلافات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر پر وقفوں وقفوں سے کشمیری قیادت کے لئے گھنٹوں وقت نکالتے تھے ، وزارت خارجہ میں آئے روز مشاورتی اجلاس ہو تے تھے ، لیکن پیپلز پارٹی کے اس چارسالہ دور میں صدر اور وزیر اعظم سے کشمیرپر سنجیدہ مشاورت کی ایک بھی کوشش نہیں کی گئی اور نہ وزارت ِ خارجہ میں کوئی بھر پور اجلاس ہو سکا ۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ تحریکِ آزادی کشمیر کے بیس کیمپ مظفر آباد میں ایک ایسے ٹولے کو بٹھا دیاگیا جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا مظاہرہ کر نے پر تلابیٹھا ہے جس کی واضح مثال کشمیر کابینہ اور اسمبلی کی طرف سے بھارت کو MFN درجہ دینے کی توثیق اوربین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز کے بے باک ترجمان لارڈ نذیر احمد کے خلاف کشمیر اسمبلی میں قرار داد کا پاس ہونا ہے اور اس کے ذریعے آزاد جموں وکشمیر کے باسیوں کو ساری دنیا میں رسوا کرنا ہے ۔

مزید ستم ظریفی یہ کہ کشمیر کمیٹی جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ حکومت پاکستان کو اس غلط پالیسی پر متوجہ کرتی اور اس سلسلہ میں کشمیری قیادت سے مشورہ کرتی ، اس کے بجائے اس نے بھی اس حکومتی فیصلہ کی توثیق کر کے کشمیریوں کے اعتماد کو سخت دھچکا پہنچایا۔ قومی قیادت کا فریضہ تھا کہ وہ حکومتی کمزوری کی اصلاح کے لئے اس کی گرفت کرتی اور رائے عامہ کی رہنمائی کر تی اور الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا بھی قومی مسائل پر حکومت کی رہنمائی کر تے ، اس پہلو سے بھی کشمیر کاز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں اور کشمیریوں کو شدید مایوسی ہوئی ۔ دینی جماعتوں کے علاوہ باقی قومی قائدین بالخصوص کشمیری پس منظر رکھنے والے میاں نواز شریف سے کشمیریوں کو سخت گلہ ہے کہ انہوں نے آگے بڑھ کر کشمیری عوام کی ترجمانی کاحق ادانہیں کیا ، یہی صورت حال جناب عمران خان کی ہے جو کشمیر کے دونوں حصوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ، لیکن حال ہی میں بھارتی پریس کے ساتھ ان کے انٹرویوز نے کشمیریوں کو بہت مایوس کیا ۔ کشمیر کی خبریں قومی اخبارات صرف کشمیر ایڈیشن میں ہی چھاپ کر کشمیریوں کو ہی پڑھاتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا” ٹاک شوز“ کے ذریعے حالات حاضرہ پر سیاستدانوں کو مرغوں کی طرح لڑا کر پوری قوم کو محظوظ کر تے ہیں اور کشمیر پر کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوتی ، کہیں کسی موقع پر یہ پروگرام ہوبھی تو اس میں کشمیری قیادت اور اس مسئلہ کے حقیقی پس ِ منظر کو سمجھنے والے رہنماﺅں کے بجائے خانہ پوری کرنے کے لئے ایسے لوگوں کو مدعو کیاجاتاہے جو اس مسئلہ کے ایجنڈے سے بھی واقفیت نہیں رکھتے ۔ روز مرہ کی یہ ساری صورت حال مقبوضہ کشمیر میں بھی پہنچتی ہے جہاں کے نوجوان سیاسی لحاظ سے بہت باشعور ہیں ۔پاکستان کی طرف سے اس مایوس کن کارکردگی اور پیغام کے باوجود اللہ تعالی کالاکھ لاکھ احسان ہے کہ وہ تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں اور آزادی سے کم کسی حل کو قبول کر نے کے لئے تیارنہیں حال ہی میں خود بھارتی وزارت داخلہ اور”Institute for Research on India and International studies “کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق 54% نوجوان بھارت سے مکمل آزادی کے حق میں ہیں اگرچہ غیر جانبدارانہ سروے ہو تو اصل شرح اس سے کئی زیادہ بتاتے ہیں پھر 95 فیصد نوجوان بھارت نواز سیاسی جماعتوں سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے ، سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کشمیر میں نوجوانوں میں اسلام کے ساتھ وابستگی میں اضافہ ہورہاہے اور نوجوان دینی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان مشکل حالات میں وہاں دینی جماعتوں کو مزید پذیرائی مل رہی ہے۔

حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے اخبارات میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی سرگرمیوں کی تفصیلات شائع ہوئیں جو بہت حیران کن اور حوصلہ افزاءہیں ، بڈگام،اسلام آباد،پلوامہ اور شوپیاں جیسے چھوٹے چھوٹے اضلاع کے اجتماعات میں بیس ہزار سے زائد حاضری رہی ۔ وہاں تمام دینی جماعتوں اور اداروں نے متحدہ پلیٹ فارم سے بھارت کی تہذیبی جارحیت اور بھارتی حکومت کی سرپرستی میں عیسائی اور ہندو تہذیب کا مقابلہ کر نے کے لئے ہمت باندھ لی ہے اس اتحاد کو بھی عوام میں زبر دست پزیرائی حاصل ہو ئی ہے ۔ ان حالا ت میں یکجہتی کا تقاضا یہ ہے کہ آزادی کے لئے بر سرپیکار کشمیریوں کو حوصلے اور امید کا پیغام دیاجائے اور ان سے رسمی یکجہتی سے آگے بڑھ کر اقدامات کئے جائیں جو ذیل ہو سکتے ہیں۔

٭ بھارت کو MNF درجہ دینے کا فیصلہ فوری واپس لیا جائے۔

٭ اعتماد سازی کے حال سے نکلتے ہوئے از سر نو بین الاقوامی اداروں سے رجوع کیاجائے اور انہیں باور کرایاجائے کہ آٹھ سالہ اعتماد سازی کے اقدامات کے باوجود بھارت مسئلہ کشمیرپر بات چیت کے لئے تیار نہیںہے اس لئے عالمی برادری اس میں کشمیریوں کی گلو خلاصی کا کردار ادا کرے ۔ اس سلسلہ میں O.I.C کا خصوصی سربراہی اجلاس یا وزارتِ خارجہ کا اجلاس بلایا جائے اور ایک مرتبہ پھرمؤقف کی تجدید کی جائے۔

٭ O.I.C کے زیر اہتمام کشمیر ریلیف فنڈ کو متحرک کیا جائے۔

٭ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی مظالم کی مذمت کی جائے اور قومی مؤقف کا احیاءکیاجائے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کے حصول کی جدو جہد میں کشمیریوں کی ہر محاذ پر معاونت کی جائے۔

٭ ریاست کے آزادحصّوں یعنی آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو تحریکِ آزادی  کشمیر کاحقیقی بیس کیمپ بنایا جائے ، اس سلسلہ میں ان دونوں خطوں کو مشترکہ کشمیر کونسل کے ذریعہ مربوط کیا جائے۔

٭ اس سلسلہ میں ایکٹ۔ 74 میں ضروری ترامیم کا اہتمام کیاجائے اور آزاد حکومت کو سفارتی محاذ پر متحرک کردار اداکرنے کا اختیاردیاجائے۔

٭ پاکستان کی ہر اچھی یا بری خبر مقبوضہ کشمیر میں اپنے اثرات مرتب کرتی ہے اس لئے علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں کا قلع قمع کیاجائے،بالخصوص دہشت گردی کے نام پر ملک میں خانہ جنگی کی جو کیفیت پیدا ہو چکی ہے اس سے نکلاجائے یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ اس جنگ سے علیحدگی اختیار کی جائے

٭ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کی روشنی میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی اور فلاحی ریاست بنایا جائے کہ ایک مستحکم اسلامی جمہوری پاکستان ہی تحریکِ آزادی  کشمیر کا حقیقی ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔